pakistan-hazaras-attack-ap-670
ہزارہ ٹاؤن، کوئٹہ میں اس بدقسمت مارکیٹ کی تصویر جسے دہشت گردوں نے بم دھماکے سے اس وقت تباہ کردیا جب اس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی....فوٹو اے پی

کوئٹہ: اٹھارہ سالہ نوجوان طالبعلم عصمت اللہ  کو بالآخر حالات نے ہتھیار اُٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔

وہ اے کے فور سیون نامی گن پکڑے اپنے علاقے سے گزرنے والی گاڑیوں کی تلاشی لیتا پھرتا ہے۔

اس نے بتایا“اب تمام حدیں ختم ہوگئی ہیں، ہم اب سیکیورٹی فورسز پر بالکل بھروسہ نہیں کرسکتےاور اب اپنی برادری کا تحفظ ہم خود کریں گے۔”

سنی مسلک کے انتہا پسند مسلمان خودکش حملہ آوروں نے شیعہ مسلمانوں کی اقلیتی ہزارہ برادری کے لگ بھگ دو سو افراد دس جنوری سے سولہ فروری کے دوران چند ہفتوں میں کوئٹہ کے اندر ہلاک کردیے ۔

حملے کے بعد ہزارہ برادری کے ہزاروں افراد نے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، خون کو منجمد کردینے والی سردی میں احتجاجاً دھرنا دیا۔

ان کا مطالبہ تھا کہ فوج ان کی حفاظت کے لیے اقدام کرے۔

حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد ان کا یہ احتجاجی دھرنا ختم ہوا لیکن حکومت نے فوج کو متحرک کرنے سے انکار کردیا۔

کالعدم انتہا پسند تنظیم لشکر جھنگوی نے شیعہ مسلک کے لوگوں پر ہونے والے تمام حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور انہیں ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ اورانسانی حقوق کا دفاع کرنے والی تنظیمیں الزام عائد کرتی ہیں کہ انتظامیہ ہزارہ برادری کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔

چنانچہ اب عصمت اللہ جیسے اٹھارہ سال کے نوجوانوں نے ہتھیار اُٹھالیے ہیں تاکہ وہ اپنا اور اپنے خاندان کے لوگوں کی حفاظت کرسکیں۔

عصمت اللہ کے بہترین دوست کو گزشتہ سال جون میں ہزارہ ٹاؤن کے قریب گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔

اس نے اپنے بہت سے دوستوں کو کھودیا، جب اسنوکر ہال پر دس جنوری کو خودکش حملہ ہوا اور سولہ فروری کو پانی کے ٹینکر میں چھپا کر لائے گئے ایک بڑے ہلاکت خیز بم سے ایک مارکیٹ تباہ ہوگئی تھی۔

عصمت اللہ جو کالج میں فرسٹ ایئر کا طالبعلم ہے، نے کہا کہ“میں خود پر قابو نہیں رکھ سکا جب میں نے دیکھا کہ ہماری برادری کے بہت سے بچوں اور عورتوں کے جسموں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے ہیں۔ ”

 “ہماری برادری صرف تعلیم اور تجارت میں دلچسپی رکھتی تھی، لیکن دہشت گردوں نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار اُٹھالیں۔”

ہزارہ برداری کے نوجوان رضاکارانہ طور پر سیدالشہداء اسکاؤٹ میں کام کرتے رہے ہیں، جو ناصرف یہ کہ بلوچستان اسکاؤٹ ایسوسی ایشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہے، بلکہ اسکاؤٹ کی عالمی تنظیم کے ساتھ بھی منسلک ہے۔

کئی سالوں سے عصمت اللہ جیسے بہت سے نوجوان لڑکے حساس مواقعوں پر مثلاً محرم الحرام کے مہینے میں منعقدہ محافل اور جلوس کے دوران رضاکارانہ طور پر حفاظت کی ذمہ داریاں نبھارہے تھے۔

لیکن ہزارہ اسکاؤٹ کے سربراہ  سید زمان کا کہنا ہے کہ اب خطرہ کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے، اب انہیں سرکاری سیکیورٹی فورسز کے مددگار کے طور پر کل وقتی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ “ہمارے پاس لگ بھگ دوسو نوجوان ہیں جو مختلف مواقعوں پر سیکیورٹی کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں، لیکن ان میں زیادہ تر طالبعلم ہیں اور مختلف کام کرتے ہیں لہٰذا وہ کل وقتی طور پر یہ کام نہیں کرسکتے۔”

