
Get the latest news and updates from DawnNews
صوبائی وزیرِ اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے عوام سے جو وعدے کیے، وہ پورے کر دکھائے، حالیہ سیلاب نے بُرے طریقے سے صوبے کو متاثر کیا، متاثرہ علاقوں کا سروے مکمل کرنے کے بعد متعلقہ خاندانوں میں ادائیگی کا عمل شروع کر دیا گیا، سیلاب متاثرین میں 10 ارب روپے تقسیم کیے گئے، مزید ادائیگیوں کا سلسلہ 30 نومبر تک مکمل کر لیں گے۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ مخالفین بھی مریم نواز شریف کے اقدامات کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں، وزیرِ اعلیٰ پنجاب نےحکومت کے پہلے سال میں شروع ہونے والے پروجیکٹس میں سے زیادہ تر مکمل کر لیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز شریف نے جو وعدے کر کے پروجیکٹس شروع کیے وہ تو مکمل کیے ہی، ساتھ ہی جن منصوبوں کے حوالے سے کوئی اعلان یا وعدے نہیں کیا، انہیں بھی مکمل کر لیا گیا۔
انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی حکومت کے کلرکوں کے گھروں سے بھی کروڑوں روپے نکل رہے ہیں، پنجاب میں سرکاری نوکریوں کے لیے ریٹ کا بازار لگا ہوا تھا، تاہم موجودہ حکومت میں افسران کی تعیناتی و ترقی ان کی پرفارمنس کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
عظمیٰ بخاری نے مزید کہا کہ ستھرا پنجاب منصوبے، جیسا پروگرام پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آیا، اس منصوبے سے تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد افراد کو نوکریاں ملیں، منصوبے میں اربوں روپے کی مشینری شامل کی گئی، ہزاروں ٹن کچرے کو ٹھکانے لگایا گیا۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت پنجاب کی الیکٹرک بسوں پر بہت زیادہ بات ہوئی ہے، صوبے میں الیکٹرک بسوں کا پہلا فیز مکمل کر لیا گیا، جس کے تحت مختلف شہروں کو 200 بسیں فراہم کی گئیں، 19 نومبر سے شروع ہونے والے فیز 2 میں مزید شہریوں کو ای بسیں دی جائیں گی۔
انہوں نے بتایا کہ رواں برس دسمبر میں پنجاب حکومت کے پاس 1100 الیکٹرک بسیں پہنچ جائیں گی، جو صوبے کے 42 مختلف شہروں کی دی جائیں گی۔
اسموگ کے حوالے سے انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال اکتوبر اور نومبر میں رواں برس سے زیادہ اسموگ تھی، اس سال اسموگ کے نمبر بہتر ہوئے ہیں، آئندہ برسوں میں مزید بہتر ہونے کا امکان ہے۔
عالمی بینک نے جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مالی سال 2025 میں پاکستان کی معیشت میں 3 فیصد توسیع ہوئی ہے، تاہم حالیہ سیلاب کے اثرات کے باعث اگلے مالی سال میں بھی شرحِ نمو کے اسی سطح پر رہنے کا امکان ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کا عنوان ’ترقی اور روزگار کے راستے پر قائم رہنا‘ ہے، اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کی معیشت جون 2025 میں ختم ہونے والے مالی سال میں 3 فیصد بڑھی، جو پچھلے سال کی 2.6 فیصد کی شرح سے زیادہ ہے۔
توسیع کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عالمی بینک نے کہا کہ مالیاتی سختی اور موزوں مانیٹری پالیسی نے مہنگائی کو قابو میں رکھنے اور مشکل عالمی و مقامی حالات میں جاری کھاتے اور بنیادی مالی توازن کو بہتر بنانے میں مدد دی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بہتر اعتماد نے صنعت اور خدمات کے شعبوں میں ترقی کی حمایت کی، اگرچہ زرعی شعبے کی کارکردگی کمزور رہی، جس کی ایک وجہ خراب موسمی حالات اور کیڑوں کی آفات تھیں۔
تاہم عالمی بینک نے خبردار کیا کہ اگرچہ مجموعی طور پر مستقبل کا منظرنامہ حوصلہ افزا ہے، لیکن اسے حالیہ سیلابوں نے متاثر کیا ہے، جنہوں نے عوام پر گہرے اثرات ڈالے ہیں اور شہری علاقوں و زرعی زمینوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
عالمی بینک کی پاکستان کے لیے کنٹری ڈائریکٹر بولورما آنگاابازر نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کے حالیہ سیلابوں نے انسانی جانوں اور معیشت دونوں پر نمایاں منفی اثرات ڈالے ہیں، جس سے ترقی کے امکانات کمزور ہوئے ہیں اور معاشی استحکام پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کلائمیٹ چینج اور آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ملکی ترقی میں سب سے بڑے دو مسائل ہیں، ایک موسمیاتی تبدیلی اور دوسرا بڑھتی ہوئی آبادی، دونوں ایشوز کو ہمیں انتہائی احتیاط کے ساتھ حل کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے معاشی گروتھ حاصل کرنا مشکل ہو گیا، پنجاب میں اسموگ ہو یا ملک بھر میں آنے والے سیلاب، ان کی شدت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے، جس میں انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ بے پناہ مالی نقصان بھی ہو رہا ہے۔
حالیہ سیلاب سے قبل جی ڈی پی کی گروتھ 4.2 خیال کی جارہی تھی، تاہم پنجاب میں بڑے پیمانے پر زراعت کے شعبے میں ہونے والے نقصانات کے باعث جی ڈی پی گروتھ میں کمی کا خدشہ ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے کسی ایک خطے کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے ملک کا نقصان ہوتا ہے، وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک سمیت دیگر لوگ اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ہم نے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا، ملک میں معاشی استحکام آیا تو ہم نے گزشتہ 2 سالوں میں 4 ارب ڈالر کا بیک ڈراپ نکالا، معاشی استحکام کا براہ راست اثر اکانومی پر پڑتا ہے اور اس سے غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔
حالیہ دورہ امریکا کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ ٹیکس، پبلک فنانس، پرائیوٹائزیشن اور انرجی سیکٹر میں ریفارمز کے حوالے سے ہم نے ورلڈ بینک کو پریزنٹیشن دی، جسے بہت زیادہ پسند کیا گیا۔
ٹیکسز کے حوالے سے محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ہم نے تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ریلیف دینے کی کوشش کی، انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ تنخوادہ دار طبقہ پہلے ہی بہت زیادہ ٹیکسز ادا کر رہا ہے، اس لیے ان کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔
غیر ملکی کمپنیوں کے پاکستان سے جانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ گلوبل کمپنیوں کے کسی بھی خطے میں کام کرنے کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، وہ اپنی پالیسی کے تحت آتے ہیں اور پھر ویسے ہی چلے بھی جاتے ہیں۔
تاہم غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں مشکلات کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ضرور کچھ نہ کچھ مشکلات ہوں گی، تاہم ہماری مقامی کمپنیاں اچھی پروڈکٹس بنا کر اب ملٹی نیشنل کمپنیز کو ٹف ٹائم دے رہی ہیں۔
بلوچستان میں منرلز اور امریکی سرمایہ کاری پر محمد اورنگزیب نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی ہی اکنامک سیکیورٹی ہے اور اکنامک سیکیوٹی ہی نیشنل سیکیورٹی ہے، پاکستان کے پاس یہ بہت بڑا موقع ہے، جبکہ ریکوڈک بھی چھوٹا نہیں بلکہ 7 ارب ڈالر کا ایک بڑا پروجیکٹ ہے، اس میں ایک چھوٹی سی رکاوٹ موجود ہے وہ دور ہوتے ہی معاملات بہتر ہو جائیں گے۔
اسٹاک مارکیٹ کی نئی بلندیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مارکیٹ نے اندازوں کے برعکس حیرت انگیز طور پر بہتری دکھائی، اسٹاک مارکیٹ میں 95 ہزار نئے سرمایہ کار رجسٹرڈ ہوئے، پاکستان میں معاشی استحکام آرہا ہے تاہم اس کے لیے سفارتی تعلقات کا بہتر ہونا ضروری ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ صوبے میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے رونا دھونا کیا اور نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے۔
دیپالپور میں سیلاب متاثرین میں فلڈ کارڈ اور چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کے دوران مریم نواز کا کہنا تھا کہ متاثرین کی بحالی کا آغاز ہوگیا ہے، اگر ہماری تیاری نہ ہوتی تو سیلاب سے نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا۔
پنجاب میں بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، دریاؤں کے بپھرنے سے اطراف کے علاقے زیرآب آئے، میں نے سیلاب کے دوران قیامت خیز مناظر دیکھے، سیلاب کے دوران بہت تکلیف دہ مناظر دیکھے، سیلاب سے گھر، مویشی اور فصلیں متاثر ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے کئی جانیں گئیں، گھروں کو نقصان ہوا، سیلاب کاپانی اترنے کے بعد متاثرین کی بحالی کا کام شروع ہوگیا، شکر ہے متاثرین کی اپنے گھروں کو واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ سیلاب آتا ہے تو حکومتیں روتی دھوتی ہیں لیکن میں نے سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے رونا دھونا نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے، میں نے پنجاب کے عوام کی عزت نفس کا خیال رکھا۔
مزید کہا کہ جب تک آپ کی بہن وزیراعلیٰ ہے کوئی میلی آنکھ سے دیکھ نہیں سکتا اور دکھ درد میں عوام کا ساتھ دینا نواز شریف اور شہباز شریف سے سیکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو پیسے عوام کے استعمال میں نہیں آئے وہ کس کام کے ہیں، پنجاب حکومت نے متاثرین کے لیے ریلیف کا کام اپنے بجٹ سے کیا، میں نے سوچا پہلے پنجاب کے وسائل عوام کے سامنے رکھوں۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور امداد ان کا حق ہے، کوئی احسان نہیں، سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے 70 فیصد سروے مکمل ہوچکا ہے۔
وفاقی وزیر برائے خزانہ و محصولات، سینیٹر محمد اورنگزیب نے امریکا کے سرکاری دورے کے پہلے دن واشنگٹن ڈی سی میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک گروپ (ڈبلیو بی جی) کے سالانہ اجلاسوں کے موقع پر اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔
وزیر خزانہ اور ان کے وفد نے آئی ایم ایف کے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے ڈائریکٹر جہاد ازعور اور ان کی ٹیم سے اہم ملاقات کی، دونوں فریقین نے پاکستان کے اصلاحاتی ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا اور اصلاحات کے موجودہ تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے عزم کی تجدید کی۔
