jasta jasta 670
چونکہ ان کے پاس پُشتینی انتخابی حلقہ موجود تھا تو اس کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے انتخابی میدان میں اُترنا ضروری تھا، حالانکہ آباؤاجداد کے زمانے سے ہی ان کا خاندان مہذب لوگوں کی نظروں سے اُتر چکا تھا۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان

نام تو ان کا چوہدری چراغ دین تھا، لیکن ہم اپنی عادتِ دیرینہ اور ہمدمِ دیرینہ نون کی مطابقت میں اُنہیں چوہدری لالٹین کہتے تھے۔

دراصل اُن کے جُثّہ شریف و عادت مبارکہ کی ان کے نام سے کوئی مناسبت نہیں تھی، چنانچہ ہم نے ان کے لیے جو نام تجویز کیا، وہ دیکھتے ہی دیکھتے اُسی طرح ہر خاص و عام کی زبان پر چڑھ گیا، جس طرح چوہدری لالٹین کے والد مرحوم و مغفور چلتے گھوڑے پر چڑھ جاتے تھے۔

چوہدری لالٹین ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی انتخابات میں کھڑے ہو رہے تھے، حالانکہ اب ان کے پاس کھڑے ہونے کے لیے ایسا کچھ باقی بچا نہیں تھا، لیکن چونکہ ان کے پاس پُشتینی انتخابی حلقہ موجود تھا تو اس کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے انتخابی میدان میں اُترنا ضروری تھا، حالانکہ آباؤاجداد کے زمانے سے ہی ان کا خاندان مہذب لوگوں کی نظروں سے اُتر چکا تھا۔

کہا تو یہ جاتا تھا کہ چوہدری لالٹین اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھے، لیکن کچھ لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ اکلوتے ضرور والد کے رہیں ہوں گے، لیکن اولاد صرف والدہ ہی کے تھے۔ گو کہ یہ سربستہ راز اُن کی والدہ اپنے ساتھ اور بہت سی جگہوں کے بعد بالآخر قبر میں بھی لیتی گئیں، لیکن نامعلوم کیسے (حالانکہ معلوم سب کو تھا) یہ غیروں پر بھی کُھل گیا، اور نہ کھلا تو اُن کے والد پر۔

اکلوتے رہ جانے کا قصہ بھی کافی عبرت انگیز ہے۔ ہوا یہ کہ چوہدری لالٹین کے والد گرامیٔ قدر کو گھڑ سواری کا بہت شوق تھا، ان کے گھوڑے کو یہ شوق ہرگز نہ تھا۔ شاید اسی لیے جب والد گرامی گھوڑے پر سوار ہونے کے لیے اس کی طرف بڑھتے تو وہ ہنہنا کر ہنسنے لگتا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ چوہدری لالٹین کے والد بزرگوار کی شکل دیکھ کر زُود رنج افراد اور زاہدِ خشک کی ہنسی بھی چھوٹ جاتی تھی، وہ تو بے چارہ گھوڑا تھا۔

ایک روز گھوڑے کا شاید موڈ خراب تھا اور اس طرز کے کارٹون دیکھنے کے لیے اس کا بالکل بھی من نہیں کررہا تھا، چنانچہ چوہدری لالٹین کے والد جیسے ہی اس کی پشت پر سوار ہوئے، وہ اَلَف ہوگیا۔ چوہدری لالٹین کے والد نیچے آرہے اور گھوڑے کی ایک ہی لات نے ان کو نااہل کردیا۔ اب وہ صرف انتخابات میں ہی کھڑے ہوسکتے تھے۔ وہ تو بُرا ہو کمبخت حکیم کا کہ جس نے یہ راز افشا کردیا، ورنہ تو چوہدری لالٹین کی والدہ کے پاس تو ایسے خاندانی ٹوٹکے تھے کہ اپنی گُل افشانیوں کی مدد سے اُنہیں ہرگز اکلوتا نہیں رہنے دیتیں۔

چوہدری لالٹین نے زندگی میں اس قدر زیرجامے نہ بدلے ہوں گے، اس سے کہیں زیادہ تو وہ سیاسی جماعتیں بدل چکے تھے، لوگ ان کو بے پیندے کا لوٹا وغیرہ کہتے تھے، اس کے باوجود کہ ان کا پیندا تھا اور کافی وسیع و عریض بھی تھا۔ لیکن وہ لوگوں کی بات پر ذرا بھی زیر و زبر نہ ہوتے تھے۔ ان کی سیٹ اتنی پکی تھی کہ ان کے مدمقابل کسی کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ہمت نہ ہوتی تھی، بعض دشمنوں کا کہنا تھا کہ اس میں سیٹ کے پکی ہونے سے کہیں زیادہ ان کےپالے ہوئے ہڈحرام غنڈوں کی دہشت کا عمل دخل زیادہ تھا، جو کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو کاغذات نامردگی وصول کرنے پر مجبور کرسکتے تھے۔

علاوہ ازیں چوہدری لالٹین کی سیٹ محض سیاسی وراثت نہیں تھی، بلکہ وہ طریقت کی گدّی پر بھی براجمان تھے، حالانکہ ان کے طور طریقوں کو کسی بھی طرح مہذب نہیں کہا جاسکتا تھا۔

ایک زمانے سے ان کے خاندان میں طریقت کے شعبے سے دوری چلی آرہی تھی، ان کے مسلک میں مزارات پر جاکر چرس پینا اور مجرا دیکھنا جائز تھا، نیاز فاتحہ حرام تھی۔ پھر طریقت کی اہمیت و ضرورت ان کے والد گرامیٔ قدر نے شدت سے محسوس کی اور اس کے لیے تگ و دو شروع کردی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ان کے باپ دادا کو تو سب ہی جانتے تھے کہ برسوں سے پیشۂ آباء گداگری چلا آرہا تھا، یہاں تک کہ چوہدری لالٹین کے دادا حضور پر جب آخری وقتوں میں استغراق (کچھ کینہ پرور اس روحانی ووجدانی کیفیت کو پاگل پن کہہ کر خود کو بلاوجہ گنہگار کرتے  ہیں) طاری رہنے لگا تو وہ رعشہ زدہ ہاتھ کسی کے بھی سامنے پھیلا دیا کرتے تھے اور لقوہ زدہ زبان سے غوں غاں شروع کردیتے۔

 دراصل خاندانی عادات خون میں رچ بس جاتی ہیں، جس کا مظاہرہ آج بھی چوہدری لالٹین کی زندگی سے کماحقہ‘ ہورہا ہے، یعنی ان کے آباء و اجداد بھی مانگ کر کھاتے تھے، یہ بھی کمیشن اور بھتّے کی حلال (یعنی جس طرح بقرعید پرجانور حلال کیے جاتے ہیں) کمائی ہی کھاتے تھے۔

حالانکہ چوہدری لالٹین کے دادا حضور جب مرحوم و مغفور ہوگئے تو ان کے والد گرامی نے ان کا مزار بھی بنایا تھا، لیکن پروموشن کے باوجود ناصرف اس سے آمدنی کا کوئی سلسلہ قائم نہیں ہوسکا بلکہ طریقت کے شعبے میں پہلے سے موجود گدی نشینوں نے انہیں کوئی اہمیت دی۔ چوہدری لالٹین کے والد گرامیٔ قدر طریقت کے اجارہ داروں کے اس رویےّ کے ہمیشہ شاکی رہے اور اکثر کہتے رہے کہ ہمارے پاس جو مزار ہے اُس میں تو خود ہمارے والد دفن ہیں جبکہ اور دوسرے جو مزارات لے کر بیٹھے ہیں، کسی میں گھوڑا، کسی میں گدھا اور کسی میں کوئی اور جانور دفن ہے۔

لیکن پھر بقول چوہدری لالٹین کے رحمتِ حق جوش میں آئی اور قدرت نے ایک بہترین سبب پیدا فرمایا، یا پھر بقول نون کے، ان کے کمینے ذہن میں اَزخود اُبھرا، بہرحال قصہ کچھ یوں ہے کہ چوہدری لالٹین کے والد کے پاس اُن کے گاؤں سےایک بوڑھا غریب کسان اپنی زمینوں کے کاغذات واپس لینے کے لیے پہنچا کہ جو اُنہوں نے چند ہزار روپے بطور قرض دے کر ہتھیا لیے تھے۔ غلطی اس نے یہ کی کہ اپنی جوان ہوتی بیٹی کوبھی ہمراہ لیتے آیا، جسے شہر دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اُس وقت چوہدری لالٹین کے والد گرامیٔ قدر نے جاگیرداری اور وڈیرہ گیری کی مثال کو ہی پیش نظر نہیں رکھا بلکہ مسلمان بادشاہوں کی دیرینہ روایت کو بھی مدّنظر رکھتے ہوئے غریب کسان کے سر میں گولی مار کر اُسے زندگی کی تمام پریشانیوں سے نجات دلا کر احسان عظیم فرمایا۔ وہ فوراً ہی سکون کے ساتھ مرگیا۔ زندہ رہتا تو زندگی کے مسائل اپنی جگہ، جو کینسر اس کے پھیپھڑوں میں بھنگ پینے کے سبب پروان چڑھ رہا تھا، اسے تڑپا تڑپا کر مارتا۔ بلکہ اُس کی بیٹی کے سر (دیگر جگہوں پر بھی) شفقت و محبت (لوگ اس کو ہوس کہہ کر یونہی بدگمانیاں پھیلاتے ہیں) سے ہاتھ رکھا اور اپنی سرپرستی (بانہوں) میں لے لیا۔

غریب کسان کی لاش دیکھتے ہی چوہدری لالٹین کا خاندانی منشی برسوں سے اُن کے خاندان میں جاری چلن کے مطابق تھانیدار کو فون پر یہ اطلاع دینے ہی جارہا تھا کہ بندوق کی صفائی کرتے ہوئے گولی چل جانے سے چوہدری کا نوکر ہلاک ہوگیا ہے، تو اچانک چوہدری لالٹین کے والد نے اس کو روک دیا۔ نون کے بقول اُن کے کمینے ذہن میں ایک انتہائی کتّا مارکہ خیال بجلی کی مانند کوندا تھا۔ انہوں نے منشی کوحکم دیا کہ مسجد میں اعلان کروا دو کہ قبلۂ عالم قلندر زمان حضرت غریب شاہ بابا رحمتہ اللہ علیہ انتقال فرما گئے ہیں، ان کی نماز جنازہ بعد نماز مغرب گراؤنڈ پر ادا کی جائے گی۔ تمام اہلیان محلہ سے درخواست ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت کرکے ثواب دارین حاصل کریں۔

یوں انہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کر ڈالے، یعنی ایسا کھیل کھیلا کہ جس سے غریب کسان کی آتما کو شانتی ملے نہ ملے ان کے لیے شانتی اور لکشمی کا دھن ہمہ وقت برسنے کا وسیلہ پیدا ہوگیا تھا۔ کمیونٹی پارک کی جس زمین پر وہ برسوں سے قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے اور جہاں انہوں نے عوام الناس کی سہولت اور فلاح و بہبود کی خاطر منشیات و فحاشی کے اڈے کی تعمیر و ترقی کا عظیم الشان منصوبہ بنا رکھا تھا، اور انتظامیہ کی مزاحمت کی وجہ سے یہ منصوبہ ناحق کھٹائی میں پڑا ہوا تھا۔

پھر نگاہِ فلک نے دیکھا کہ شاندار مزار تعمیر ہوا، پارک کی مکمل زمین پر قبضہ بھی ہوگیا اور کسی نے چوں تک نہ کی۔

آج چوہدری لالٹین اپنے والد کی محنت کی کمائی کھارہے ہیں، کچھ عاقبت نااندیش اسے ذلالت کی کمائی کہتے ہیں، لیکن چوہدری لالٹین ایسے دشمنوں کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے۔ وہ ہر مرتبہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور اُنہیں انتخابی مہم کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، بس اپنے حلقے کے لوگوں کو یہ یاد کرانا پڑتا ہے کہ پولنگ کس دن ہوگی۔

ان کے حلقے میں کچھ تعداد پڑھے لکھوں کی بھی ہے، خیر اُن کے لیے تو خالی بندوق ہی کافی ہے۔ جو بدمعاش ہیں، وہ تین وقت روٹی ہی چوہدری لالٹین کی کھاتے ہیں۔ رہ گئے غریب غرباء تو اُنہیں صرف پولنگ کے دن ہی بریانی کھلانی پڑتی ہے اور ٹرک کی سیر یعنی ٹرک پر سوار کرکے پولنگ اسٹیشن لے جانا پڑتا ہے۔

باقی رہے نام اللہ کا....عام لوگوں کی بڑی تعداد یہی خیال کرتی ہے کہ اُسی پاک پروردگار کی رحمتیں ہیں چوہدری لالٹین پر کہ ان کو آج تک انتخابات میں کوئی شکست دے نہیں سکا۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

میاں محسن ضیاء May 13, 2013 02:45am
بڑھیا۔۔۔۔۔۔۔۔! اپنے انتخابی اشتہارات میں ایک شعر خاص طور پر لکھواتے ہیں کہ، ' یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی'