فائل تصویر --.
فائل تصویر --.

تبدیلی، نئے پاکستان اور میڈیا کی پرشور آوازوں میں ان پہاڑوں کی خاموشی پہ اھل وطن کو کوئی خاص پریشانی نہیں تھی۔ ویسے بھی اسکی خاموشی کی آواز فقط ان دھماکوں میں سنائی دیتی ہے، جن کی خبر وقفے وقفے سے کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں کئی جانوں کے ضیاع کی خبر کے ساتھ قومی میڈیا کے توسط سے آپ تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ گر؛جانی نقصان نہ ہو تو مقامی میڈیا بھی ان دھماکوں کی آواز میں چھپی بلوچ دھرتی کی خاموشی کی آوازپہ زیادہ کان نہیں دھرتا۔

یہ الگ بات کہ مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بھی یوں پرانا ھو چلا ھے کہ اب سپریم کورٹ سے وابستہ امید کی لو بھی مدھم ہو چکی ہے۔ آخرکو بلوچستان کس دیس میں بستا ھے، یہ جاننے کی بھی ضرورت حکمرانوں کو کیا شاید ہمیں بھی نہیں ھے۔

شاید تبدیلی اور نئے پاکستان کی بات بھی اس پہاڑی سلسلوں کے لیئے آغاز حقوقِ بلوچستان سے بڑھ کر نہ ھو۔ آغازِ بلوچستان، اک بددماغ رئیسانی کی حکومت کی بھینٹ چڑھا کر سمجھا گیا کہ اب رئیسانی کے ھیلی کاپٹر کا گھومتا پنکھا ان خون رستے زخم سکھانے کے لیئے کافی ھوگا۔

اس دوراں سارا بلوچستان یا تو ان ایف سی کے جوانوں اور دیگر ایجنسیوں کے کام کاج کو بڑھائے ھوئے تھا یا پھر پہاڑوں کا رخ کرتے نوجوانوں کے غصے میں تپتا رھا۔ بارود اگلتی بندوقوں کی نال پہ پرندوں کے گھونسلے نہیں بنتے۔ ایک ہاتھ میں رائفل پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے ی سیلیوٹ کرنے والے دستے تو اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت کہ سندھی ٹوپی پہنے اس بلوچ صدر کی طرف سے بھی کوئی ایسی خاص گرمجوشی نظر نہیں آئی جو دونوں طرف سے بارود اگلتی بندوقوں کی نالیوں کو ٹھنڈا کر سکتی۔ پتہ نہیں کیسے مگر جب گمشدہ لوگوں اور مسخ شدہ لاشوں کی لسٹ روز بروز بڑھتی چلی گئی تو جا کر سپریم کورٹ کی بھی اس بدنصیب و لاپتہ علاقے پہ نظر پڑی۔ یوں کچھ دنوں کے لیئے تو ہمارے چیف کی آواز کوئٹہ میں گونجتی اور پھر لاپتہ لوگوں کی تصویریں لیئے کراچی تا اسلام آباد تک ان کے وارث دکھ کی تصویر بنے کھڑے رھتے۔ مگر جلد ہی شاید اس چیف کہ بھی پتہ چل گیا کہ ابھی تک اس مملکتِ خداداد میں اس خاکی قوت میں اتنا دم خم باقی ہے کہ وہ اب بھی کسی گردن کا خم بہ آسانی نکال سکیں۔ خاکی کے ڈیزائین میں ترمیم ناممکن تھی اس لیئے چیف نے چپ سادھنے میں ہی عافیت سمجھی۔ آگے کی بے بسی یہ تھی کہ آغازِ بلوچستان کے فورا بعد صدر نے آنکھیں ہی موند لی تھیں کہ کم از کم بلوچستان کے فریم میں انکے پاور کی اینٹری صرف اس نیم پاگل وزیرِ اعلی تک ہی محدود تھی۔

جس نے کبھی اپنی مونچھ کو نیچا ہونے نہیں دیا، کاھلو کے پہاڑوں سے جب اس بگٹی سردار کی نعش ڈیرا بگٹی پہنچی تو پھر اس کے بعد بلوچ خون نچلا نہیں بیٹھا اور یوں تپتی آگ میں بلوچستان جل کر خاکستر ھوتا رھا۔

جب سارا پاکستانی میڈیا الیکشن کی دھن پہ ناچتا اور پوری قوم کو نچاتا رہا اس وقت شاید ہی کچھ لوگ ھونگے جن کے سینے میں بلوچ کی خاموشی خنجر کی طرح اتری ھوگی۔

