پاکستان مسلم (ن) کے ورکرز فتح کا جشن مناتے ہوئے
پاکستان مسلم (ن) کے ورکرز فتح کا جشن مناتے ہوئے

تماشائیوں کے نقطۂ نظر سے 2013 کے انتخابات کا لب لباب یہ ہوگا: پہلا نصف ہیجان خیز اور دوسرا نصف فارمولے کے مطابق-

1990 کی دہائی کی یادیں جو ہمیں آج اس نئے پاکستان میں ڈراتی ہیں - وہ نیا پاکستان جو ہم آج بنانے جا رہے ہیں - اس کا مقصد آپ کوخبردار کرنا نہیں بلکہ یاد دلانا ہے کہ تاریخ کو موقع نہ دیجئے کہ وہ خود کو دہرائے - تاریخ کے ناپسندیدہ واقعات کو ہم پہلے ہی بارہا دہرانے کی اجازت دے چکے ہیں -

تاریخ یہی کہتی ہے کہ ایسے انتخابات صاف شفا ف نہیں ہو سکتے جنھیں کنٹرول کیا گیا ہو- 1990 میں ریاست پاکستان کے چند سرکاری طور پر مقرر کردہ نگران کاروں نے اپنے ضمیر کی آواز پرملک کو غلاظت سے پاک صاف کرنے کی کوشش کی تھی، مخصوص سیاستدانوں کو راستے سے ہٹانے کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا تھا - انتخابات کے نتائج متعین کر دئے گئے تھے - اب قوت عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے - اب پراسرار طور پر وہی نتائج دکھائی دےرہے ہیں -

1990 کےعام انتخابات جو اصغر خان کیس کی وجہ سے لوگوں کواچھی طرح سے یاد ہیں ، پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد نے انتخابات میں نمایاں کامیابی حا صل کی تھی -

آئی جے آئی کو پنجاب کی مجموعی 114 نشستوں میں اکیانوے نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی جبکہ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس ( پی ڈی اے ) نے صرف چودہ نشستیں حاصل کی تھیں - تاہم ، اتحاد پاکستان بھرمیں 105 نشستوں پرکامیاب ہوا تھا -

اس وقت ، آج کی طرح نوازشریف کی جماعت نے پنجاب میں غالب اکثریت حاصل کی تھی - پی پی پی ( پی ڈی اے) صوبے میں صرف دس نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی - نمایاں فرق یہ تھا کہ اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود اسے سندھ میں نشست نہیں ملی تھی - خیبر پختونخوا میں بھانت بھانت کی پارٹیاں تھیں اور آج بھی صورتحال وہی ہے - بلوچستان کی صورت حال آج نازک ہے اور پہلے بھی یہ اتنا ہی حساس تھا - جبکہ آئی جے آئی وہاں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی - باقی تینوں صوبوں میں بھی یہی صورت حال تھی -

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ان برسوں میں حالات تبدیل ہوگئے ہیں - 1990 کا تجربہ تین سال سے بھی کم عرصے میں اسلام آباد میں نوازشریف کی پہلی حکومت کے خاتمے پر ہوا لیکن اس کے بعد سے ملک نے ثابت کردیا ہے کہ یہاں سول حکومت اپنے دور اقتدار کو مکمل کرسکتی ہے اور اس قا بل ہوگئی ہے کہ سول حکومت اقتدار سول حکومت کو سونپے -

جس حکومت نے 2008 سے 2013 تک حکمرانی کی وہ بری طرح ناکام رہی - رسمی طور پرمسرت کے ساتھ کہا گیا کہ وہ پاکستان میں اپنی اوسط عمر سے زیادہ زندہ رہنے میں کامیاب ہو گئی -

2013 کے انتخابات اس بات کی بے رحم یاد دہانی ہیں کہ وہ پارٹی جو پچھلی اتحادی حکومت کی سربراہ تھی ، اسکو کس ندامت کا سامنا کرنا پڑا - انتخابی مہم کا نہ چلایاجانا ایک الگ مسئلہ تھا ، لیکن دوسرے مسائل بھی تھے جس کا واضح ثبوت 11 مئی کے انتخابات نے دے دیا - پی پی پی کی حکومت کواپنی بدنظمی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی - جو بعض مقامات پر اپنے حریفوں کی جانب انتظامیہ کے متعصبانہ رویہ کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے -

آبادی کے نئے ( پی ٹی آئی ) اور پرانے حصوں کے درمیان جو تقسیم ابھر رہی ہے ان میں سے وہ لوگ جو روایتی پارٹیوں کے ساتھ رہ کر خود کو محفوظ محسوس کرتے تھے انھیں پی ایم ایل ن اور پی پی پی کے درمیان انتخاب کرنا تھا - انہوں نے پی ایم ایل ن کا ساتھ دیا کیونکہ یہ پارٹی وہ امکانات اور تحفظ فراہم کرسکتی تھی جو پی پی پی کے لئے ممکن نہ تھا -