ان کا کہنا تھا کہ“ہم کوشش کررہے ہیں کہ ایک نظام تشکیل دے دیں تاکہ انہیں معاوضے کی ادائیگی کے ساتھ کل وقتی بنیادوں پر مختلف مقامات پر تعینات کیا جاسکے اور اس کے علاوہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی معاونت کی جاسکے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم ایک مہینے کے اندر ایک باقاعدہ تنخواہ دار فورس تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔”

اسکاؤٹس کے صدر غلام حیدر نے کہا کہ“یہ غلطی تھی کہ سرکاری سیکیورٹی پر بھروسہ کیا، جب پہلی مرتبہ دو خودکش دھماکے علمدار روڈ کے قریب اسنوکر ہال پر ہوئے۔”

غلام حیدر نے اے ایف پی کو بتایا“اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک اور بم دھماکہ چند منٹ کے بعد ہوگیا، اور ہم نے بہت سے لوگوں کو کھودیا۔”

انہوں نے دعویٰ کیا کہ“ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے ایسا دوبارہ ہو، لہٰذا فوری طور سولہ فروری کے دھماکے کے بعد ہم نے اپنے نوجوانوں کو مسلح کرکے اہم سڑکوں اور داخلی مقامات پر تعینات کردیا ہے، تاکہ یہ لوگ آئندہ کسی ایسے سانحے کو روکنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔”

ہزارہ ٹاؤن جہاں مارکیٹ کو بم سے اُڑادیا گیا تھا، ایک نمایاں جگہ ہے، یہ ٹاؤن چلتن کی پہاڑیوں کے سائے میں واقع ہےاور بائی باس کے قریب جو افغان سرحد کے ساتھ منسلک چمن کو پاکستان کے معاشی دارالحکومت کراچی کو ملاتی ہے۔

جبکہ فرنٹیئر کور کے نیم فوجی دستے اور پولیس کا گشت اہم مقامات پر جاری ہے، یہ اردگرد کے لوگوں کو واضح طور پر نظر نہیں آتے۔

حیدر نے کہا “سیکیورٹی کے ادارے ہمیں تحفظ فراہم نہیں کرسکے۔ یہ اس علاقے کو نہیں جانتے اس لیے کہ ان میں سے زیادہ تر کوئٹہ کے باہر سے آتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ ہم اپنے علاقوں میں خود ہی مستقل بنیادوں پر سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالیں۔”

پولیس پر تو یوں بھی لوگ اعتبار نہیں کرتے۔ کوئٹہ میں پولیس آپریشن کے سربراہ کہتے ہیں کہ “اگر ہم کسی خاص کمیونٹی کے لیے مسلح نجی سیکیورٹی کی اجازت دیتے ہیں تو یہ ایک غلط طریقہ کار کا آغاز ہوگا۔”

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اس بات کی منصوبہ بندی کررہی ہے کہ ہزارہ ٹاؤن کے داخلی راستوں کو بند کردیا جائے، اور دوسو کے قریب ہزارہ برادری کے نوجوانوں کو اپنے علاقے کے اندر گشت کی اجازت دی جائے۔

دوسری جانب غلام حیدر کا کہنا ہے کہ داخلی راستوں اور سڑکوں کو بند کردینے سے ہزارہ برادری محصور ہوکر رہ جائے گی، لیکن ہزارہ اسکاؤٹس کی بھرتی ایک طویل مدتی حل ہوسکتا ہے۔ دوسری صورت میں وقت بہت آگے نکل جائے گا۔

ایک چھبیس سالہ دکاندار نے اے ایف پی کے نمائندے سے کہا کہ “اگر وہ ہمارے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کرتے اور دوبارہ کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو ہم پھر ہتھیار اُٹھالیں گے اور اپنے دشمنوں کو مارنے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے، پھر ایک کھلی جنگ شروع ہوجائے گی۔”

تبصرے (2) بند ہیں

انور امجد Mar 01, 2013 04:28am
ایک نجی ملیشیا بنانے سے بہتر ہو گا کہ ہزارہ نوجوانوں کو باقاعدہ پولیس اور سیکیوریٹی اداروں میں مناسب نمائندگی دی جائے اور ان کو ہزارہ علاقوں میں تعینات کیا جائے۔ ظاہر ہے نجی ملیشیا لوگوں کے چندہ سے بنے گی لیکن کہیں بعد میں یہ بھتّہ نہ بن جائے۔
raza Mar 03, 2013 09:52am
ہزارہ برادری کا ہتھیار اٹھانا بلکل درست ہے۔ لشکر جھنگوی آنئدہ بھی ہزارہ برادری پر حملہ کیا جائے گا۔ اس کی وجہ وہ فتوٰی ہے کہ شیعہ کافر ہے جب چاہے جہاں چاہے مار دو جنت ملے گی۔