اجلاس میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی (ای ایف ایف) کے دوسرے جائزے کے تحت پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
وزیر خزانہ نے دولتِ مشترکہ (کامن ویلتھ) کے وزرائے خزانہ کے اجلاس میں بھی شرکت کی، جہاں انہوں نے ایک مضبوط اور خوشحال دولتِ مشترکہ کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے دولتِ مشترکہ کے انفرااسٹرکچر اور مالیاتی لچک کے مرکز کے نفاذ کی حمایت کی، ساتھ ہی تکنیکی معاونت فنڈ (ٹی اے ایف) کے قیام کی بھی تائید کی، وزیر خزانہ نے ترقی پذیر ممالک، خصوصاً پاکستان کے لیے موسمیاتی مالیات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور ’لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ‘ جیسے مالیاتی میکانزم کے فوری نفاذ پر زور دیا۔
ایک اور ملاقات میں وزیر خزانہ نے ورلڈ بینک گروپ کے سینئر منیجنگ ڈائریکٹر ایکسل وین ٹروٹسین برگ سے تفصیلی گفتگو کی۔
انہوں نے پاکستان کے قومی ترقیاتی ایجنڈے کے لیے ورلڈ بینک کے مسلسل تعاون پر شکریہ ادا کیا، وزیر خزانہ نے اس بات پر زور دیا کہ موسمیاتی بحران پاکستان کے لیے ایک وجودی چیلنج ہے، خاص طور پر حالیہ تباہ کن سیلابوں کے بعد جنہوں نے زرعی شعبے اور جی ڈی پی نمو پر سنگین اثرات ڈالے ہیں۔
انہوں نے موسمیاتی موافقت اور تخفیف کے اقدامات میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اضافی وسائل کے حصول پر اتفاق کیا۔
مزید برآں، وزیر خزانہ کی امریکا پاکستان بزنس کونسل (یو ایس پی بی سی) کے ارکان سے ملاقات ہوئی۔
انہوں نے شرکا کو پاکستان کے مثبت معاشی اشاریوں سے آگاہ کیا اور کہا کہ نجی شعبے کی ترقی معاشی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے، سینیٹر محمد اورنگزیب نے کاروباری مسائل کے حل اور زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے کے لیے حکومت کے عزم کو دہرایا۔
محمد اورنگزیب نے امریکا کے ساتھ حالیہ تجارتی معاہدے کو نمایاں کیا اور کان کنی، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دواسازی جیسے کلیدی شعبوں میں حکومتوں کے درمیان (جی ٹو جی) اور کاروبار سے کاروبار (بی ٹو بی) سطح پر تعاون بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا۔
اجلاس کے آخر میں ایک سوال و جواب کا سیشن ہوا، جس میں وزیر خزانہ نے یقین دہانی کرائی کہ بزنس لیڈرز کی طرف سے اٹھائے گئے حقیقی خدشات کو حل کیا جائے گا۔
قبل ازیں وزیر خزانہ نے امریکی محکمہ خزانہ کے انٹرنیشنل فنانس کے اسسٹنٹ سیکریٹری رابرٹ کیپ روتھ اور مشیر جوناتھن گرینسٹین سے مفید ملاقات کی۔
اس دوران وزیر خزانہ نے پاکستان کی مضبوط معاشی بنیادوں کو اجاگر کیا، جو موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مستحکم ہو رہی ہیں، انہوں نے امریکی انتظامیہ کے ساتھ ٹیرف معاہدے کے کامیاب اختتام کا خیرمقدم کیا اور ورچوئل اثاثوں کی ضابطہ کاری سے متعلق پاکستان کی حالیہ قانون سازی سے آگاہ کیا۔
انہوں نے امریکی کمپنیوں کو پاکستان کے تیل و گیس، معدنیات، زراعت اور آئی ٹی شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی۔
وزیر خزانہ نے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) کے مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا، ترکیہ، افغانستان اور پاکستان کے ریجنل نائب صدر ریکارڈو پولیتی سے بھی ملاقات کی۔
محمد اورنگزیب نے پاکستان میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے میں آئی ایف سی کے کردار کو سراہا، جو 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت اربوں ڈالر کے منصوبوں پر مشتمل ہے۔
دونوں فریقین نے آئی ایف سی کے فلیگ شپ منصوبے ’ریکو ڈک‘ کے مالیاتی بندوبست کو تیز کرنے پر اتفاق کیا، وزیر خزانہ نے اسلام آباد میں آئی ایف سی کے نئے ریجنل دفتر کے قیام کا خیرمقدم کیا، جو پاکستان کے ساتھ تعاون کو مزید مضبوط کرے گا۔
وزیر خزانہ نے اسلامی ترقیاتی بینک (آئی ڈی بی) کے صدر ڈاکٹر محمد سلیمان الجاسر سے بھی ملاقات کی، سینیٹر اورنگزیب نے بینک کی طویل مدتی حمایت پر شکریہ ادا کیا اور پاکستان میں جاری منصوبوں کے پورٹ فولیو کا جائزہ لیا۔
انہوں نے منصوبوں پر عمل درآمد میں تیزی لانے کی ضرورت پر زور دیا اور ایم 6 موٹروے کے 2 حصوں کے لیے مالی منظوری پر شکریہ ادا کیا، دونوں فریقین نے پاکستان میں پولیو کے خاتمے، آئل فنانسنگ سہولت، اور پاکستان کے لیے نئے کنٹری انگیجمنٹ فریم ورک کی تیاری پر تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
محمد اورنگزیب نے سٹی بینک کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی، جہاں انہوں نے پاکستان کے ساتھ سٹی کے دیرینہ تعلقات کو سراہا، وزیر خزانہ نے پاکستان کی مستحکم ہوتی معاشی صورتحال، جاری ساختی اصلاحات، اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے اس کی توثیق پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے پاکستان کے بطور ’ڈیجیٹل اختراعات اور مالیاتی خدمات کا علاقائی مرکز‘ کے ابھرتے ہوئے کردار کو اجاگر کیا اور یقین دلایا کہ حکومت سٹی بینک کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔
ان ملاقاتوں کے علاوہ، وزیر خزانہ نے امریکی اور بین الاقوامی میڈیا سے بھی بات چیت کی، جن میں ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) اور رائٹرز کو دیے گئے انٹرویوز شامل تھے، انہوں نے پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ کی جانب سے پاکستانی وفد کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں بھی شرکت کی۔
وزیر خزانہ کی واشنگٹن ڈی سی میں سرگرمیاں حکومت کے اس عزم کی عکاس ہیں کہ وہ اقتصادی تعاون کو گہرا کرے، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ شراکت داری کو مضبوط بنائے، اور پاکستان کو استحکام سے پائیدار اور جامع ترقی کی طرف تیزی سے منتقل کرے۔
یہ دورہ کلیدی بین الاقوامی مالیاتی اداروں، ترقیاتی شراکت داروں، اور نجی شعبے کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ہم نے حکومت کو وزارت میں حصہ لیے بغیر سپورٹ کیا، اس کا مطلب یہ نہیں مسلم لیگ (ن) جو چاہے کرے اور ہم خاموش رہیں۔
لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو وزارت میں حصہ لیے بغیر سپورٹ کیا اور مسلم لیگ (ن) کا حکومت بنانے میں نیک نیتی سے ساتھ دیا۔
انہوں نے کہا کہ مگر اس کا مطلب یہ نہیں مسلم لیگ (ن) جو چاہے کرے اور ہم خاموش رہیں گے، ہم صورتحال کو پہلے خراب کرنا چاہتے تھے نہ اب ایسا چاہتے ہیں۔
رہنما پیپلزپارٹی نے کہا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے مکالموں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، مکالموں سے سیاست اور جمہوریت کو فائدہ نہیں ہوگا، معاملات اتنی دور نہ لےجائیں اور ماضی جیسے لہجے نہ اپنائیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان طویل عرصے سے مختلف بحرانوں کا شکار رہا، ہر حکومت نے بحران سے نمٹنے کی کوشش کی، آج بھی دہشت گردی اور باڈر کی کیفیت سمیت مختلف مشکلات ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت بنتے وقت ہم نے نیک نیتی کے ساتھ حکومت کا ساتھ دیا، تحریری معاہدہ کیا گیا مگر بدقسمتی سے حکومت سے معاہدے کی تمام شقوں پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ملکی حالات کے پیش نظر ہم خرابی نہیں چاہتے تھے، پیپلز پارٹی کی سوچ تھی کہ ملک کے مسائل کا حل نکالنا ہے، اسی لیے جنگی حالات سمیت ہر موقع پر حکومت کو سپورٹ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ماضی کے زخموں کو بھلانا چاہتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کے دوستوں سے درخواست ہے وہ نامناسب لہجہ اور الفاظ استعمال نہ کریں۔
رہنما پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو بہت تحمل سے چیزوں کو لے کر آگے چل رہے ہیں۔
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اس بار خوفناک سیلاب آیا ہے اور بہت نقصان ہوا ہے، پنجاب و سندھ حکومت نے اچھا کام کیا جس کی ہم نے تعریف کی، جہاں خامی ہوگی اس پر بھی رائے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری رائے پر وزیر اعلیٰ کہتی ہیں کہ میں انگلی توڑ دوں گی بات نہیں کرنے دوں گی۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب میں پیپلز پارٹی ہر جگہ پنجاب حکومت کے ساتھ کھڑی رہی، چیئر مین بلاول بھٹو گورنر پنجاب اور دیگر ہمارے لوگوں سے ملاقات کی اور امداد کی۔
جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں بدستور جاری ہیں، جہاں ستلج کے کنارے نوراجا بھٹہ حفاظتی بند میں 3 شگاف پڑنے سے ملتان، بہاولپور اور لودھراں کے 28 مواضع زیر آب آگئے، جس سے ہزاروں افراد بے گھر اور انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا۔
ادھر سیلابی نقصانات کا جائزہ لینے والی ٹیموں نے پہلے 3 روز میں پنجاب کے 27 ہزار 500 متاثرہ افراد کا ڈیٹا جمع کر لیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق نوراجا بھٹہ بند پانی کے شدید دباؤ کے باعث 20 روز قبل7 مقامات سے ٹوٹ گیا تھا جس کے نتیجے میں کئی دیہات 6 سے 8 فٹ تک پانی میں ڈوب گئے تھے، ان میں نوراجا بھٹہ، بہادرپور، جھنگرا، کوٹلہ چکر، طروط بشارت، بستی لنگ، بستی کنو، دیپالپور، خیرپور ڈھا، کنڈیر، جھائیو، دیپال، ڈیلی راجن پور، بیلے والا، دنیاپور، مرادپور، سوئیوالا اور سبرا شامل ہیں، مسلسل دباؤ نے گھروں اور جائیدادوں کو وسیع پیمانے پر تباہ کیا۔
شگافوں نے موٹروے ایم 5 اور گیلانی روڈ کو شدید متاثر کیا، پانی موٹروے عبور کرکے دونوں شاہراہوں کے درمیان جھیل کی شکل اختیار کر گیا، موٹروے پر 5 سے 6 مقامات پر نقصان رپورٹ ہوا، جس پر حکام نے گیلانی روڈ پر کنٹرولڈ شگاف ڈال کر پانی کو دریا چناب کی طرف موڑنے کی کوشش کی تاکہ مزید خرابی سے بچا جا سکے۔