ہیومن رائٹس کمیشن اور دوسری چند اک سول سوسائٹی آرگنائیزیشنز نے ضرور یہ مدّعا اٹھایا کہ وہ سیاسی لوگ جو الیکشن میں حصہ لینے جا رھے ھیں یا وہ سرکاری ملازم جو ملازمت کی وجہ سے الیکشن کے عمل میں اپنے فرائض کی ادائگی کے لیئے مجبور ھیں، دونوں ہی پستول کی نوک پہ ہیں، دونوں کو دھمکیاں مل رھی تھیں۔ مگر اپنا قومی و آزاد میڈیا ایک ہی دھن بجا رھا تھا کہ تبدیلی آ رھی ھے اور پاکستان بس اب بدلا کہ تب بدلا۔ ہاں باقی ماندہ پاکستان نیا بھی ھو رھا تھا اور اس میں تبدیلی بس آیا ھی چاھتی تھی۔ مگر بلوچستان کے حالات بگڑتے چلے جا رھے تھے۔

قوم پرست و علیحدگی پسند جماعتوں کے بائیکاٹ کے باوجود بزنجو کی پارٹی کے ساتھ اس دفعہ مینگل بھی میدان میں اترے تھے۔ مگر خوف و دہشت میں اسی ایف سی نے یہ مرحلہ بھی یوں پار کرایا کہ کوئی چار سے پانچ فیصد لوگوں نے اس عمل میں حصہ لے کر اپنے ووٹ کاسٹ کیئے۔

ابھی حکومت چننے کا مرحلہ باقی ہے نواز لیگ بلوچ و پشتون دونوں کو کس طرح سےساتھ بٹھا کر کس طرح نئے پاکستاں کی طرف گامزن ھوتی ھے یہ تو آنے والے کچھ دنوں میں ہی واضح ہو جائیگا مگر مشکل ترین مرحلہ اس سے آگے کا ہے کہ کیا یہ حکومت جو مرکز میں بھی ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ ہوگی کیا وہ پچھلی حکومت کی طرح رسمی معافی سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے، بگٹی کے قتل میں ملوث چک شہزاد کے قیدی کو کسی خفیہ ڈیل سے باہر بھیجنے میں معاونت کے بجائے بلوچوں کے زخمون پہ پٹی رکھنے کا کام کرتے ہوئے اس پہ بگٹی کے قتل کا مقدمہ چلائیں گے؟؟ اور کیا اس نئے پاکستان کے پیکیج میں پہاڑوں کی سردی و گرمی میں تپتے نوجوانوں اور انکی جلا وطن قیادت کو باعزت طور واپس بلا کر ان سے با عزت طریقے سے ڈائیلاگ کی ابتدا کر سکتے ھیں؟

ابھی کل ھی تو سنا ھے کہ میاں صاحب طالبان سے مذکرات کے لیئے راضی ھوگئے ھیں۔ کیا پہاڑوں پہ بندوق سے کھیلتا بلوچ بھی ان سے یہ توقع کر سکتا ھے؟ گر اس قسم کی ابتدا میاں صاحب کی طرف سے ہوتی ہے تو چلو اس جشن میں ہم بھی شریک ہولیں گے کہ جس دن ہمارے سیاستدان کو پاکستان میں بلوچ کی شمولیت کا این۔ او۔ سی نہیں لینا پڑے گا اسی دن سے نئے پاکستان کی ابتدا ہوگی۔


amar sindhu80   امرسندھو ایک لکھاری، ایکٹوسٹ اور کالمنسٹ ہیں اور ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Phulain Baloch May 25, 2013 10:19am
Sindho Sahiba! Kis Dunya main rehti hain Aap. Kya yai Tumhain nahi maloom keh Balochistan Issue per qalam uthanay aur sach dunya kay samnay lanay ki Saza kya hai. Balochistan main ab tak jitnay logon ko lapata karkay un ki masakh shudah lashain pehenki gai hain un main say bashter to aap jaisay qalam kar aur syasi soch raknay walay log thay. Balochsitan ka masla ab jahan Phunch giya hai Mia Nawaz kay hal karnay kay bas ki baat nahi. Baloch ab kisi bhi soorat Pakistan kay fram work per reh kar bar bar dhoka kahana nahi chahtay. ab Baloch ka sirf aik nara hai. Watan ya Kafan. Balochistn Issue ka wahid hal ab Sirf aur Sirf Azad Balochistn hai. Long Live Baloch & Balochistan.