راولپنڈی: پلاسٹک سرجن حامد حسن تیزاب حملے میں متاثر ہونے والی خاتون نذیراں بی بی سے گفتگو کر رہے ہیں۔ —اے ایف پی
راولپنڈی: پلاسٹک سرجن حامد حسن تیزاب حملے میں متاثر ہونے والی خاتون نذیراں بی بی سے گفتگو کر رہے ہیں۔ —اے ایف پی

اسلام آباد: پاکستان کی عدالتوں کو بہت کم لوگوں کا اعتماد حاصل ہے لیکن تیزاب پھینکنے کے واقعات کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ سخت قوانین متعارف کرائے جانے کے بعد ان جرائم میں سزا پانے والے افراد کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے ۔

پاکستان میں لوگوں پر تیزاب پھینکنے کا شمار بے  رحمانہ گھریلو تشدد میں ہوتا ہے۔ ملک میں ہر سال درجنوں لوگوں، جن میں اکثریت خواتین کی ہے، کے چہرے تیزاب کے حملوں میں مسخ ہو جاتے ہیں۔

موجودہ حکومت نے 2011 کے اواخر میں تیزاب پھینکنےوالوں کے خلاف سخت قوانین متعارف کرائے تھے جن کے تحت جرم ثابت ہونے پر چودہ سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔

پارلیمنٹ نے گزشتہ سال گھریلو تشدد کو خلافِ قانون قرار دیا تھا۔

اگرچہ، ان قوانین پر مکمل عمل درآمد میں اب بھی مشکلات درپیش ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں انہیں متعارف کرانے پر موجودہ حکومت کی تعریف کرتی ہیں۔

ایسڈ سروائیور فاؤنڈیشن کی پاکستانی شاخ سے وابستہ ولیرے خان یوسف زئی کے مطابق، قوانین میں ترامیم سے پہلے سزائیں دینے کا تناسب چھ فیصد تھا تاہم اب 2012 میں یہ اٹھارہ فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

وکیل سکندر نعیم کا کہنا ہے کہ اب سزا دینا بہت آسان ہو گیا ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے بھی اس طرح کے معاملات میں دلچپسی لینا شروع کی ہے اور اب متاثرہ شخص کا بیان ہی ملزم کے خلاف ثبوت کے طور پر کافی ہوتا ہے۔

تاہم، دوسری جانب، تیزاب حملوں کے متاثرین کا خیال ہے کہ مجرموں کو ملنے والی سزا بہت کم ہے۔

سدرہ جاوید ایک فیکٹری میں کام کرتی تھیں۔ جون 2011  میں فیکٹری کے مالک کے بیٹے نے ان پر مجرمانہ حملہ کرنے کی کوشش کی اور انکار پر انتقاماً ان پر تیزاب پھنک دیا۔

سدرہ کے اہل خانہ نے انصاف کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور بالآخر جولائی 2012 میں مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔

سدرہ کہتی ہیں کہ 'وہ مجرم کے انجام پر کافی اطمینان محسوس کر رہی ہیں اور انہیں اپنے والد کے لیے بہت خوشی ہے کیونکہ ان کے انصاف کے حصول کی کوششیں کامیاب رہیں'۔

'لیکن جب میں یہ سوچتی ہوں کہ میرا مستقبل کیا ہو گا، تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مجرم کو ملنے والی سزا بہت کم ہے'۔

سدرہ کے والد ٹی وی مرمت کا کام کرتے تھے تاہم مقدے بازی کی وجہ سے وہ اپنے کام پر توجہ نہ دے سکے، جس سے ان کا روزگار تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔

سدرہ اپنے گھریلو حالات کے بارے میں بتاتی ہیں کہ بعض اوقات تو گھر میں ایک وقت کے کھانے کے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔

تیزاب پھینکے جانے کی وجہ سے پندرہ سالہ سدرہ کے سر، چہرہ، ایک بازو، سینہ اور ایک ٹانگ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

وہ دائیں آنکھ سے نابینا ہو چکی ہیں جبکہ بائیں آنکھ سے بھی بینائی متاثر ہوئی ہے۔

سدرہ کے اب تک چھ آپریشن ہو چکے ہیں، انہیں اپنے ہونٹوں اور کانوں کی سرجری کے ذریعے دوبارہ تشکیل کرانا ہوگی۔ اسی طرح انہیں بالوں کی ٹرانسپلانٹیشن بھی درکار ہے۔

واقعہ کے بعد سدرہ لوگوں سے ملنے سے کتراتی ہیں، انہیں واقعہ سے متعلق گفتگو کرنا بھی بالکل پسند نہیں۔

لاہور میں رہنے والی سدرہ صرف علاج کے غرض سے ہی اپنے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔

تیزاب کے حملوں کے خلاف مہم چلانے والے اور وکلاء کا ماننا ہے کہ ابھی اس حوالے سے چیلنج درپیش ہیں۔