اس کے نتیجے میں ایم 5 موٹروے گزشتہ 15 دنوں سے اوچ شریف انٹرچینج سے جلالپور پیروالہ تک بند ہے جس سے جنوبی اور وسطی پنجاب کے درمیان ٹریفک معطل ہے، ہزاروں گاڑیاں پھنس گئیں اور مسافروں کو خطرناک متبادل راستوں پر جانا پڑ رہا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ اگرچہ ستلج کے بہاؤ میں 80 ہزار کیوسک سے کمی ہو کر 20 ہزار کیوسک رہ گئی ہے جس سے پانی اترنا شروع ہوا ہے، تاہم تین شگافوں سے پانی بدستور نکل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی متاثرہ افراد لودھراں، احمد پور اور دیگر علاقوں کے ریلیف کیمپوں میں ہیں اور بند مکمل طور پر بند ہونے کے منتظر ہیں، اس وقت پانی ایم فائیو کے کلورٹس کے ذریعے گزر کر چناب کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ملتان کے ایریگیشن چیف انجینئر نواز باجوہ نے بتایا کہ جلالپور پیروالہ میں نوراجا بھٹہ فلڈ بینک کے 7 میں سے 4 شگاف پر کر دیے گئے ہیں جبکہ باقی 3 پر کام تیزی سے جاری ہے۔
پنجاب کے وزیر آبپاشی کاظم علی پیرزادہ نے بھی کہا کہ فلڈ بینک کی بحالی کا کام جاری ہے اور متاثرہ علاقوں میں پانی کی سطح بتدریج کم ہو رہی ہے، انہوں نے بتایا کہ نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے اور اس کے مطابق ریلیف پیکیجز تقسیم کیے جائیں گے۔
پنجاب حکومت نے اتوار کو متاثرین کے نقصانات کا سروے شروع کیا تاہم اس کے مکمل ہونے یا معاوضوں کی ادائیگی کے لیے کوئی وقت نہیں بتایا گیا، اندازہ ہے کہ 40 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو منگل کو بریفنگ دی گئی کہ اب تک 27 ہزار 500 افراد کا ڈیٹا، 48 ہزار 71 ایکڑ زیرِآب اراضی اور 8 ہزار 305 تباہ شدہ گھروں کی معلومات اکٹھی کی جا چکی ہیں، اس کے علاوہ ایک ہزار 712 مویشیوں کے مرنے کا ریکارڈ بھی حاصل کیا گیا ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ 26 اضلاع میں 1429 ٹیمیں سرگرم ہیں، وزیراعلیٰ نے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو ٹیموں کی بھرپور معاونت اور نگرانی کی ہدایت کی۔
حکومت پنجاب نے کہا ہے کہ 2200 سروے ٹیمیں جن میں پاک فوج، ریونیو، زراعت، لائیو اسٹاک اور ضلعی انتظامیہ کے 10 ہزار اہلکار شامل ہیں، یہ عمل انجام دیں گے۔
متاثرہ خاندانوں کو مکمل معاوضہ سروے رپورٹ کی بنیاد پر دیا جائے گا، جس میں مکمل تباہ شدہ مکان کے لیے 10 لاکھ روپے، جزوی متاثرہ مکان کے لیے 5 لاکھ روپے، مویشی کے نقصان پر 5 لاکھ روپے اور کسانوں کو فی ایکڑ 20 ہزار روپے (زیادہ سے زیادہ 12 ایکڑ تک) دیے جائیں گے۔
حکومت نے خبردار کیا ہے کہ مالی اور صنعتی کارکردگی میں بہتری کے باوجود جاری سیلاب کے باعث پیدا ہونے والی سپلائی چین میں رکاوٹیں مہنگائی میں وقتی اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارتِ خزانہ نے اپنے ماہانہ اقتصادی جائزے اور ستمبر 2025 کے آؤٹ لک میں کہا ہے کہ 2025 کے جاری سیلاب کی وجہ سے زرعی شعبہ متاثر ہونے کا امکان ہے، سیلاب سے متعلق رکاوٹیں خوراک کی سپلائی چین پر دباؤ ڈال سکتی ہیں جس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ ہوگا، اس کے باعث مہنگائی عارضی طور پر بڑھے گی مگر ستمبر 2025 میں یہ 3.5 سے 4.5 فیصد کے درمیان قابو میں رہے گی۔
وزارت نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا کہ ان رکاوٹوں کے باوجود معاشی سرگرمیاں مجموعی طور پر مستحکم رہیں، بڑی صنعتوں (ایل ایس ایم) کی بحالی، جو سیمنٹ کی ترسیل، گاڑیوں کی پیداوار اور متعلقہ صنعتوں کے حوصلہ افزا رجحانات سے تقویت پا رہی ہے، آنے والے مہینوں میں صنعتی رفتار کو مضبوط کرے گی۔
وزارت خزانہ کو توقع ہے کہ بیرونی شعبہ بھی مستحکم رہے گا اور زیادہ درآمدی طلب کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو میں رہے گا، ترسیلات زر نے مضبوط سہارا فراہم کیا ہے، جب کہ برآمدات میں ابتدائی بحالی کے آثار نظر آئے، گرتی ہوئی عالمی اجناس کی قیمتیں درآمدی بل کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق معیشت نے موجودہ مالی سال کے ابتدائی 2 ماہ میں استحکام اور نمو کی راہ برقرار رکھی ہے، جس میں مہنگائی میں کمی، بڑے پیمانے کی صنعت میں بہتری اور مالی خسارہ کنٹرول میں ہے، حالانکہ جولائی 2025 سے شدید سیلاب کا سامنا ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ خریف کی فصلوں اور مویشیوں کے نقصان کا جائزہ جاری ہے، جب کہ حکومت نے شدید سیلاب سے متاثرہ کسانوں کی مدد اور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی مشکلات سے نمٹنے کے لیے ملک بھر میں موسمیاتی اور زرعی ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بڑے پیمانے کی صنعت نے جولائی 2025 میں سال بہ سال 9 فیصد اور ماہ بہ ماہ 2.6 فیصد نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا، مجموعی طور پر 22 میں سے 16 شعبوں میں مثبت ترقی ہوئی جن میں ٹیکسٹائل، ملبوسات، کوک اور پیٹرولیم مصنوعات، غیر دھاتی معدنی مصنوعات اور دواسازی شامل ہیں۔
کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے مطابق مہنگائی اگست 2025 میں 3 فیصد پر آگئی، جب کہ جولائی-اگست مالی سال 26 کے دوران یہ 3.5 فیصد رہی، جو گزشتہ سال کے 10.4 فیصد سے نمایاں طور پر کم ہے۔
وزارتِ خزانہ نے کہا کہ حکومت مالی سال 26 میں مالی کارکردگی مزید بہتر کرے گی اور مضبوط مالی کھاتوں پر بنیاد رکھتے ہوئے آگے بڑھے گی، جنہوں نے 8 سال کی کم ترین مالی خسارہ اور 24 سال کی بلند ترین پرائمری سرپلس فراہم کیا۔
حکومت نے مؤثر وسائل جمع کرنے اور محتاط اخراجات کی حکمت عملی کا بھی وعدہ کیا ہے، تاہم جولائی میں خالص وفاقی آمدن صرف 7.7 فیصد بڑھی، جسے غیر ٹیکس آمدن میں 23.9 فیصد اور ٹیکس آمدن میں 14.8 فیصد اضافے نے سہارا دیا۔
جولائی میں غیر ٹیکس آمدن زیادہ تر پٹرولیم لیوی، منافع اور دفاعی مد میں وصولیوں کی وجہ سے رہی۔
جولائی-اگست مالی سال 26 کے دوران ایف بی آر کی خالص وصولیاں 14.1 فیصد بڑھیں جب کہ اخراجات میں 28.8 فیصد اضافہ ہوا، نتیجتاً مالی خسارہ جی ڈی پی کا 0.2 فیصد تک محدود رہا، جب کہ پرائمری سرپلس 228 ارب 90 کروڑ روپے (جی ڈی پی کے 0.2 فیصد) تک بہتر ہوا جو گزشتہ سال 107 ارب 10 کروڑ روپے (جی ڈی پی کے 0.1 فیصد) تھا۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جولائی-اگست مالی سال 26 کے دوران 62 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہا، جو گزشتہ سال کے 43 کروڑ ڈالر سے بڑھ گیا۔
اشیا کی برآمدات 10.2 فیصد بڑھ کر 5 ارب 30 کروڑ ڈالر رہیں، جب کہ درآمدات 8.8 فیصد بڑھ کر 10 ارب 40 کروڑ ڈالر تک پہنچی گئیں، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ 5 ارب 10 کروڑ ڈالر رہا، جو گزشتہ سال کے 4 ارب 80 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے، ترسیلات زر 7 فیصد بڑھ کر 6 ارب 40 کروڑ ڈالر ہوگئیں، جن میں سعودی عرب (24.6 فیصد حصہ) اور یو اے ای (20.6 فیصد حصہ) سرِفہرست رہے۔
خالص براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) 36 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہی جو 22 فیصد کم ہے، تاہم نجی اور عوامی پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں بالترتیب 7 کروڑ 40 لاکھ ڈالر اور ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر کے خالص انخلا ریکارڈ کیے گئے، 19 ستمبر تک زرمبادلہ کے ذخائر 19 ارب 80 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیے گئے، جن میں 14 ارب 40 کروڑ ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس تھے، جو گزشتہ سال کے ساڑھے 9 ارب ڈالر کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔
وزارتِ خزانہ نے کہا کہ مالیاتی حالات مستحکم رہے اور اسٹاک مارکیٹ نے اپنی تیزی برقرار رکھی، جو سرمایہ کاروں کے اعتماد کی عکاسی کرتی ہے۔
اگرچہ سیلاب کے باعث پیدا ہونے والی رکاوٹیں مہنگائی کے لیے وقتی خطرات پیدا کرتی ہیں، تاہم مجموعی منظرنامہ ایک مستحکم معاشی ماحول کی نشاندہی کرتا ہے جہاں صنعت، بیرونی آمدنی اور مالی نظم و ضبط میں مثبت رجحانات پائیدار ترقی کی ضمانت بننے کی توقع ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے خبردار کیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حالیہ سیلاب کے باعث ربیع کی فصل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایف اے او نے خبردار کیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سیلابی نقصانات آنے والی ربیع کی فصل کو متاثر کریں گے، جب کہ پنجاب کی صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے سروے ٹیموں کو ہدایت دی ہے کہ نقصانات کے تخمینے کے دوران عوامی شکایات کو ترجیح دی جائے۔
دوسری جانب پاکستان محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) نے جنوب مشرقی سندھ میں 2 اکتوبر تک ہوا، گرج چمک اور درمیانی وقفوں کے ساتھ بارشوں کی پیشگوئی کی ہے۔
حالیہ سیلاب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں زرعی زمین، کھڑی فصلیں اور زرعی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
اپنی ابتدائی تخمینہ جاتی رپورٹ میں ’ایف اے او‘ نے خبردار کیا کہ ربیع 26-2025 اور خریف 2026 کے لیے بیج کی دستیابی خطرے میں ہے۔
سیلاب سے 13 لاکھ ہیکٹر رقبہ زیر آب آگیا، جن میں سے 9 لاکھ 30 ہزار ہیکٹر زرعی زمین تھی، جب کہ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا۔
ایف اے او کے مطابق گندم کے بیج کا نصف حصہ بچائے گئے اناج سے حاصل ہوتا ہے، جس کا بڑا حصہ زیر آب آنے والے گھروں میں ضائع ہوگیا۔
فارمل سیکٹر میں گندم کے بیج کی 80 سے 90 فیصد دستیابی موجود ہے، لیکن مارکیٹ کے دباؤ سے یہ سپلائی متاثر ہو سکتی ہے، بڑھتی ہوئی مانگ اور قیمتوں کے باعث کسان بیج کو بطور اناج فروخت کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں، جس سے صوبوں میں دستیابی مزید کم ہوجائے گی۔
رپورٹ کے مطابق سیلاب نے چارے کی سپلائی کو بھی متاثر کیا، جس کے نتیجے میں لاگت میں اضافہ اور دور دراز علاقوں تک رسائی محدود ہوگئی، کئی مالکان مجبوری کے تحت مویشی فروخت کر رہے ہیں، جب کہ باضابطہ مارکیٹ میں چارے کے بیج کی صرف 45 فیصد دستیابی موجود ہے، جو مویشیوں کی غذائی ضروریات کے لیے خطرہ ہے۔
اس کے علاوہ زیادہ بھیڑ والے شیلٹر اور کھڑا پانی مویشیوں میں دباؤ اور بیماریوں کے خطرات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ایف اے او نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ حالات میں لمپی اسکن ڈیزیز (ایل ایس ڈی)، فٹ اینڈ ماؤتھ ڈیزیز، پیسٹے ڈیس پیٹیٹس رومننٹس (پی پی آر) اور دیگر جانوروں سے انسانوں کو لگنے والی بیماریوں کے پھیلنے کے امکانات ہیں۔
