تابعدار چیف منسٹر
جناب آصف علی ذرداری کا پچھلا پانچ سالہ طرز حکومت مثالی طرز حکومت رہا ہے۔ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں نے اس طرز حکومت کے اسرار و رموز کو اپنے سلیبس میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور آئندہ چند سالوں میں دنیا بھر کے ذہین ترین لوگ اس طرز حکومت پر پی۔ایچ۔ڈی کر رہے ہونگے۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جناب آصف علی زرداری صاحب ایک مدبّر سیاستدان کے طور پر ابھرے۔ کیونکہ وہ خود ایک مدبّر سیاستدان تھے لہذا انہوں نے پارٹی میں موجود دوسرے مدبّر سیاستدانوں کی ضرورت نہیں سمجھی اور یا تو انہیں پارٹی سے باہر کردیا یا انہیں خاموش تماشائی کی طرح ان کی سیاست کے سبق لینے پر مجبور کردیا۔
افسوس پاکستان کی عوام کو ان کی یہ مدبّرانہ سیاست نظر نہیں آئی، انہیں صرف مہنگائی، لوڈشیڈنگ، کرپشن کے اسکینڈلز اور سی۔این۔جی کے لئے کھڑی گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں ہی نظر آئیں جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی تین صوبوں میں بری طرح شکست کھاگئی۔
لیکن سندھ کی عوام نے ایک مرتبہ پھر فیصلہ زرداری صاحب کےحق میں دیا اور یہ ثابت کردیا کہ وہ مفاد پرست نہیں۔ کیا ہوا جو ان کی جوتی ٹوٹی ہوئی ہے، کیا ہوا جو ان کا کرتا پھٹا ہوا ہے، ان کی زمین اور مویشی سیلآب میں برباد ہوچکے ہیں اور ان کے پاس پینے کا صاف پانی تک نہیں۔۔۔ ان کی پارٹی کے لیڈروں کی تو موجیں لگی ہوئی ہیں۔ ہیں کسی دوسری پارٹی میں ایسے سیاستدان جو ان کی طرح پھل پھول رہے ہیں؟
سندھ میں پچھلے پانچ سال قائم علی شاھ صاحب کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر بٹھایا گیا اور حضور اپنے نام کی طرح کرسی پر اس طرح چپکے رہے جس طرح داستان امیر حمزہ میں ویران جزیرے پر موجود بڈھوں کی بد روحیں امیر حمزہ کے لشکر کے سپاہیوں کی پیٹھہ پر چپک گئیں تھیں۔
لوگ کہتے ہیں ان کے دور حکومت میں سندھ اور با لخصوص کراچی میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے، تو میرے بھائی کراچی کی آبادی میں اضافہ بھی تو اسی صورت ہورہا ہے اگر لوگ مریں گے نہیں تو زندوں کے لئے جگہ کہاں سے بنے گی!
لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پانچ سال میں اندرون سندھ کوئی سڑک تک نہیں بنی، کوئی فلائی اوور نہیں بنایا گیا، شہروں میں اسکول، کالج اور ہسپتال وغیرہ بند ضرور ہوئے لیکن کھل نا سکے، عوام کے لئے کوئی انڈسٹری نہیں لگائی گئی۔۔۔۔ یہ سب پارٹی کے دشمنوں کا پروپیگنڈہ ہے، آپ کیا چاہتے ہیں کہ سندھ کا قدرتی ماحول بدل دیا جائے۔۔۔۔ اس کا جو پانچ ہزار سالہ تشخص ہے وہ تبدیل ہوجائے۔ سندھ میں آج بھی وہی بیل گاڑی چلتی ہے جو آج سے پانچ ہزار سال پرانے موئن جو ڈارو کے آثار قدیمہ سے نکلی تھی۔
آصف علی ذرداری صاحب نے آئندہ پانچ سالوں کے لئے بھی جناب قائم علی شاھ صاحب کو سندھ کا وزیر اعلیٰ نامزد کردیا ہے۔ ان کی اس کرم نوازی پر دل جھوم اٹھا۔ شاید زرداری صاحب کو اس بات کا غم ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی کوئی پرفارمنس نا دکھانے کے باوجود وہاں کی عوم نے انہیں کامیاب کردیا۔ بہرحال آئندہ پانچ سالوں میں انہیں ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ وہ آئندہ پیپلز پارٹی کا نام بھی ہونٹوں پر نہیں لائیں گے۔
قائم علی شاھ صاحب جو اپنی زندگی کی تراسی بہاریں دیکھہ چکے ہیں، ان کی اس لمبی عمر کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی بڑی احتیاط سے گزار رہے ہیں اور زیادہ تر وقت سوتے رہتے ہیں اس طرح ان کے جسم کے پرزے تھکنے سے بھی بچے رہتے ہیں اور دماغ بھی سکون کی حالت میں رہتا ہے۔ اور جو دو چار گھنٹے وہ جاگ کر وزیر اعلیٰ ہاؤس میں لوگوں سے ملاقات میں گزارتے ہیں اس کے بارے میں بھی لوگوں سے یہی سنا ہے کہ وہ ہاتھہ ہلانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔۔۔۔ کیونکہ جو چیز جتنی کم استعمال ہوگی وہ اتنی ہی زیادہ چلے گی۔ لہذا شاہ صاحب دماغ بھی کم ہی استعمال کرتے ہیں اور شرجیل میمن، پیر مظہرالحق اور آغا سراج درانی جیسے شاطر دماغ سندھ کی حکومت چلاتے ہیں۔
زرداری صاحب کو ایسے ہی سن رسیدہ افراد پسند ہیں جو صرف حکم کی تعمیل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور کسی بھی طرح کا کوئی سوال کبھی نہیں کرتے۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس سے پہلے اویس مظفر ٹپی، جو زرداری صاحب کے بھائی ہیں، کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے کی خبریں گرم تھیں لیکن شاھ صاحب کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بنا کر زرداری صاحب نے اپنی روایتی عیاری کا مظاہرہ کیا۔ اب ٹپی صاحب در پردہ سندھ حکومت کے روح رواں ہونگے اور برائی آئے گی ہمارے شریف اور نیک اللہ میاں کی گاٰئے شاہ صاحب پر۔۔۔۔














لائیو ٹی وی
تبصرے (3) بند ہیں