نعیم چاہتے ہیں کہ تیزاب حملوں کے مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلائے جائیں اور قانونی طریقہ کار کو آسان بنایا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ متاثرین کو جلد از جلد ہرجانے کی رقم ادا کی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنا علاج کرا سکیں۔

اس حوالے سے شعور کا نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے۔

پچھلے سال دسمبر میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ایک جوڑے نے اپنی پندرہ سالہ بیٹی کو تیزاب پھینک کر ہلاک کرنے کا اقرار کیا تھا تاہم بعد میں انہوں نے اصرار کیا کہ ان کی بیٹی نے خود کشی کی تھی۔

جس کے بعد عدالت نے مقدمے میں کسی ثبوت اور عینی شاہدین کی عدم موجودگی میں دونوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے نمایاں گروپ بتاتے ہیں کہ ملک میں تقریباً ایک ہزار خواتین اور لڑکیوں کو 2011 میں غیرت کے نام کر قتل کر دیا گیا تھا۔

دو ہزار نو میں دو بچوں کی ماں نذیراں بی بی خاندان کے شدید دباؤ کے بعد عدالت سے باہر معاملہ حل کرنے پر رضامند ہو گئی تھی۔

ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے متاثرین کو درپیش مشکلات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

بالخصوص ملک کے دیہی علاقوں کی وہ ان پڑھ خواتین جن کا انحصار اپنے رشتہ داروں پر ہوتا ہے اور جنہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ ان کے سسرال والے ان سے بچے چھین لیں گے۔

جنوبی پنجاب کے علاقے بہاولپور میں پیدا ہونے والی نذیراں بی بی کو تیرہ سال کی عمر میں شادی کے لیے فروخت کر دیا گیا تھا۔

شوہر کے انتقال کے بعد دو کم سن بچیوں کی کفالت نذیراں بی بی پر آن پڑی تھی۔

نذیراں کے سسرال نے اسے اپنے دوسرے بیٹے سے شادی پر مجبور کیا جو پہلے ہی شادی شدہ تھا۔

ہسپتال کے بستر پر پٹیوں میں لپٹی نذیراں نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس کے شوہر کی پہلی بیوی کو اس شادی پر بہت زیادہ غصہ تھا۔

'وہ میری توہین کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی اور مجھے دھمکاتی تھی کہ وہ مجھ پر تیزاب پھینک دے گی، مجھے برباد کر دے گی'۔

'شادی کے تین مہینے بعد ایک رات جب میں سو رہی تھی،اس نے میرے چہرے، گردن، سینے، پیٹ اور اور بائین بازو پر تیزاب پھینک دیا'۔

اس واقعہ میں چھبیس سالہ نذیراں بی بی اپنی بینائی سے محروم ہوگئیں اور ساتھ ہی ان کا چہرہ بھی مسخ ہوگیا۔

نذیراں کے شوہر نے اپنی پہلی بیوی کو مقدمہ میں مرکزی ملزم نامزد کرنے سے انکار کر دیا جبکہ سسرال والے اور خود اس کا اپنا بھائی عدالت سے باہر معاملے کو سلجھانے پر زور دیتے رہے، جس کے بعد نذیراں مجبور ہو گئی۔

نذیراں بتاتی ہیں کہ 'وہ ایسا نہیں چاہتی تھیں لیکن ان کی ایک اور بہن بھی ان کے سسرال میں شادہ شدہ تھی اور ان کے سسرال والوں نے بہن کی ذندگی بھی خراب کرنے کی دھمکی دی تھی، لہذا اپنی ذندگی برباد ہونے کے بعد وہ اپنی بہن کی ذندگی بچانا چاہتی تھیں'۔

'مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اصل مجرم کو کبھی سزا نہیں ملے گی لہذا میں اس مقدمے کو زیادہ طول نہیں دیا۔ اس لیے میں نے چار لاکھ روپے لیے اور ایک پلاٹ خرید کر اس پر ایک کریانے کی دکان کھول لی'۔

آج نذیراں اپنی بیٹیوں کو سکول بھیجتی ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔

'اگر میں دیکھ سکتی تو اپنے شوہر سے تعلق ہی نہ رکھتی لیکن میری بچیوں کو باپ کی ضرورت ہے اور گھر میں ایک آدمی کا آنا جانا ہونا چاہیے'۔

کیا وہ سجمھتی ہیں کہ گھریلو تشدد سے متعلق ترامیم اگر ان کے وقتوں میں متعارف ہو جاتیں تو کوئی فرق پڑتا؟

نذیراں اس کا جواب کچھ یوں دیتی ہیں: 'میرے نذدیک مجرم کے لیے سب سے بہترین سزا یہی ہے کہ اس پر بھی تیزاب پھینکا جائے'۔

تبصرے (0) بند ہیں