جنوبی پنجاب میں سندھ اور بلوچستان کی سرحدی علاقوں میں ایل ایس ڈی کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جو اب شمال کی طرف پھیل رہے ہیں اور پاکپتن، لودھراں اور خانیوال میں نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔
ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں فصل وار نقصانات کے اعداد و شمار میں چاول کی فصل سب سے زیادہ متاثر ہوئی، مجموعی طور پر ایک لاکھ 88 ہزار 837 ہیکٹر رقبہ (کل چاول کے رقبے کا 7.3 فیصد) متاثر ہوا، جس میں زیادہ تر نقصان شمال مشرقی علاقوں میں ہوا۔
سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں سیالکوٹ (37 ہزار 944 ہیکٹر، 24.67 فیصد)، نارووال (20 ہزار 8 ہیکٹر، 15.88 فیصد)، گوجرانوالہ (10 ہزار 765 ہیکٹر، 4.72 فیصد)، بہاولنگر (9 ہزار 594 ہیکٹر، 8.60 فیصد) اور شیخوپورہ (9 ہزار 364 ہیکٹر، 4.25 فیصد) شامل ہیں۔
پنجاب میں کپاس کی فصل کا بھی بڑا حصہ متاثر ہوا، مجموعی طور پر 84 ہزار 182 ہیکٹر رقبہ (کل کپاس کے رقبے کا 5.1 فیصد) سیلاب سے متاثر ہوا، سب سے زیادہ نقصان والے اضلاع میں بہاولپور (19 ہزار 503 ہیکٹر، 6.10 فیصد)، راجن پور (8 ہزار 688 ہیکٹر، 6.75 فیصد)، خانیوال (7 ہزار 724 ہیکٹر، 8.21 فیصد)، ملتان (6 ہزار 917 ہیکٹر، 7.57 فیصد) اور مظفرگڑھ (6 ہزار 477 ہیکٹر، 7.03 فیصد) شامل ہیں۔
سیلاب سے گنے کی فصل بھی متاثر ہوئی، مجموعی طور پر 23 ہزار 413 ہیکٹر رقبہ (کل گنے کے رقبے کا 2.8 فیصد) متاثر ہوا، سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں فیصل آباد (2 ہزار 466 ہیکٹر، 4.01 فیصد)، جھنگ (2 ہزار 254 ہیکٹر، 4.05 فیصد)، بھکر (2 ہزار 201 ہیکٹر، 6.28 فیصد)، راجن پور (ایک ہزار 512 ہیکٹر، 2.87 فیصد) اور لیہ (ایک ہزار 504 ہیکٹر، 5.45 فیصد) شامل ہیں۔
خیبرپختونخوا میں سیلاب کے باعث 62 ہزار 80 ہیکٹر رقبہ زیرِ آب آیا، جن میں 50 ہزار 821 ہیکٹر زرعی زمین شامل ہے جو کل زرعی رقبے کا 2.7 فیصد بنتا ہے۔
سندھ میں 74 ہزار 542 ہیکٹر رقبہ متاثر ہوا (کل رقبے کا 0.5 فیصد)، جن میں 43 ہزار 140 ہیکٹر زرعی زمین شامل ہے جو کل زرعی رقبے کا 0.8 فیصد بنتا ہے۔
اسی دوران پنجاب ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے سروے ٹیموں کو ہدایت دی ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں کے نقصانات کا تخمینہ لگاتے ہوئے عوامی شکایات کے ازالے پر توجہ دی جائے۔
جلالپور پیروالہ میں متاثرہ افراد سے کہا گیا کہ وہ اسکول خالی کریں جو بطور ریلیف کیمپ استعمال ہو رہے تھے تاکہ کلاسز دوبارہ شروع کی جا سکیں۔
پی ڈی ایم اے نے پنجاب کے تمام دریاؤں میں پانی کی سطح کے اعداد و شمار جاری کیے، جن میں معمول کے بہاؤ اور سیلاب زدہ علاقوں میں نمایاں کمی ظاہر کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں پی ایم ڈی نے جنوب مشرقی سندھ میں 2 اکتوبر تک ہوا، گرج چمک اور درمیانی وقفوں کے ساتھ بارشوں کی پیشگوئی کی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ مجھے عوام کی خدمت کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں اور ہر چیز کا علاج صرف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نہیں ہے اور بھیک مانگنے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔
فیصل آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا پنجاب اگر اپنے حق کے لیے لڑے تو دوسروں کو کیا مسئلہ ہے، پنجاب اگر اپنے حصے کی نہریں نکالناچاہے تو دوسروں کا کیا تکلیف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب سیلاب متاثرین کی مدد پر اعتراض ہو رہا ہے، پنجاب کے عوام کو ان کا حق دینے کے لیے کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ نہروں پر اعتراض ہوا چپ رہی، حالانکہ پنجاب نے پانی چوری نہیں کرنا تھا، اپنے حصے کا پانی استعمال کرنا تھا، اپنے پانی سے چولستان کی زمین کو آباد کرنا تھا، میرا پانی، میرا پیسا ہے، آپ کو کیا تکلیف ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ اگر آپ سندھ میں کوئی کام کریں تو مجھے خوشی ہوتی ہے لیکن کچھ کرلو نا، پنجاب میں میٹرو بنی، اورنج لائن اور موٹروے بنیں، سڑکوں کا جال بچھایا، اس پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟
انہوں نے کہا کہ پنجاب تو کسی دوسرے صوبے کو نہیں کہتا کہ اپنا حق نہ لو اور نہ پنجاب نے کبھی کسی کے معاملات میں مداخلت کی لہذا ہمیں مشورہ نہ دیں اور اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مخالفین آج ایک دوسرے کو جوتے مار رہے ہیں، دنیا نے پگڑیاں اچھالنے والوں کو حال دیکھ لیا جب کہ اپنی ذات پر تنقید قابل برداشت ہے لیکن پنجاب پر تنقید قبول نہیں ہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ این ایف سی میں چاروں صوبوں کو ایک جیسے پیسے ملتے ہیں، آپ پیسے کہاں لگاتے ہیں، بھیک مانگنے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے، ہر چیز کا علاج بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نہیں ہے۔
واضح رہے کہ 25 ستمبر کو بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ سیلاب متاثرین کی مدد کو انا کا مسئلہ کیوں بنالیا گیا، اپنی انا کی وجہ سے یا پتا نہیں کیوں یہ فیصلہ کیا گیا ہے، وفاق کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا چاہیے اور سیلاب متاثرین کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مدد فراہم کریں۔
سابق وزیر خارجہ نے مزید کہا تھا کہ سیلاب کے بعد وفاقی کو عالمی مدد مانگنی چاہیے تھی، اگر آج آپ 100 روپے خرچ کررہے ہیں تو آپ کے پاس 200 روپے خرچ کرنے کے لیے ہوتے، اگر عالمی دنیا آپ کے ساتھ ہوتی تو آپ 100 کی مدد کررہے ہیں تو 200 متاثرین کی مدد کرپاتے۔
دریائے سندھ میں کوٹری بیراج پر پانی کی آمد میں کمی کا سلسلہ جاری ہے، تاہم درمیانے درجے کے سیلاب کی صورتحال برقرار ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز کوٹری بیراج میں اپ اسٹریم پر پانی کی آمد 4 لاکھ 21 ہزار 75 کیوسک اور ڈاؤن اسٹریم پر 3 لاکھ 93 ہزار 560 کیوسک ریکارڈ کی گئی، جو دوپہر تک کم ہو کر بالترتیب 4 لاکھ 12 ہزار 965 کیوسک اور 3 لاکھ 86 ہزار 650 کیوسک تھی۔
اتوار کو اپ اسٹریم بہاؤ 3 لاکھ 87 ہزار 808 کیوسک کیوسک اور ڈاؤن اسٹریم 3 لاکھ 62 ہزار 253 کیوسک رہا، بیراج کی 4 نہروں کے لیے تقریباً 25 ہزار 555 کیوسک پانی نکالا گیا، سیلاب کی لہریں پہلے ہی گڈو اور سکھر بیراج سے گزر چکی ہیں، جہاں پانی کا بہاؤ معمول پر آ گیا ہے۔
دریں اثنا نصری بند، لکھت بند، مڈ بنگلی بند اور امری پل کے مقام پر دریائے سندھ میں دباؤ برقرار رہا، جس کے باعث ریسکیو کی کارروائیاں مزید تیز کر دی گئیں۔
ریسکیو 1122 شہید بے نظیر آباد نے علی خان ماری گاؤں کے درجنوں مکینوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا اور مویشیوں و سامان کو بھی منتقل کرنے میں مدد فراہم کی۔
حکام نے صورتحال کو تشویشناک قرار دیا ہے اور کمزور علاقوں کے رہائشیوں پر زور دیا ہے کہ وہ محتاط رہیں اور ریسکیو ٹیموں سے تعاون کریں۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ وہ بندوں کی نگرانی کر رہے ہیں اور مزید حفاظتی اقدامات کے لیے تیار ہیں۔
پنجاب حکومت نے ستلج کے ساتھ ٹوٹنے والے تمام بند 4 اکتوبر تک بحال کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے، تاکہ ان علاقوں میں سیلابی صورتحال پر قابو پایا جا سکے، جہاں اب تک 200 سے زائد دیہات زیرِ آب آ چکے ہیں جن میں ملتان، بہاولپور اور لودھراں کے اضلاع شامل ہیں۔
ملتان کی تحصیل جلال پور پیروالا، لودھراں اور اُوچ شریف کے دیہات اُس وقت ڈوب گئے تھے، جب 15 روز قبل دریائے ستلج پر نوجاجا بھٹہ بند انتہائی زیادہ پانی کے دباؤ کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا۔
ان شگافوں سے پانی گزر کر ملتان-سکھر موٹروے (ایم فائیو) کے اردگرد جھنگرا (بہاولپور ضلع) سے لے کر جلال پور پیروالا تک پھیل گیا تھا، پانی نے کئی مقامات پر موٹروے کو توڑ کر عبور کیا اور گلانی روڈ اور موٹروے کے درمیان 20 سے 25 کلومیٹر طویل اندرونی جھیل بنا دی تھی۔
ان شگافوں کی وجہ سے موٹروے پچھلے 15 دن سے اُوچ شریف انٹرچینج سے جلال پور پیروالا تک ٹریفک کے لیے بند ہے، اس بندش نے جنوبی اور وسطی پنجاب کے درمیان تمام ٹریفک معطل کر دی ہے، جس سے سپلائی چین متاثر ہوئی، ہزاروں گاڑیاں پھنس گئیں اور مسافروں کو خطرناک متبادل راستے اختیار کرنے پڑے۔
جلال پور پیروالا کے مشرقی علاقوں میں صورتحال اب بھی سنگین ہے جہاں نوجاجا بھٹہ، بستی لنگ، کوٹلہ چکّر، بہادر پور، موضع کنیر، کنیڈیر، جھائیو، دیپل، طَرُت بشارت، ڈیلی راجن پور، بیلے والا، دنیا پور، جھنگرا، مرادپور سوئی والا اور صبرا جیسے دیہات 8 سے 10 فٹ پانی میں گھرے ہوئے ہیں، مسلسل دباؤ نے گھروں اور جائیداد کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔
دریں اثنا پنجاب حکومت نے حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے ایک سروے شروع کیا ہے، جب کہ پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متاثرہ افراد کو فوری ریلیف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے فراہم کرنے کے مطالبے کو قبول کریں۔
مرکز اور پنجاب میں اتحادی جماعتیں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی متاثرینِ سیلاب کی امداد کے طریقہ کار پر اختلاف کا شکار ہیں، مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت اپنے وسائل استعمال کرنے پر زور دے رہی ہے، جب کہ پیپلز پارٹی کا اصرار ہے کہ امداد بی آئی ایس پی کے ذریعے دی جائے۔
پنجاب کے وزیرِ آبپاشی کاظم علی پیرزادہ نے اتوار کو کہا کہ دریائے ستلج پر نوجاجا بھٹہ بند کے 7 شگافوں میں سے 3 مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں اور مزید 2 پر کام جاری ہے، سب سے بڑا شگاف 3 ہزار 300 فٹ چوڑا تھا جو تازہ ترین اپ ڈیٹس کے مطابق کم ہو کر ایک ہزار 650 فٹ رہ گیا ہے۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ محکمہ آبپاشی اپنی تمام صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لا رہا ہے تاکہ باقی ماندہ شگاف 4 اکتوبر کی شام تک مکمل طور پر بند کیے جا سکیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ علاقے میں پانی کی سطح آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے، ماہرین کی ایک ٹیم 6 اکتوبر کو صورتحال کا دوبارہ تکنیکی جائزہ لے گی تاکہ آئندہ اقدامات بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ کیے جا سکیں۔
اس سے قبل، ملتان کے ڈپٹی کمشنر وسیم حمید سندھو نے کہا تھا کہ متاثرین کی بحالی اور امدادی سرگرمیاں باضابطہ طور پر شروع کر دی گئی ہیں، دریاؤں کی صورتحال معمول پر آنے کے بعد متاثرہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جانا شروع ہو گئے ہیں، جب کہ انتظامیہ متاثرہ علاقوں میں خشک راشن فراہم کرتی رہی ہے۔
چین کی جانب سے سیلاب زدگان کے لیے امدادی سامان لے کر دو جہاز پاکستان پہنچ گئے۔ ان پروازوں کے ذریعے 300 خیمے اور 9 ہزار کمبل چین سے نور خان ایئر بیس منتقل کیے گئے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے مطابق وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام اور چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹنینٹ جنرل انعام حیدر ملک نے امدادی پروازوں کا استقبال کیا، اور چینی جہاز عملے کو خوش آمدید کہا۔
اس موقع پر پاکستان میں چین کے سفیر بھی موجود تھے۔
وفاقی وزیر امیر مقام نے کہا کہ چین کی بروقت امداد پاک چین لازوال دوستی کی عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق حکومتی ادارے اور این ڈی ایم اے متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
وفاقی وزیر امیر مقام نے مزید کہا کہ چین نے کبھی بھی مشکل وقت میں پاکستان کو اکیلا نہیں چھوڑا۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نےکہا ہے کہ ہم پر تنقید کرنے والے اپنے صوبے میں کام کرلیتے تو متاثرین سیلاب کا بھلاہوتا، پنجاب پہلا صوبہ ہے جس نے 25 لاکھ افراد کی سیلاب کے دوران مدد کی۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سیلاب سروے مہم کی منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ راتیں جاگ کر متاثرین کی مدد کی، تصویریں بنتی ہیں تو لوگوں کو پتا چلتا ہے حکومت ساتھ کھڑی ہے، کام کرنے والےکیمروں کا سامنا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کام کر رہا ہے اور دیگر لوگ تنقید کرنے میں مصروف ہیں، دفتر میں بیٹھ کر تصویریں بنوانا آسان ہے، چپ کرکے کام نہیں آرام ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کو بتانا چاہتی ہوں کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب اُن کے ساتھ کھڑی ہے، صوبے کے حکمران محلات میں سونے کے بجائے کام کرتے ہیں، 2 سے 3 ماہ میں پنجاب ایسا ہوجائے گا جیسے سیلاب آیا ہی نہیں تھا۔
مریم نواز نےکہا کہ تنقید صرف پنجاب پر ہو رہی ہے کہ کیونکہ یہ کام کر رہا ہے، بطور وزیر اعلیٰ عوامی خدمت میری ذمہ داری ہے، مشکل کی گھڑی میں دکھی انسانیت کی خدمت بڑی عبادت ہے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخی میں ایسا ہولناک سیلاب پہلے کبھی نہیں آیا، پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، دریائے ستلج، راوی اور چناب میں تباہ کن سیلاب سے تباہی ہوئی،۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے 25 شہر حالیہ سیلاب سے متاثر ہوئے، لوگوں کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے 24 گھنٹےکام کیا۔
مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں قابل تعریف ہیں، صوبائی وزرا، پوری انتظامیہ، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)، ریسکیو 1122 اور پولیس نے متاثرین کے لیے دن رات کام کیا۔
صوبہ پنجاب میں تباہ کن سیلاب کے باعث 3 ہزار سے زائد اسکول غیر فعال ہو گئے، جس سے ہزاروں بچوں کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگ گیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پنجاب کے وزیر برائے اسکول ایجوکیشن رانا سکندر حیات نے جمعرات کو کہا کہ سیلاب کے باعث 3 ہزار اسکول تباہ ہو چکے ہیں، جس سے ہزاروں طلبہ کی تعلیم شدید متاثر ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کی نمائندہ برائے پاکستان پرنیلے آئرنسائیڈ سے ملاقات کے دوران رانا سکندر حیات گفتگو کر رہے تھے جس میں مختلف تعلیمی منصوبوں پر پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں بہتر نتائج کے لیے تعاون کو مزید مستحکم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
صوبائی وزیر نے یونیسف کی نمائندہ کو بتایا کہ صوبے میں سیلاب کی وجہ سے محکمہ اسکول ایجوکیشن کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ہی سہولیات کی کمی تھی لیکن آفت نے ہزاروں اسکول تباہ کر دیے، جن میں سے کئی اب بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمہ اب ان اسکولوں کی بحالی کے چیلنج سے دوچار ہے اور بے گھر طلبہ کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے فعال اسکولوں میں تین شفٹوں کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
پنجاب کے وزیر برائے اسکول ایجوکیشن نے کہا کہ متاثرہ اسکولوں کی بحالی میں تقریباً تین ماہ لگیں گے، اس دوران حکومت نے منصوبہ بنایا ہے کہ نجی عمارتیں کرائے پر لی جائیں اور متاثرہ علاقوں میں خیمہ اسکول قائم کیے جائیں تاکہ تعلیمی سلسلہ جاری رہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سیلاب متاثرہ علاقوں کے طلبہ کی سیمسٹر فیس معاف کر دی گئی ہے اور انہیں وظیفے بھی دیے جائیں گے۔
دوسری جانب سرکاری دعووں کے باوجود کہ پنجاب بھر میں سیلابی پانی کم ہو رہا ہے، دریائے ستلج پر نوراجا بھٹہ کے بند میں تین شگاف پڑنے سے تباہ کن جھیلیں بن گئی ہیں جنہوں نے ملتان، لودھراں اور بہاولپور کے کئی دیہات کو ایک ہفتے سے زائد عرصے سے ڈبو رکھا ہے۔
جلالپور پیروالہ، لودھراں اور بہاولپور کے مشرقی علاقے بدستور سنگین صورتحال سے دوچار ہیں جہاں نوراجا بھٹہ، بستی لنگ، کوٹلہ چاکر، بہادرپور، موضع کانو، کندیر، جھائیو، دیپل، طروط بشارت، دیلی راجن پور، بیلایوالا، دنیاپور، جھنگرا، مرادپور سوئیوالا اور سبرا سمیت کئی دیہات 8 سے 10 فٹ گہرے پانی میں گھرے ہوئے ہیں، اس دباؤ نے گھروں اور املاک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
ایک مقامی شخص الطاف لنگ نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پانی اتر نہیں رہا، تقریباً 70 فیصد گھر پہلے ہی گر چکے ہیں اور اگر کچھ نہ کیا گیا تو باقی بھی گر جائیں گے، کھڑا پانی اپنا رنگ بدل رہا ہے اور اب پانی سے پھیلنے والی بیماریاں عام ہو رہی ہیں، یہ ایک صحت عامہ کا بحران بنتا جا رہا ہے۔
مقامی باشندوں نے قریبی موٹروے کو رکاوٹ قرار دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ موٹروے کے نیچے پانی کے گزر کے لیے بنائے گئے کلورٹس ناکافی ہیں اور پانی کو روک کر بند کا کام کر رہے ہیں۔
الطاف لنگ کا کہنا تھا کہ موٹروے ویسے بھی ٹریفک کے لیے استعمال کے قابل نہیں رہی، حکام کو چاہیے کہ اسے توڑ کر پانی کا اخراج ممکن بنائیں، موجودہ کلورٹس پانی کے گزر کے لیے نہیں بنے بلکہ صرف مقامی افراد اور مویشیوں کے گزرنے کے لیے ہیں اور وہ بھی مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے جنرل منیجر کاشف نواز نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ موٹروے توڑنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پانی نیچے کلورٹس سے گزر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمزور مقامات کو مضبوط کرنے کے لیے پتھر رکھے جا رہے ہیں تاکہ موٹروے محفوظ رہے، البتہ کلورٹس بند نہیں کیے گئے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے ملک بھر کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دینے کی سفارش کر دی۔
مسرور احسن کی زیرِ صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں ملک بھر میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاری سے فصلوں پر ہونے والے منفی اثرات پر بریفنگ دیتے ہوئے وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ چاروں صوبوں میں 2.5 ملین ایکڑ اراضی سیلاب سے متاثر ہوئی، پنجاب میں زیادہ تر چاول، گنا اور مکئی کی فصلوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ جو اضلاع ملک میں متاثر ہوئے انہیں آفت زدہ قرار دیا جائے، چیئرمین کمیٹی نے ملک بھر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دینے کی سفارشات کردیں۔
قائمہ کمیٹی نے وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی طرف سے بریفنگ پیپرز وقت پر نہ فراہم نہ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے سیکریٹری وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی سرزنش کی کہ اب ڈیجیٹل دور ہے اور وزارت 4 گھنٹہ پہلے بریف پیپرز جمع کروا رہی ہے۔
اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل پلانٹ پروٹیکشن کی تعیناتی کا معاملہ زیر بحث آیا، جس پر چیئرمین کمیٹی نے نئے ڈی جی کی تعیناتی کی سفارش کردی کہ جلد از جلد نیا ڈی جی تعینات کیا جائے۔
کمیٹی میں یورپی یونین سے چاولوں کی کھیپ میں انٹر سیپشن کا معاملہ زیر بحث آیا جس پر ڈی پی پی کے ڈاکٹر طارق نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ وزیر اعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی کی انکوائری پر معطل افسر کمیٹی میں پیش ہوئے، کمیٹی کو بتایا کہ میری تعیناتی سے قبل کی کنسائنمٹ منسوخی پر مجھے سزا دی گئی۔
سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے بریفنگ دی کہ متعلقہ افسر بارے دو انکوائریاں تھی، ایک انکوائری کا معاملہ سیٹل ہوگیا، جو ذمہ داری بنتی تھی نافذ کردی، 2005 سے 2025 تک ایک لیبارٹری سے متعلق انکوائری تھی، اس کیس میں 49 افسران کے خلاف تحقیقات کی گئیں، اس انکوائری میں کچھ ریٹائرڈ لوگ بھی شامل تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیڈر افسران کے خلاف اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نےانکوائری کی تھی،ادارے کے افسران کے خلاف انکوائری وزارت کی جانب سے کی گئی تھی، اس انکوائری میں مجھے بھی شامل کیا گیا تھا، میں اس وقت وزارت میں بھی نہیں تھا، معاملہ اب تقریباً انکوائریوں کے بعد سیٹل ہو چکا ہے۔
