فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

دسمبر کی ایک سرمئی شام سنگاپور کے ہسپتال میں دامنی چل بسی۔ فضاؤں میں گونجتی چیخ و پکار، جسم پر زخموں کے نشان۔ دامنی کے بوڑھے باپ نے جب اپنی بیٹی کی موت کی خبر سنی تو اس کی آنکھوں میں آنسو ٹھہر گئے۔

تیئس سالہ دامنی اپنی موت سے ہندوستان کی کروڑوں عورتوں کو یہ پیغام دے گئی کہ اب ان کو اپنے حقوق کے لیے خود کھڑا ہونا ہے، مزاحمت کرنی ہے اور مردانہ برتری کے خبط کے شکار اس معاشرے میں توازن قائم کرنا ہے۔

ریاست کے صدر سے وزیراعظم اور حکمران جماعت کی سربراہ تک سب نے اس واقعہ پر نہ صرف افسوس کا اظہار کیا بلکہ مجرموں کی فوری گرفتاری کے وعدے بھی کیے۔ پاکستان میں میڈیا نے اس واقعہ کو غیر متوقع طور پر بھرپور کوریج دی لیکن شومئی قسمت یہ وہی ملک ہے جہاں مختاراں مائی کے قاتلوں کو عدالت نے رہا کر دیا تھا۔ وہ بے بس عورت جو اپنے بھائی کے گناہوں کی سزا سرِ بازار بھگتتی رہی، پاکستانی میڈیا نے اسے تماشہ بنا ڈالا اور ملک کے صدرِ مملکت یہ کہنے سے بھی نہ ہچکچائے کہ پاکستانی عورتیں بیرونی ممالک کے ویزا کے حصول کے لیے اپنے ساتھ خود زیادتی کرواتی ہیں۔

یہ ہمارے جاگیردارانہ معاشرے کا ایک روپ ہے، ایک ایسا معاشرہ جس میں عورت کی آہوں کا سودا جاری ہے۔

دامنی ہسپتال میں تڑپ رہی تھی اور ہندوستان کے دارالحکومت میں بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔ ہر لڑکی خود کو عدم تحفظ کا شکار تصور کرنے لگی تھی کہ ہندوستان میں ہر روز کتنی ہی عورتیں مردانہ ہوس کی  اس طاقت کا شکار ہوجاتی ہیں مگر ہمیں یہ سب کچھ صرف ہندوستان میں ہی دکھایی دیتا ہے اور اپنے ہی ملک کے بارے میں ہماریآنکھیں بند رہتی ہیں۔

دو ہزار دس میں دسمبر کی ایک ایسی ہی شب کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں دو لڑکیاں ریپ کا شکار ہوئیں اور کئی گھنٹوں تک شہر کی ایک اہم شاہراہ کے کنارے تڑپتی رہیں۔

ان کی امیدوں کا قتل کرنے والے چار ملزم گرفتار ہوئے لیکن اس کے بعد مکمل خاموشی چھاگئی۔ میڈیا میں کوئی فالو اَپ نہیں آیا۔ جب ایک اخبار کے رپورٹر نے پولیس افسر سے سوال کیا تو جواب ملا ’یہ لڑکیاں مختاراں مائی نہیں ہیں، یہ دوسری مائیاں ہیں۔‘ شاید یہی وجہ تھی کہ ان لڑکیوں نے پولیس میں رپورٹ درج نہ کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان میں سے ایک باہمت لڑکی ایک دوست کے مشورے پر جب ایف آئی آر درج کروانے گئی تو پولیس اہلکار کا مطالبہ ایک ہی تھا کہ 'کیا اس کے پاس قائداعظم ہے؟‘ کبھی یہ لڑکیاں ’ناچنے والی‘ قرار پائیں تو کبھی ان پر ’کال گرل‘ ہونے کا الزام عائد ہوا۔ یوں ان کے ریپ کا جواز پیدا کرلیا گیا اور پولیس اپنی ذمہ داری سے عہدہ برأ ہوگئی۔

اگر یہ ملک کے سب سے بڑے شہر کا احوال ہے جسے ایک ترقی یافتہ سوچ کا حامل سمجھا جاتا ہے، جو روشنیوں سے جگمگاتا، خواب اور حقیقت کے درمیان معلق ہے تو ان شہروں کا کیا حال ہوگا جو ابھی تک جہالت کی تاریکی میں لٹکے ہیں؟

بلوچستان میں عورتوں کو بھوکے کتوں کے آگے چھوڑ دیا گیا، ان پر بدترین تشدد کیا گیا اور پھر زندہ درگور کر دیا گیا۔ قصور ان کا عورت ہونا تھا۔ یہاں تک کہ ایک سیاسی رہنما نے اس عمل کی حمایت تک کر ڈالی اور کہا کہ اس نوعیت کے واقعات پر تنقید درست نہیں، یہ صدیوں پرانی روایات ہیں جن سے انحراف ممکن نہیں۔

ان موصوف کے خلاف کوئی مذمتی قرارداد آئی اور نہ ہی ان کی پارلیمان کی رکنیت منسوخ ہوئی۔ ہر معاملے میں حکومت سے ’پنجہ آزمائی‘ کے شوقین ادارے نے بھی کوئی سوموٹو نوٹس نہیں لیا اور یہ صاحب اس وقت بھی وزارت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

سوات میں ایک نہتی عورت پر کوڑے برسائے جاتے رہے، ویڈیو نشر ہوئی، سوات میں آپریشن ہوا اور معاملہ ختم۔!

ہندوستان میں روزانہ سینکڑوں عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں بھائی کی سزا بہن کو دینے کی روایت زیادہ عام ہے۔ باپ کے گناہ بیٹی کے سر تھوپے جاتے ہیں۔ زیادتی کی شکار لڑکیوں کو کال گرل قرار دے کر زیادتی کے عمل کو اس کی کسی چال سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر ہم اسے دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

دامنی پر سراسر ظلم ہوا، اس پر دو آنسو بہائیے، ہندوستان میں اخلاقی اقدار کی پامالی پر واویلا کیجئے اور خاموش ہوجائیے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کی غلطی مت کیجئے گا کہ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔

آٓپ کو انصاف چاہیے تو آپ کو قائداعظم کا سہارا لینا ہوگا۔ اہلِ وطن نے بانی پاکستان کے ساتھ کچھ ایسا سلوک کیا ہے کہ وہ ایک انسان، ایک رہنماء یا ایک قائد سے زیادہ ’برائے فروخت‘ کا اشتہار بن کر رہ گئے ہیں۔

معاملہ یوں ہے کہ مذہبی جماعتوں کے قائداعظم ’ملا عمر‘ سے مماثلت رکھتے ہیں اور لبرلز کے جناح ’مصطفی کمال اتاترک‘ کے ہم زاد۔ ان کا فلسفہ،  ان کی فکر لائبریری کے کسی نیم تاریک گوشے میں پڑی گل سڑ رہی ہے اور ہم پورے خشوع و خضوع  کے ساتھ ’قائداعظم کے پاکستان‘ کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں تاکہ عورتوں کی آنکھوں سے گِرتے آنسو ہماری نظروں سے اوجھل رہیں۔


ali zaef-80 علی ظیف صحافی اور پرجوش کہانی کار ہیں اور قلم کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں