اسد امانت علی کی برسی

اپ ڈیٹ 08 اپريل 2014
کلاسیکل گائیک'استاد امنت علی خان'۔- آن لائن فوٹو
کلاسیکل گائیک'استاد امنت علی خان'۔- آن لائن فوٹو

کلاسیکل گائیک 'استاد امانت علی خان'۔- آن لائن فوٹو کلاسیکل موسیقی کی پہچان پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ اسد امانت علی خان کو ہم سے بچھڑے آج چھ برس بیت گئے۔ نیم کلاسیکل گائیکی کے نمائندہ گلوکار اسد امانت علی خان 25  ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اسد امانت علی خان، استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی، استاد حامد علی خان کے بھتیجے اورشفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔ انہیں موسیقی کا فن اپنے والد امانت علی خان سے ورثے میں ملا لیکن انھوں نے اپنی شناخت علیحدہ سے منوائی۔ اسد امانت علی خان نے اپنی گائیگی کا آغاز 10 سال کی عمر سے کیا اور ایف اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد موسیقی کو ہی پیشہ بنایا۔ اسد امانت علی خان نے کلاسیکل موسیقی سے تعلق رکھنے والے خاندان میں چار چاند لگائے۔ ان کی غزلیں اور کلاسیکل راگ کو عالمی شہرت ملی۔

استاد امانت علی خان۔- آن لائن فوٹو اپنے والد استاد امانت علی کی وفات کے بعد انشا جی کی لکھی اور استاد امانت علی کی گائی غزل 'انشا جی اٹھو اب کوچ کرو' گانے کے بعد اسد علی خان کو اولین شناخت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ تاہم انہیں اصل شہرت 'عمراں لنگھیاں پباں بھار' سے ملی اور اس کے بعد وہ انتقال تک گائیکی کے ایک درخشاں ستارے رہے۔ اسد امانت علی خان کے گانے بہت مشہور ہوئے جنہیں کافی پذیرائی بھی ملی۔

حامد علی خان۔- آن لائن فوٹو

اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ ان کی جوڑی کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ چچا بھتیجے نے پاکستان کے علاوہ بھارتی فلموں میں بھی موسیقی کا جادو جگایا۔ انہیں صدارتی ایوارڈ پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا تاہم ایوارڈ کے فوری بعد ہی ان کی طبیعت ناساز ہوگئی اور وہ علاج کیلئے لندن چلے گئے۔ آٹھ اپریل 2007 کو 52 برس کی عمر میں ان کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

اسد امانت علی خان آج ہم میں نہیں مگر ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت اب بھی کلاسیکل موسیقی کی پہچان ہیں۔

شفقت امانت علی خان۔- آن لائن فوٹو اسد امانت علی خان  کے بعد شفقت امانت علی اور رستم فتح علی پٹیالہ گھرانے کے انداز کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں