پیپلز پارٹی کا زوال
ایک قدیم امریکن انڈین کہاوت میں بڑے پتے کی بات کہی گئی ہے؛
"اگر بدقسمتی سے آپ جس گھوڑے پر سوار ہیں وہ مرچکا ہے تو سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ فوراً اس گھوڑے سے اتر جائیں"
افسوس ہے کہ میں نے اس دانشمندانہ مشورے پر عمل نہیں کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ میں پی پی پی کے گھوڑے کے ڈھانچے پر بیٹھا رہا جو پانچ سال پہلے ہی مر چکا تھا- حقیقت تو یہ ہے کہ جس لمحہ 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کو بے رحمانہ طور پر قتل کیا گیا پارٹی اسی دن مر چکی تھی-
تب سے جس چیز نے پی پی پی کو زندہ رکھا وہ اقتدار کا نشہ تھا جس سے اس کی لاش کو حنوط کر دیا گیا تھا- جب یہ نشہ ٹوٹا تو پارٹی فورا ہی دھڑام سے گر پڑی- اقتدار کے نتیجے میں ملنے والی سہولیات اور مراعات کی بنا پر یہ تاثر دینا ممکن ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے، چنانچہ اس پارٹی میں جان باقی تھی جسکی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے 1969 میں ڈالی تھی-
جب ضیاء نے انہیں پھانسی پر لٹکایا تو پہلے ان کی بیوہ نصرت اور پھر ان کی بیٹی بینظیر نے پارٹی کی لگام اپنے ہاتھوں میں لی- لیکن جب کاروبار خاندانی بن جائے تو پھر مسئلہ پیدا ہونا لازمی ہے: جب سابقہ نسلیں گزر جاتی ہیں تو پھر تنظیمیں بھی جلد ہی سمت کا احساس کھو بیٹھتی ہیں- اجرت یافتہ ملازمین موقع سے فائدہ اٹھاکر سب کچھ ہتھیا لیتے ہیں-
اگر بی بی کے قتل کے فوراً بعد ہی انتخابات نہ ہوتے تو پی پی پی کا دور اقتدار کب کا ختم ہو چکا ہوتا- آصف زرداری کیلئے یہ قطعی نا ممکن ہوتا کہ وہ اقتدار کے چارہ کے بغیر پارٹی کو مستحکم رکھ پاتے- پارٹی کے وفادار کارکن بھی ان سے نفرت کرنے کے باوجود ان کے ساتھ چلتے رہے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا، لیکن دراصل انہوں نے انہیں ملازمتیں دیں اور وہ اپنی جیبیں بھرتے رہے-
چند نظریہ دانوں نے جو ان کی صفوں میں باقی رہ گئے تھے سوچا کہ شائد وہ اقتدار کے سہارے حالات کو کچھ سنبھال سکیں اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے چند ترقی پسندانہ قانون سازی بھی کی- لیکن درحقیقت اس صورت حال سے راجہ رینٹل اور ان کے قبیل کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اورخوب لوٹ مارکی- ایسا لگتا ہے انہیں پتہ تھا کہ ان کو دوبارہ اقتدار نہیں ملیگا، چنانچہ جب تک موقع ملا وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے-
یہ بھی حقیقت ہے کہ بی بی نے کبھی اپنے کسی وارث کی تربیت اس طرح نہیں کی جس طرح ان کے والد نے ان کی کی تھی. پی پی پی ان کے لئے خاندانی جاگیر تھی جو ان کی اگلی نسل کو ملنا تھی- اس کی بنیاد اہلیت پر نہیں تھی جہاں انتخابات کی بنیاد پر ایک کی جگہ دوسرا شخص لیتا ہے-
جنوبی ایشیا کے بہت سے ممالک میں بلکہ تیسری دنیا کے بیشترممالک میں یہی صورت حال ہے- برصغیر میں یہی چلن دیکھنے میں آرہا ہے- سری لنکا میں راجہ پکساس، بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ، ہندوستان میں سونیا گاندھی اور پاکستان میں آصف زرداری سب کے سب اپنے خاندان کے معاملات کو آگے بڑھانے کی چاہ میں لگے ہیں-
میں نے پی پی پی کی حمایت بڑی حد تک اس لئے کی تھی کہ غریب طبقے کو اس پارٹی نے متاثر کیا تھا- اسے غریبوں، اقلیتوں اور عورتوں کی پارٹی سمجھا جاتا تھا- حقیقت خواہ کچھ بھی رہی ہو، اس کے نظریاتی مباحث نے اسے بائیں بازو کی پارٹی بنا دیا تھا، چنانچہ میں برسوں تک اس کے ساتھ رہا، حالانکہ مجھے صاف نظر آرہا تھا کہ بدعنوانیوں کا زہر اس کی جڑوں کو کھارہا تھا-
میں وہ منظر کبھی بھول نہیں سکتا جب میں نے اپنی مرحومہ ماں کی دیکھ بھال کرنے والی دو عیسائی عورتوں کو روتے دیکھا جو یہ کہہ رہی تھیں کہ بی بی کے قتل کے بعد وہ یتیم ہو گئی ہیں-
بات یہ ہے کہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بینظیر غریبوں کی ہمدرد تھیں- اگرچہ ان دنوں یہ بات خبروں میں نہیں آئی تھی کہ اکتوبر 2007 میں وطن واپسی کے خوش آئند موقع پر جب ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو وہ بہت سارے اسپتالوں میں گئیں اور ان لوگوں کی عیادت کی جو ان کے سڑک پر ہونے والے حملےمیں زخمی ہوئے تھے-
نہ تو ان کے شوہراور نہ ہی ان کے بچوں نے اس قسم کی ہمدردی دکھائی- یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا بیٹا اور بیٹیاں مشکل ہی سے پاکستان کے بارے میں یا یہاں کی غربت کے بارے میں کوئی ذاتی تجربہ رکھتے ہیں-
اس حد تک مجھے نوجوان بلاول سے ہمدردی ہے جو زیادہ فعال رول ادا کرنا نہیں چاہتے- اور مجھے یقین ہے کہ زرداری کے پارٹی پر اپنے کنٹرول سے دستبردار ہونے سے انکار نے بھی اس ناتجربہ کار پارٹی چیئرمین کو انتخابی اکھاڑے میں کودنے سے باز رکھا ہوگا-
بلاول سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنی سربراہی میں پارٹی کو فتح کی منزل سے ہمکنار کرینگے ایک واہمہ ہی تھا- لیکن بالاخر پارٹی کا پرچم جس آدمی کے ہاتھوں میں دیا گیا وہ رحمان ملک تھا وہ جو معمولی، غیرمعروف اور ناکارہ وزراء کی بھیڑ میں گھٹیا ترین شخص تھا- وہ اور انکا باس ہی اصل مسئلہ تھے تومسئلہ کا حل کون نکالتا؟
ہم سب جانتے تھے کہ پی پی پی کو اپنی نااہلیت اور بدعنوانیوں کے نتیجے میں ہزیمت اٹھانی پڑیگی- لیکن اس کی اس شکست فاش کو دیکھ کر اس کے بدترین دشمن بھی حیران رہ گئے- ستانوے نشستوں سےصرف اکتیس نشستوں کا رہ جانا ہمارے انتخابی نتائج کی تاریخ میں انتہائی حیران کن پسپائی ہے- آج یہ پارٹی محض ایک صوبے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے جبکہ کبھی یہ حقیقی معنوں میں اکیلی قومی پارٹی تھی-
لیکن اس سے پہلے کہ ہم پی پی پی کو میدان سیاست سے خارج کردیں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ غریبوں کو ایک ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جو ان کی نمائندگی کرسکے- اگرچہ پارٹی کی قیادت پانچ سال پہلے ہی اپنی جڑوں سے رابطہ کھو بیٹھی تھی، لیکن جب جب یہ اقتدار میں آئی ہے ایسا ہی ہوا ہے-
حقیقت تو یہ ہے کہ پی پی پی ایک پارٹی سے زیادہ ایک تحریک تھی، اور اس نے خود کو اس وقت منوایا جب وہ حزب مخالف میں تھی- ہمیں چاہئے کہ ہم اس کے اس رول کو فراموش نہ کریں جو اس نے فوجی آمریت کے خلاف ادا کیا تھا-
اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسی شخصیت موجود ہے جو اسے نئی زندگی دے سکے یا اگلے پانچ برس میں سندھ میں اقتدار میں رہ کر رہا سہا وقار بھی کھودیگی؟
مجھے یقین ہے کہ زرداری اپنا بوریا بستر لپیٹ رہے ہونگے، لیکن اگر وہ یہاں رہے (اور جیل کے باہر) تو مجھے ان کی اہلیت پر شک ہے کہ وہ اپنے مایوس پارٹی کارکنوں میں جوش و جذبہ پیدا کر پائینگے-
ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تو اگے بڑھ رہا ہے لیکن پی پی پی کا پیغام ابھی تک وہی بندھا ٹکا ہے- جیسا کہ پنجاب میں اس کی شکست سے ظاہر ہے پاکستان میں اب شہری آبادی بڑھ رہی ہے اور اسکے نوجوان امنگوں سے بھرپور ہیں- اب مطالبہ صرف روٹی، کپڑا اور مکان کا نہیں رہا بلکہ ملازمتوں، تعلیم اور امن و سلامتی کا ہے-
تبدیلی کی بات کرنا تو دور کی بات، افسوس کہ مجھے پی پی پی میں کوئی ایسا رہنما نظرنہیں آتا جو پارٹی کو درپیش مسائل کو ہی سمجھ سکے، جسکی اشد ضرورت ہے-
َِترجمہ: سیدہ صالحہ