عسکریت پسندی کے خلاف تحفظ پنجاب میں انتخابات کا ایک نہایت ہی اہم مسئلہ تھا ، گر چہ انتخابات سے قبل ہونے والی تقریروں میں اس کا اظہار نظر نہیں آتا - گزشتہ اتحادی حکومت کی اس بات میں ناکامی کہ وہ یا تو تشدد پسندوں کے ساتھ تعاون کرتی یا ان کا خاتمہ کرتی ، اگر فیصلہ کن عنصرنہ ہوتب بھی ایک اہم عنصرتھا - جوانتخابات میں خراب کارکردگی کی صورت میں نظر آیا -

تاوقتیکہ وہ مقررکردہ قوتیں اتنی طاقتور نہ ہوں کہ عسکریت پسندی کا خاتمہ کرسکیں ، عوام کیلئے مفاہمت کا راستہ ہی قا بل قبول راستہ ہوسکتا ہے - پاکستانی عوام کی اکثریت کو کتنا ہی یقین دلانے کی کوشش کیوں نہ کی جائے کہ یہ جنگ انکی اپنی جنگ ہے وہ اس وقت تک اس موقف کو قبول کر نے کیلئے تیار نہ ہونگے جب تک کہ انہیں یقین نہ ہوجائے کہ یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے - یہی انسانی فطرت ہے - اس وقت تک فطری طور پر وہ معاہدوں کے ذریعہ تحفظ حاصل کرنا چاہیںگے -

تاہم چند ایسی مثالیں موجود ہیں جن پر عمل ہونا چاہئے - اگرچہ نوازشریف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں لیکن سیاسی مبصرین کی متفقہ رائے کے مطابق انھیں آصف زرداری کی سی" مفاہمت " کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ معاملات بدستور چلتے رہیں گوکہ زرداری نے معاملات کو جوں کا توں برقرار تو رکھا لیکن کاروبار سلطنت نہیں چلایا -

پارلیمنٹ میں تقسیم موجود ہے - پی پی پی سینیٹ میں طاقتور ہے اور صوبے اس بات کیلئے تیار ہیں کہ ان کے یہاں پی ایم ایل ن کے علاوہ کوئی دوسری حکومت ہوگی - یا پھر مشکل اتحادی حکومتیں بنیں گی-

نوازشریف نے حال ہی میں بلوچستان کے تعلق سے بہت سی مثبت تجاویز پیش کی ہیں - حکومت قائم کرنے کے بعد ان کا ابتدائی امتحان یہ ہوگا کہ وہ کونسے قوم پرستوں کواپنا شریک بنانا چاہتے ہیں - اور اسی پر اس بات کا انحصار ہوگا کہ دوسرے اہم " غیرسیاسی " عناصر اس بے چین صوبے میں انھیں کتنا وقت اور موقع دینے کیلئے تیار ہیں -

یہ موقع انھیں کتنی مدت کیلئے دیا جائیگا اس پر بحث ہوسکتی ہے اور اسی پر اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ یہاں جمہوریت نے واقعی کس حد تک ترقی کی ہے - نوازشریف کو موقع دینا ہوگا کہ وہ بلوچستان میں مثبت اقدامات کرسکیں تاکہ وہی صورتحال دوبارہ نہ پیدا ہو جو 1990 کے انتخابات میں اسی طرح کے بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد رونما ہوئی تھی -

کے پی میں بالکل مختلف چیلنج کا سامنا ہے - یہاں پی ایم ایل ن اور اسکی نئی مخالف حکومت پی ٹی آئی ایک دوسرے کے مد مقابل ہونگے - یہاں پی ٹی آئی کی قوت اس کے نوجوان ہیں جبکہ پی ایم ایل ن نے اگرچہ یہاں کی اسمبلی میں چند نشستیں حاصل کرلی ہیں تاہم اسے زخم لگے ہیں -

اسکے بہت سے پرانے قدآور ساتھی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوچکے ہیں اور پارٹی تنظیم کی حالت بھی اتنی اچھی نہیں ہے - یہاں کی قیادت نے حالیہ دنوں میں تعمیرات کے نام پرانجیئرنگ کے کچھ کام کئے تھے -

کے پی ایک ایسا صوبہ ہے جو بآسانی اور متعدد بار جماعتوں کو مسترد کر چکا ہے جس کی ملک میں کہیں اور مثال نہیں ملتی - اور اب خان بمقابلہ شریف ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونگے - لیکن سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ آیا کے پی کے عوام عمران خان اور نوازشریف کے درمیان نظریاتی اختلافات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ؟ یا پھر انہوں نے بھی اسی سونچ کے ساتھ ووٹ دیا ہے جیسا کہ لاہور والوں نے دیا تھا ؟

لاہور میں 11 مئی کا انتخاب بہت سے رائے دہندوں کیلئے ایک پارٹی کو دوسرے کے مقابلے میں مسترد کرنے کا انتخاب نہیں تھا - نظریاتی طور پر دونوں میں فرق کرنا مشکل تھا اسی لئے مقابلہ انتظامی تجربے اور تبدیلی اور جوش و خروش میں تھا - ان میں سے ایک تو اچھا تھا اور دوسرا بس ٹھیک - اب اسے تبدیل ہونا چاہئے -

اب ایسی کیفیت کا نمودار ہونا ضروری ہے کہ عوام حریفوں میں امتیاز کرسکیں ، پنجاب میں بھی اور ہمیشہ سے بے قرار صوبہ کے پی میں بھی -


ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں