فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے فاٹا میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے، دس بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندہ فاٹا کمیٹی نے اپنی سفارشات کچھ عرصہ قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سپرد کردی تھیں۔

کمیٹی نے اپنی سفارشات میں، فاٹا میں منصفانہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے وہ تجاویز پیش کی ہیں، جن پر اسے الیکشن کمیشن کی طرف سے عمل درآمد کی توقع ہے۔

اگر وفاقی حکومت، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن، فاٹا میں شفاف انتخابات، قبائلی ایجنسی کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے، نیز یہاں موجود عسکریت پسندی میں کمی کی خواہاں ہیں تو ان کے لیے یہ ٹھوس تجاویز نہایت اہم اور جامع ہیں۔

اگست، سن دو ہزار گیارہ میں پولیٹکل پارٹیز ایکٹ مجریہ دو ہزار دو کو فاٹا تک توسیع دیے جانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہاں کی سیاست کو پاکستان کے مرکزی سیاسی دھارے سے جوڑا جائے۔

اس طرح مرکزی دھارے سے مراد وہ طریقہ ہے جس میں انتظامی اور معاشی بہتری کے اقدامات بھی ساتھ ساتھ ہوں۔ تاکہ حقیقی معنوں میں فاٹا کو وہ سیاسی راہ مل سکے، جس پر چلتے ہوئے وہ قومی سطح پر فیصلہ سازی میں کردار ادا کرسکیں۔

اس طرح کے سیاسی عمل میں شمولیت سے فاٹا کی وہ پسماندگی بھی دور کی جاسکتی ہے جو دہائیوں سے اس علاقے اور وہاں بسنے والوں کا مقدر بنی ہوئی ہے۔

یہ عمل وہاں کے لوگوں میں عسکریت پسندی کے رجحان کی شدت میں کمی بھی لاسکتا ہے تاہم ملکی مستقبل کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ فاٹا میں بسنے والے لوگوں کے لیے پہلا قدم اٹھانے پر غور کیا جائے، ورنہ سب کچھ بے اثر ہوسکتا ہے۔ ہمارے سامنے ابھی بہت سے چیلنجز کھڑے ہیں۔

اول، اس وقت فاٹا کی تمام ایجنسیوں بالخصوص جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، کُرّم، اورکزئی اور خیبر ایجنسی وغیرہ میں عسکریت پسندوں کا نیٹ ورک اچھی طرح پھیل چکا ہے۔

گذشتہ دو دہائیاں اس بات ثبوت ہیں کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے فاٹا کی مختلف ایجنسیوں کا کنٹرول حاصل کرنے کی مسلح کوششیں جاری ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ باجوڑ، مہمند اور مالا کنڈ ایجنسجیوں اور جنوبی وزیرستان کے کچھ علاقوں میں، سن دو ہزار نو سے بارہ تک کے دوران، فوجی آپریشن کے ذریعے کسی حد تک حالات معمول پر لائے جاچکے ہیں۔

تاہم، اب بھی مختلف علاقوں میں سماجی سطح پرعسکریت پسندوں کا غلبہ موجود ہے، جو نہ صرف فاٹا میں عمومی سیاسی عمل بلکہ خاص طور پر تمام آزاد جمہوری سیاسی قوتوں کے لیے خطرہ ہے۔

جس کے باعث عام انتخابات کے حوالے سے نہ صرف متعدد خطرات درپیش ہوسکتے ہیں بلکہ یہ فاٹا میں حقیقی نمائندوں کے انتخاب کا عمل بھی متاثر کرسکتا ہے۔

دوم، اب تک فاٹا کے تمام قبائلی علاقوں میں سول انتظامیہ کو مکمل طور پر معمول کا عمل شروع کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاسکی ہے۔

علاقے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی عمل داری کی غیر موجودگی کے سبب ووٹوں کے اندراج، پولنگ اسٹیشنز و بوتھ کی الاٹمنٹ، ریٹرننگ افسران کی تعیناتی جیسے معاملات طے ہونے میں سنجیدہ رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں۔

مہم سے لے کر ووٹوں کی گنتی تک، متعدد سوالات اٹھتے ہیں، خاص کر خواتین کے ووٹوں کے حوالے سے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھتا ہے۔

مزید برآں، امن و امان کی سنگین صورتِ حال کے باعث، فاٹا کے مختلف علاقوں سے عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے سیکڑوں لوگ (آئی پی ڈیز) بھی اب تک اپنے آبائی علاقوں کو واپس نہیں پلٹ سکے ہیں۔

سوم، اس بات کا خدشہ ہے کہ علاقے میں عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کی موجودگی اور فوج کی نگراں چیک پوسٹوں کے باعث سیاسی جماعتیں آزادانہ طور پر انتخابی مہم نہیں چلا سکیں گی۔

اس بات کا بھی اندیشہ موجود ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈرز کو اپنی انتخابی مہم کے دوران عسکریت پسندوں کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنے پڑے گا۔

فاٹا میں آباد لوگوں اور آئی پی ڈیز سے ملاقاتوں کے بعد قابلِ اطمینان یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کی اکثریت علاقے میں سیاسی بنیادوں پر انتخابی عمل کی حمایت کرتی ہے۔ یہ بات لائقِ تقویت ہے کہ وہاں کے لوگ اصلاحات کے خواہاں ہیں، مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہونے اورعسکریت پسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

قبائلی علاقوں میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی غرض سے بعض تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں:

اول، جیسا کہ فاٹا کمیٹی نے بھی تجویز کیا، الیکشن کمیشن کو فاٹا میں ووٹوں کے اندراج کے لیے فوری طور پرانتظامات کرنے چاہئیں۔

الیکشن کمیشن متصل اضلاع سے تعلق رکھنے والے افسران کو انتخابات کے دوران یہاں بطور ریٹرننگ افسران تعینات کرنے کے لیے بھی ضروری انتظامات کرے۔ واضح رہے کہ اس ضمن میں اب تک کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔

نہ صرف فاٹا میں موجود ووٹرز بلکہ مختلف علاقوں میں بکھرے آئی پی ڈیز کے لیے بھی حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے واسطے، با آسانی قابلِ رسائی کے حامل پولنگ بوتھ الاٹمنٹ کا عمل ہنگامی بنیادوں پر شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

ذہن نشیں رہے کہ فاٹا میں کسی ایک مقام پر گنجان آبادی ہونے کے بجائے، بستیاں ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر اور منتشر انداز میں موجود ہیں۔ جس کے باعث پولنگ اسٹیشنوں اور پولنگ بوتھ کے قیام کا عمل، وقت اور محنت طلب ہوسکتا ہے۔

دوم، وفاقی حکومت کو چاہیے کہ پولیٹکل انتظامیہ اور فوج کے ساتھ مشاورت کے ذریعے فاٹا میں سکیورٹی کا خاص طریقہ کار تیار کرے تاکہ امیدوار اور ووٹرز، دونوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

بالخصوص، سکیورٹی فورسز کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس بات کو یقینی بنانے کے اقدامات کریں کہ انتخابی عمل کے دوران عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کی طرف سے نہ تو کہیں پر حملہ ہوسکے اور نہ ہی کسی امیدوار کے اغوا کی کوشش ہو۔

نیز، ووٹرز اور امیدوار کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ عسکریت پسندوں کی تمام سپلائی لائنیں کاٹ دی جائیں۔

سوم، وہ تمام سیاسی جماعتیں جو فاٹا کے انتخابات میں حصہ لینے کی خواہشمند ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ متحد ہو کر متفقہ طور پر کھیل کے بنیادی اصول طے کرلیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں متحد ہو کر انتخابات میں حصہ لیں بلکہ وہ اتفاقِ رائے سے سازگار ماحول کے قیام کے اصول طے کرلیں، جس سے انتخابی عمل میں آسانی ہوسکے

فاٹا کے حساس سکیورٹی معاملات اور مقامی سماجی و سیاسی حالات کے پیشِ نظر، سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تیار کیے گئے ضابطہ اخلاق کے علاوہ، فاٹا انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہوگا کہ یہاں موجود خطرات سے ایک دوسرے کو محفوظ رکھنے اور ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے مل کر رہنما اصولوں پر اتفاقِ رائے کرلیں۔ انہیں کارنر میٹنگوں کے انعقاد میں بھی ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے۔

سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر وفاقی حکومت کی مدد سے، خیبر پختون خواہ حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر فاٹا میں موجود کم از کم بعض عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ خیر سگالی کے لیے حکمتِ عملی تیار کریں۔ یہ قدم انتخابات کے دوران فاٹا میں شدت پسندی کو کسی حد تک کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

سول سوسائٹی کی تنظیموں بشمول صحافتی یونین کو چاہیے کہ وہ مل کر ایسا اتحاد تشکیل دیں جو فاٹا میں ووٹوں کے اندراج اور انتخابی عمل کے انعقاد میں ریٹرننگ افسران کو تعاون فراہم کرسکے۔ نیز انتخابی عمل کی نگرانی کرسکے۔

سول سوسائٹی کی تنظیمیں ایسے سیل قائم کرسکتی ہیں جو فاٹا کے حوالے سے اہم واقعات و مسائل پر سیاسی جماعتوں اور حکومت کو اپ ڈیٹ کرسکیں۔ نیز یہ فاٹا کی پولیٹیکل انتظامیہ اور عسکریت پسند گروہوں کے درمیان بات چیت کے لیے سازگار ماحول کی تیار میں بھی مدد دے سکتی ہیں۔

آخری بات یہ کہ انتخابات کے فوراً بعد، فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی عمل گراس روٹس لیول تک پہنچ سکے۔ یہ وقت متحرک ہونے کا ہے۔


مضمون نگار سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ [email protected] ترجمہ: مختار آزاد

تبصرے (0) بند ہیں