مزید بتایا کہ ایسے نہیں ہو سکتا ان افسران کو نکال دیا گیا جن کا وہ کام نہیں تھا،انکوائریوں کا معاملہ تفصیلی ہے اس پر ایک سب کمیٹی بنائی جائے، سب کمیٹی سارے معاملہ کو دیکھ کر تفصیلی رپورٹ کمیٹی میں دے۔
قائمہ کمیٹی نے افسران کے خلاف انکوائریز کے معاملہ پر سب کمیٹی تشکیل دے دی۔
بعد ازاں اجلاس میں امپورٹ اور ایکسپورٹ ایسو سی ایشن اور دیگر خوراک سے متعلق تنظیموں کے عہدیداران نے وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی میں گزشتہ دو سالوں میں کئی بار تو سیکریٹری تبدیل ہوئے ہیں، جس پر سیکریٹری کو زراعت سے متعلق سمجھ آنے لگتی ہے اس کا تبادلہ کردیا جاتا ہے۔
کمیٹی میں ریپ کے نمائندہ نے نیشنل ایگری ٹریڈ اینڈ فوڈ سیفٹی اتھارٹی آرڈیننس پر کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزارت فوڈ سیکیورٹی میں ہمیں بلا کر آرڈیننس پر رائے دینے کے لیے بلایا اور جب ہم وزارت پہنچے تو وہاں جوائنٹ سیکریٹری بلال حیدر نے ہمارا مائک بند کردیا۔
وزارت فوڈ سیکیورٹی میں بلا کر ریپ کے ایکسپورٹرز کے ساتھ حقارت والا رویہ رکھا گیا ہے، سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ ریپ کو وزیراعظم کے احکامات کے مطابق آرڈیننس پر رائے کے لیے شامل کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم کے احکامات کے باوجود یہ سب ریپ کے ساتھ ہوا تو سینیٹرز کی کیا اوقات ہوگی، اس سارے معاملہ پر جوائنٹ سیکریٹری اور جس نے بھی وزارت میں مائک بند کرنے پر انکوائری ہونی چاہیے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی نے سیکریٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی کو جوائنٹ سیکریٹری بلال حیدر اور دیگر متعلقہ لوگوں کے خلاف تحقیقات کے لیے انکوائری کا حکم دے دیا۔
کمیٹی میں ڈیری ایسو سی ایشن کے نمائندے نے قائمہ کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سب سے مہنگا دودھ پروڈیوس کیا جاتا ہے، پاکستان میں دودھ کی سیفٹی سے متعلق کوئی ریگولیشن اور پالیسی نہیں ہے، پاکستان میں اس وقت ایک بڑی تعداد سٹنٹڈ بچوں کی ہے، اگر ایسی صورتحال رہی تو بچہ کند ذہن ہوں گے،آئندہ 30 سال بعد یہ قوم کند ذہن قوم ہوگی۔
کمیٹی میں کسان اتحاد کے نمائندہ نے اظہار خیال خیال کرتے ہوئے کہا کہ گندم امپورٹ کروانے میں اصل ذمہ داران کے خلاف تو انکوائری ہوئی ہی نہیں ہے، 35 لاکھ سے زائد ٹن گندم امپورٹ کروائی گئی تھی، 2200 ارب کا کسان کو نقصان ہوا ہے ،زراعت اس وقت زبو حالی کا شکار ہے، اگلے سال کی گندم کی کاشت کے لیے کسان تیار ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت زراعت میں گروتھ سے متعلق سفید جھوٹ بولتی ہے،منفی 13.49 زراعت کی گروتھ ملک میں ہے، فروٹ اور سبزیوں کی 40 فیصد ایکسپورٹ میں کمی آئی ہے، زراعت کے ہر شعبہ میں ہم ایکسپورٹ کی طرف جا رہے ہیں، ہمسایہ ملک بھارت زراعت میں ترقی اس وجہ سے کررہا ہے کیوں کہ وہاں کسان خوشحال ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کسان اپنے بجلی کا بل تک ٹھیک نہیں کروا سکتا ہے، پاکستان میں کاشتکار کے ہزاروں کنیکشن ختم ہوچکے ہیں، اگر یہی صورتحال رہی تو پاکستان اپنی زراعت کے پروڈکٹس بھی امپورٹ کرے گا،پاکستان میں امپورٹ اور ایکسپورٹ سے متعلق ایک آزاد اتھارٹی بنائی جانی چاہیے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بلاول بھٹو زرداری کا نام لیے بغیر ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک باعزت شخص کہہ رہا ہے کہ حکومت دنیا سے اپیل کیوں نہیں کرتی کہ اللہ کا واسطہ ہمیں پیسے دے دو، مگر ان کو کہنا چاہتی ہوں یہ مشورے اپنے پاس رکھیں اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے 10 ہزار روپے سے سیلاب متاثرین کا کچھ نہیں بنے گا۔
ڈیرہ غازی خان میں الیکٹرک بس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران مریم نواز کا کہنا تھا کہ پنجاب میں تاریخ کا بدترین سیلاب آیا، 4 ماہ سے مسلسل بارشیں ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی ہماری اتحادی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، انہوں نے پنجاب میں سیلاب کے معاملے پر سیاست کی، صدر آصف زرداری میرے بڑے اور بلاول میرے چھوٹے بھائی ہیں، سندھ میں کوئی آفت آتی ہے تو پنجاب ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، سندھ کا کیا حال ہے، ابھی اس پر بات نہیں کرنا چاہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں سیلاب آیا ہے تو بات ہورہی ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے امداد دی جائے، سیلاب متاثرین کے لیے بی آئی ایس پی کے 10ہزار روپے سے کچھ نہیں بنے گا، مریم نواز نے سیلاب متاثرین کو 10 ہزار روپے نہیں دینے بلکہ ان کو 10 لاکھ روپے دینا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ روز مفت مشورے آرہے ہیں کہ دنیا سے امداد کیوں نہیں مانگ رہے، کیوں دنیا کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا رہے، میں نواز شریف کی بیٹی ہوں، امداد کے لیے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گی، کوئی خود دار شخص کیسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلاسکتا ہے، ہم کب تک دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت ہی آسان حل نکالا ہے کہ بینظیم انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے لوگوں کو 5،5 یا 10،10 ہزار روپے دے دو، جس کا لاکھوں کا نقصان ہوگیا جن کے گھر گرگئے، جن کی فصلیں تباہ ہوگئیں ان کا اس 10 ہزار سے کیا ہوگا، میں سب کے گھر تعمیر کرنا چاہتی ہوں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے بلاول بھٹو زرداری کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں، پنجاب خود معاملات سنبھال لے گا، ہمیں جو این ایف سی سے اربوں، کھربوں روپے ملتے ہیں، وہ کس لیے ہیں اگر صوبوں نے وہ پیسے عوام پر خرچ نہیں کرنے تو وہ کیا صرف بینک میں رکھنے کے لیے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ بار بار جنوبی پنجاب کی بات کرکے لکیر کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے، جنوبی پنجاب کی لکیر کھینچنے والے ہم میں سے نہیں، ماضی میں جنوبی پنجاب کے علاقے صرف وعدوں پر گزارا کرتے تھے، مگر ہم جنوبی پنجاب میں عملی کام کررہے ہیں، پنجاب کے تمام شہروں کو یکساں ترقی کے موقع فراہم کیے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کے سیلاب زدگان کے ریلیف کے لیے ہرممکن اقدامات کیے، سیلاب متاثرین کو ٹینٹ، تیار کھانا، راشن فراہم کیا گیا، جنوبی پنجاب میں سیلاب کے دوران بھی وزرا نے بہت کام کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں حلفاً یہ بات کرتی ہوں کہ وزیراعظم شہباز شریف سے ایک روپیہ نہ لیا ہے اور نہ مانگا ہے، میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ کسی کو کسی کارڈ کے ذریعے پیسے بھیج دیے ہیں، اب کشتی پکڑو اور اپنا بندوبست خود کرکے آجاو۔
مریم نواز نے کہا کہ جہاں کارڈ کے ذریعے پیسے دینے ہوتے ہیں وہ بھی مریم نواز کررہی ہے لیکن یہ پیسہ ان کو نہیں جاتا جو کچھ نہیں کرتے اور گھر بیٹھے مہینے کے پیسے وصول کررہے ہوتے ہیں بلکہ ان کو جارہا ہے جو پورا مہینہ محنت مزدوری کرتے ہیں مگر بچوں پر خرچ کرنے کے لیے ان کے پاس پیسہ نہیں ہوتا، یہ راشن کارڈ ان کو دیا جارہا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کی مدد کو انا کا مسئلہ کیوں بنالیا گیا ہے، وفاقی حکومت کو عالمی مدد مانگنی چاہیے تھی۔
کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نے وزیراعظم شہباز شریف سے درخواست کی تھی کہ حالیہ سیلاب کے بعد ملک میں زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کی جائے اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ متاثر علاقوں میں کسانوں کے بجلی کے بل معاف کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت اور وزیراعظم کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے نہ صرف ایمرجنسی نافذ کی بلکہ صرف کسانوں کے نہیں بلکہ متاثرہ علاقوں میں رہائشی صارفین کے بجلی کے بل بھی معاف کرنے کا اعلان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے میں نے وزیراعلیٰ سندھ سے بھی بات کی تھی اور انہیں کہا تھا کہ وہ صوبے کے حوالے سے اپنا منصوبہ بنائے تاکہ ہم کسانوں کے نقصانات کو پورا کرسکیں، خاص طور پر چھوٹے کسان یا زمیندار ہیں، ان کی کس طرح سپورٹ کی جاسکتی ہے اور اس میں اگر وفاق بھی ہمارا ساتھ دے گا تو ہم مزید سپورٹ بھی دے سکیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سندھ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بینظیر ہاری کارڈ کے ذریعے جو چھوٹے زمیندار یا کسان ہیں جو ایک سے 25 ایکڑ تک زمین رکھتے ہیں، ان کو اس کارڈ یا پھر شناختی کارڈ کے ذریعے ان کو سپورٹ کریں گے، ہم اپنے کسانوں کو ڈی اے پی اور یوریا میں سپورٹ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کی مشکلات کا ادراک اور احساس ہے، کاشت کاروں کی مدد کریں گے تاکہ گندم برآمد نہ کرنا پڑے، اپنے وسائل اپنے کسانوں پر استعمال کیے جائیں، سندھ حکومت کاشتکاروں کو زرعی پیکج دے گی، کسانوں کو ڈی اے پی اور یوریا کی خریداری میں مدد دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں وقت پر مداخلت کریں تو مزید نقصانات کو روکا جاسکتا ہے بلکہ پاکستان اور عوام پر درآمدات کی صورت میں آنے والے بل کو بھی روک سکتے ہیں، پاکستانی عوام کا پیسہ باہر کے کسانوں پر خرچ کیا جاتا ہے، اس سے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل اپنے کسانوں پر خرچ کریں اور زرعی شعبے کو سپورٹ کریں تاکہ ہم گندم درآمد کرنے کے بجائے برآمد کرنے کی پوزیشن میں آجائیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کسانوں کو جو پیکچ دے رہی ہے، اگر اس میں وفاق ہمیں سپورٹ کرتا ہے تو ہم مزید چیزیں بھی کور کرلیں گے، مختلف چیزیں ہیں اگر وفاقی حکومت وہ کرلیتی ہے تو ہمارے زرعی شعبے کو فائدہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے وفاقی حکومت نے جو آئی ایم ایف کے ساتھ طے کیا ہے کہ ہم سپورٹ پرائس نہیں دے سکتے ہیں، وفاق کو عالمی ادارے سے بات کرکے اس پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی، تاکہ ہم اپنے کسانوں کو سپورٹ پرائس بھی دے سکیں اور انہیں کم قیمت پر کھاد بھی مہیا کرسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کے نقصانات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، خاص طور پر سندھ کے کچے کے علاقوں میں تو نقصان ہوا لیکن جس پیمانے پر پنجاب، خاص طور پر جنوبی پنجاب میں ہونے والا نقصان تاریخی ہے، جب کہ صوبائی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ہم متاثرین کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے جو خوش آئند ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیلاب متاثرہ علاقے خاص طور پر ملتان، بہاولپور، لودھراں، جلال پور میں آج بھی پانی موجود ہے اور یہ لوگ وہاں نہیں پہنچ سکتے ہیں، آج بھی وفاقی حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ان کی مدد کرسکتی ہے کیونکہ قدرتی آفات میں صوبائی حکومتیں بھی اپنی کوشش کرتی ہیں لیکن وفاق صف اول کا کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے نقصان صرف پنجاب میں نہیں ہوا، ہم خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کو بھی نہیں بھول سکتے، لہٰذا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام وہ واحد طریقہ ہے جس سے وفاقی حکومت متاثرین کو فوری طور پر مدد پہنچا سکے، پچھلے سیلاب میں بھی وفاق نے یہی کام کیا تھا، کورونا کے دوران بھی یہی کام کیا گیا، اگر آج یہ کام نہیں کرتے تو جنوبی پنجاب کا کیا قصور ہے جب وہ لوگ بے گھر ہیں اور سڑکوں پر رہ رہے ہیں تو ان کی مدد کیوں نہیں کی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ متاثرین کی مدد کو انا کا مسئلہ کیوں بنالیا گیا، اپنی انا کی وجہ سے یا پتا نہیں کیوں یہ فیصلہ کیا گیا ہے، وفاق کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا چاہیے اور سیلاب متاثرین کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مدد فراہم کریں۔
سابق وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ سیلاب کے بعد وفاقی کو عالمی مدد مانگنی چاہیے تھی، اگر آج آپ 100 روپے خرچ کررہے ہیں تو آپ کے پاس 200 روپے خرچ کرنے کے لیے ہوتے، اگر عالمی دنیا آپ کے ساتھ ہوتی تو آپ 100 کی مدد کررہے ہیں تو 200 متاثرین کی مدد کرپاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ عالمی دنیا اور اداروں سے بات کریں اور سیلاب کی وجہ سے آئی ایم ایف شرائط پر نظرثانی کریں، جس طرح وفاق نے ہر بار کسی بھی آفت میں عالمی دنیا کی طرف رجوع کیا ہے ویسے اس بار بھی ہونا چاہیے تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام تب متعارف کروایا جب ہم مسلم لیگ (ن) کے اتحادی تھے اور انتخابات کے دوران وہ اس پروگرام کی اونرشپ بار بار لیتے تھے، اسحٰق ڈار اس وقت وزیر خزانہ تھے اور اس وقت ان کے تمام نمائندے اس پروگرام کی تعریف کرتے رہتے تھے مگر اب کیوں اس پر یوٹرن لیا ہے تو یہ سوال انہی سے پوچھا جائے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ حاصل کرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد پنجاب کی ہے اور اس کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے، اس پروگرام سے غریب ترین عورتوں کو ایک سپورٹ ملتی ہے، اس سے نہ صرف انہیں مالی مدد ملتی ہے بلکہ ہم انہیں روزگار کے مواقع بھی فراہم کررہے ہیں۔
ایم-5 موٹروے کی مشرقی جانب سیلابی پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے، زرعی زمینوں کو ڈبوتے ہوئے اور ملتان کی تحصیل جلال پور پیروالا کی پوری کی پوری بستیوں کو مٹانے کی دھمکی دے رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دریائے ستلج پر نوراجہ بھٹہ کے بند میں شگاف پڑنے کے 15 دن بعد بھی ملتان، بہاولپور اور لودھراں کی یونین کونسلوں کے مکین پھنسے ہوئے ہیں، کئی لوگ بندوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں جبکہ ان کے گھر پانی میں ڈوب چکے ہیں۔
ہائی وے کو نقصان سے بچانے کے لیے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے کلورٹس اور پُلوں کو بھاری پتھروں سے بند کر دیا ہے، جس سے موٹروے عملاً ایک بند میں بدل گئی ہے۔
لیکن اس اقدام کے باعث سیلابی پانی کا اخراج رک گیا ہے اور مشرقی جانب پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، جس سے نوراجہ بھٹہ کے بند سے لے کر موٹروے تک ایک ڈیم جیسی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
نوراجہ بھٹہ، بہادرپور، بستی لنگ، کانو، ڈپال، طروت بشارت، ڈیلی راجن پور، بیلےوالا، دنیا پور، جھنگرا، مراد پور سوئی والا اور قریبی علاقے سب سے زیادہ متاثرہ دیہات میں شامل ہیں۔
اپنے خاندان کو احمد پور شرقیہ منتقل کرنے والے بستی لنگ کے رہائشی محمد بخش نے کہا کہ ہزاروں لوگ اپنی تحصیل جلال پور پیروالا میں سیلابی پانی کی وجہ سے بے گھر ہو رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے بیٹے بدھ کے روز واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے زیادہ تر گھر منہدم ہو چکے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارا تمام سامان، گندم، ریفریجریٹر، بستر، دروازے، واشنگ مشینیں، اے سی اور دیگر اشیا بہہ چکی ہیں۔
محمد بخش نے کہا کہ اب ویران گھروں میں چوری کی وارداتیں بھی عام ہو چکی ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر موٹروے میں کنٹرول شگاف ڈال دیا جائے تو پانی نکل سکتا ہے، جو فی الحال دریائے چناب تک جانے کا راستہ نہیں پا رہا۔
محمد بخش نے کہا کہ حکومت پانی کو راستہ نہیں دے رہی اور ایم-5 موٹروے کے نیچے تمام پل بند کر دیے ہیں، جس سے جلال پور کے مشرقی حصے کو ایک ڈیم میں بدل دیا گیا ہے۔
این ایچ اے نے اپنے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ شاہراہ کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
این ایچ اے کے جنرل منیجر کاشف نواز نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ ہم موٹروے کی حفاظت کے لیے اس کے اطراف میں پتھر ڈال رہے ہیں، پانی کے راستے بند نہیں کر رہے بلکہ ان مقامات کو مضبوط کر رہے ہیں جہاں پانی کے بہاؤ کی رفتار نقصان پہنچا سکتی ہے۔
کاشف نواز نے کہا کہ ان کے پاس پانی کی سطح ناپنے کا کوئی انتظام نہیں اور پانی کے بہاؤ کو قابو میں رکھنا آبپاشی کے محکمے کی ذمہ داری ہے۔
سندھ حکومت کے حکام کے مطابق دریائے سندھ میں درمیانے درجے کا سیلاب گزر رہا ہے، جس نے زرعی زمینوں کے وسیع رقبے اور درجنوں دیہات کو ڈبو دیا ہے۔
کوٹری بیراج پر بہاؤ تقریباً 4 لاکھ کیوسک ہے جس کے باعث سیہون، جامشورو اور کوٹری کے درمیان کے زیادہ تر نشیبی علاقے زیرِ آب ہیں۔
کوٹری، خانپور اور کارون کھو کی بستیاں فی الحال محفوظ ہیں۔ تاہم پیٹارو میں، یو سی منظورآباد اور مورو جبل ڈوب چکے ہیں۔
منجھند کے علاقے میں، علی آباد، کھانوت، انڈپور اور بدھا پور سمیت کئی دیہات متاثر ہیں۔ سیلابی پانی کے باعث اب تک 20 سے زائد دیہی آبادیاں زیرِ آب آچکی ہیں، اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات کی طرف نکلنے پر مجبور ہیں۔
سیہون اور بھان سید آباد سے کئی دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے گندم کی امدادی قیمت 4500 روپے فی من مقرر کرنے کی تجویز دے دی۔
سیکریٹری جنرل پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز سید نیر حسین بخاری نے وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ کے ڈیڑھ ارب ڈالر کی گندم درآمد کرنے کے بیان کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ گندم برآمد کرنے کیلئے خزانے پر ڈالرز کا بڑا بوجھ پڑے گا جو ناقابل برداشت ہوگا، غذائی قلت اور بحران سے بچنے کے لیے حکومت قابل عمل منصوبہ بندی اور حکمت عملی اپنائے۔
نیر بخاری نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وفاقی حکومت بجٹ اور وسائل کا رخ زراعت کی طرف موڑے، زراعت کی مضبوطی سے صنعتکار اور تاجر سے لے کر مزدور تک سب مستفید ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صدر مملکت آصف زرداری کی کاشتکار کسان پالیسی پر عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے، آصف علی زرداری نے گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کیا تو گندم کی بمپر پیداوار ہوئی تھی، اور کئی برس تک ملک گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہو گیا تھا۔
نیر بخاری کا کہنا تھا کہ سیلاب نے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے، حکومت شعبہ زراعت کی بحالی ترجیح اول بنائے اور وفاقی حکومت گندم کی فصل کاشت سے قبل امدادی قیمت کا اعلان کرے۔
انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، زرعی شعبے کی مضبوطی ملک ترقی اور قومی خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے۔
سیکریٹری جنرل پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز نے تجویز کیا کہ وفاقی حکومت پارلیمانی سیاسی جماعتوں، زمینداروں، کسانوں اور کاشتکاروں سے مشاورت کے ذریعے جامع زرعی پالیسی بنائے، پچھلے برس امدادی قیمت نہ ملنے پر کاشتکاروں کو شدید نقصان ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے برس بھی 6 فیصد کم رقبے پر گندم کاشت کی گئی تھی، اور سرکاری امدادی قیمت کی عدم وصولی پر کسان سراپا احتجاج بنے رہے تھے۔
نیر بخاری نے کہا کہ گندم کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کی خاطر حکومت اقدامات اٹھائے اور ڈیزل، پٹرول، کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر کاشتکاروں کو سبسڈی دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب میں لاکھوں ایکڑ زرعی رقبہ سیلاب میں بہہ گیا ہے، حکومت سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ کسانوں کو بچ جانے والی اراضی پر گندم کی کاشت کیلئے بیج کھاد مفت فراہم کرے ۔
نیر بخاری نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ لاکھوں شہریوں کے پاس موجود گندم بھی سیلاب کی نذر ہوگئی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے امریکی ناظم الامور نٹالی بیکر کی ملاقات ہوئی، جس میں سیلاب کی صورتحال، غذائی تحفظ، توانائی اور سیکیورٹی تعاون، کیٹی بندر پورٹ منصوبہ اور صوبے میں سرمایہ کاری کے مواقع سمیت وسیع امور پر بات چیت کی گئی۔
یہ ملاقات وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہوئی، جس میں امریکی قونصل جنرل چارلس گڈمین، پولیٹیکل آفیسر جیریڈ ہینسن، پرنسپل سیکریٹری آغا وسیم اور دیگر حکام بھی شریک ہوئے۔
ملاقات میں وزیر اعلیٰ نے کیٹی بندر منصوبہ شروع کرنے کے اپنے عزم کو دہرایا اور کہا کہ یہ تاریخ کا پہلا قدرتی بندرگاہی منصوبہ ہے اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا وژن ہے، انہوں نے کہا کہ کراچی پورٹ پر شدید دباؤ ہے اور ایک نئی بندرگاہ کی اشد ضرورت ہے۔
اس موقع پر شاہراہِ بھٹو کو براہ راست کراچی پورٹ سے جوڑنے کی تجویز پر بھی بات ہوئی، جس سے شہر کے اندر بھاری ٹریفک کا بوجھ کم ہو گا۔
امریکی ناظم الامور نے کہا کہ بڑی امریکی کمپنیوں کے سینیئر ایگزیکٹیوز جلد کراچی کا دورہ کریں گے اور مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع کا جائزہ لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’امریکی کمپنیاں سندھ میں سرمایہ کاری کے لیے پرجوش ہیں‘ جس پر وزیر اعلیٰ نے مکمل سرکاری تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
ملاقات میں توانائی اور صنعتی تعاون پر بھی بات ہوئی، خاص طور پر تھر میں کوئلے پر مبنی منصوبوں پر، جن میں کوئلے سے گیس، کھاد اور ڈیزل کی تیاری شامل ہے، وزیر اعلیٰ نے مقامی وسائل کے بہتر استعمال کی ضرورت پر زور دیا۔
سیلابی انتظامات پر بات کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ نے سپر فلڈ کے لیے بھرپور تیاری کی تھی حالانکہ اس سال کی صورتحال نسبتاً کم سنگین رہی۔
انہوں نے پنجاب میں وسیع نقصان پر افسوس کا اظہار کیا اور سندھ کے کچے علاقوں میں دھان کی فصل کے نقصانات کو اجاگر کیا، دونوں فریقین نے ایمرجنسی تیاری، شہری نکاسیٔ آب اور ابتدائی وارننگ سسٹمز کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔
ملاقات میں خوراک، پانی اور صفائی کے لیے اقوام متحدہ اور این جی اوز کے ذریعے 2.25 ملین ڈالر کی امداد کے علاوہ امریکی فوج کی طرف سے کشتیاں، خیمے، چارپائیاں اور پانی کھینچنے والے پمپ فراہم کرنے پر بھی بات ہوئی۔
غذائی تحفظ کے حوالے سے وزیر اعلیٰ نے پچھلے سال گندم کی کم کاشت کے باعث درپیش مسائل پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ درآمد شدہ گندم کی قیمت صوبے کو 3800 روپے فی 40 کلوگرام پڑ رہی ہے، انہوں نے کہا کہ’ ہمیں غذائی تحفظ یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔’
سیکیورٹی تعاون بھی ایجنڈے کا ایک اہم حصہ تھا، مراد علی شاہ نے 2012ء سے انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لا انفورسمنٹ (آئی این ایل ) پروگرام کے تحت پولیس کی تربیت، سامان، خواتین پولیس بیرکوں اور جیل اصلاحات میں امریکی معاونت کو سراہا۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ کی 22 جیلوں میں جدید مینجمنٹ سسٹم نصب کر دیا گیا ہے اور حیدرآباد میں جیل اسٹاف کے لیے تربیتی ادارہ قائم کیا گیا ہے، وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے امریکی جانب سے 20 ملین ڈالر مالیت کے حفاظتی سامان کی فراہمی کا بھی اعتراف کیا۔
اس موقع پر امریکی ناطم الامور نٹالی بیکر نے ڈی ایس پی منیشا روپیتا کو ایک بین الاقوامی کانفرنس میں سندھ پولیس کی نمائندگی کرنے پر سراہا اور صوبے کی انتہاپسندی کے خلاف اور کمیونٹی کی سلامتی کے لیے کوششوں کو سراہا۔
دونوں فریقین نے معذور افراد کے لیے اقدامات پر بھی بات کی، امریکی ناظم الامور نے کہا کہ امریکی کمپنیاں سماعت سے محروم بچوں کی تعلیم اور تربیت کے پروگراموں میں تعاون کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
وزیر اعلیٰ مراد شاہ نے بتایا کہ سندھ حکومت پہلے ہی معذور افراد کی تعلیم، تربیت اور بحالی کے پروگراموں پر کام کر رہی ہے اور کہا کہ’ امریکی اداروں کی معاونت ہمارے لیے بہت قیمتی ہو گی۔’
سندھ کے سینیئر وزیر اور وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا ہے کہ پنجاب میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کا دائرہ محدود کیا جاسکتا تھا مگر ناتجربہ کاری کی وجہ سے زیادہ تباہی ہوئی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری پوسٹ کے مطابق سینیئر صوبائی وزیر سندھ شرجیل میمن نے حکومت پنجاب کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر پنجاب میں سیلاب پر کوئی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بنے تو پتا چل جائے گا کہ پنجاب میں تباہی اس سے کم ہوسکتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے پنجاب میں سیلاب سے تباہی کا دائرہ وسیع ہوا، اگر اچھی منصوبہ بندی کی جاتی تو اتنی تباہی سے بچا جاسکتا تھا۔
شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ سندھ میں محکمہ آبپاشی نے اچھی منصوبہ بندی کی، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ خود ہر چیز کو مانیٹر کر رہے تھے، مانیٹرنگ سیلز بنائے گئے، ( ہر محکمے سے ) ایک ایک نمائندہ وہاں موجود ہے، اور آج بھی مانیٹرنگ سیلز قائم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ سو فیصد (تباہی سے) بچ گئے، میں بھی کوئی غلط بات نہیں کروں گا، پنجاب میں پانی زیادہ آیا تھا، تاہم اگر بہتر منصوبہ کی جاتی اور محکمہ آبپاشی کی رہنمائی کی جاتی تو تباہی کو محدود کیا جاسکتا تھا۔
پنجاب میں سیلابی تباہی کی سنگین صورتحال ایک نئے المیے میں بدل گئی ہے جہاں جلالپور پیروالہ کے قریب ملتان-سکھر موٹروے (ایم فائیو) کا ایک بڑا حصہ دریائے ستلج کے دباؤ کے باعث مکمل طور پر بہہ گیا، جس سے یہ اہم قومی شاہراہ منقطع ہوگئی اور خطہ مسلسل آٹھویں روز بھی محصور ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ شگاف تیز پانی کے دباؤ سے تیزی سے پھیل گیا اور اب دونوں ٹریکس کی تمام چھ لینوں کو نگل چکا ہے، جس کے باعث جنوبی اور وسطی پنجاب کے درمیان ٹریفک مکمل طور پر بند ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں سپلائی چین متاثر ہوئی، ہزاروں گاڑیاں پھنس گئیں اور مسافر خطرناک متبادل راستوں پر جانے پر مجبور ہیں۔
محکمہ آبپاشی کے ترجمان نے تصدیق کی کہ ’یہ ایم فائیو پر دوسرا بڑا شگاف ہے جس نے شاہراہ کو مفلوج کردیا ہے‘، ان کا کہنا تھا کہ ہنگامی ٹیمیں مسلسل رات دن بڑے پتھر ڈال کر زمین کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
دریائے ستلج نے گیلانی روڈ اور ایم فائیو موٹروے کے درمیان 20 سے 25 کلومیٹر طویل جھیل نما خطہ بنا دیا ہے جس نے موٹروے کو اپنی پوری لمبائی کے ساتھ ڈبو کر بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ اگر بروقت ایک مشکل فیصلہ کر لیا جاتا تو نقصان کے پیمانے کو کم کیا جا سکتا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ’بہتر ہوتا کہ موٹروے پر ایک کنٹرولڈ شگاف ڈال کر ستلج کے پانی کو دریائے چناب کی طرف گزارا جاتا، لیکن یہ فیصلہ وقت پر نہ کیا گیا‘۔
دریائے ستلج میں درمیانے درجے کے سیلاب کے باعث ملتان، لودھراں اور بہاولپور اضلاع سے ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
ادھر نورجا بھٹہ کے شگاف سے پانی کا رخ بدل کر گیلانی روڈ اور ایم فائیو موٹروے کے درمیان موجود دیہات کو مسلسل ڈبوتا جا رہا ہے۔
نیشنل ہائی ویز اور موٹرویز پولیس نے مسافروں کو متنبہ کیا ہے کہ مختلف مقامات پر ایم فائیو پر ٹریفک کو متبادل راستوں کی طرف موڑا جا رہا ہے، ملتان سے سکھر جانے والی گاڑیاں شاہ شمس انٹرچینج سے جی ٹی روڈ کی طرف منتقل کی جا رہی ہیں جبکہ وہ اچ شریف انٹرچینج پر دوبارہ موٹروے پر آ سکتی ہیں۔
اسی طرح سکھر سے ملتان جانے والی ٹریفک کو اچ شریف انٹرچینج سے جی ٹی روڈ کی طرف بھیجا جا رہا ہے جو شیر شاہ انٹرچینج پر واپس ایم فائیو پر شامل ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب لاہور کی کمشنر مریم خان نے کہا کہ لاہور ڈویژن کے 28 گاؤں سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے 6 دیہات میں 50 فیصد سے زیادہ نقصان ہوا ہے، ان کے مطابق لاہور میں 82 ہزار 952 افراد متاثر ہوئے جبکہ 21 ہزار 460 ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا۔
شیخوپورہ، ننکانہ اور قصور کے ڈپٹی کمشنرز نے بھی دیہات اور کھیتوں کو پہنچنے والے ابتدائی نقصانات کی تفصیلات پیش کیں۔
کمشنر نے اجلاس میں ہدایت کی کہ اگرچہ پانی اتر چکا ہے لیکن اضلاع کو سیلاب متاثرہ علاقوں میں انسدادِ ڈینگی سرگرمیوں پر توجہ دینی چاہیے، انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے اس سال لاہور میں کوئی نیا ڈینگی ہاٹ اسپاٹ سامنے نہیں آیا۔
فلوڈ فورکاسٹنگ ڈویژن (ایف ایف ڈی) کے مطابق دریائے سندھ میں گڈو اور سکھر سے پانی نیچے کی جانب بہنے کے باعث کوٹری بیراج پر درمیانے درجے کا سیلاب برقرار ہے۔
کوٹری بیراج پر پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، فلڈ فور کاسٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق اتوار کو دوپہر 12 بجے بیراج پر پانی کا اخراج 3 لاکھ 36 ہزار 197 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے، جبکہ گڈو اور سکھر بیراجوں پر پانی کی سطح کم ہونے سے صورتحال نچلے درجے کے سیلاب تک محدود ہو گئی ہے۔
دریں اثنا، کشمور میں وسیع رقبے پر فصلیں ڈوب گئیں، مکینوں نے ٹائر ٹیوب پر چارپائی رکھ کر بھی پانی سے گزرنے کی کوشش کی۔
گھوٹکی کے مختلف علاقوں میں سیلابی پانی نے مکانات اور فصلیں ڈبودیں، بارش اور سیلابی ریلوں سے زرخیز زمینیں بھی دلدل بن گئیں، نوشہروفیروز میں بکھری کے اطراف کچے کے متعدد دیہات میں پانی داخل ہوگیا۔
جامشورو میں کچے کے علاقے میں پانی بڑھ رہا ہے، سڑکیں بھی پانی میں ڈوبنے سے سفر مشکل ہوگیا۔
ادھر لاڑکانہ میں سیلابی ریلا لاڑکانہ، سیہون حفاظتی بند سے ٹکراگیا، سیلاب میں پھنسے لوگوں کی نقل مکانی جاری ہے، بکریوں کو بھی کشتیوں کے ذریعے منتقل کیا گیا۔
نوابشاھ کے علاقے میں درجنوں گاؤں زیرآب آگئے، سیکڑوں لوگ اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، کشتیوں کے ذریعے لوگوں کومحفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔
سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں دریائے سندھ میں اونچے درجے کی سیلابی صورتحال برقرار ہے، کچے کے اکثر دیہات پانی میں ڈوب چکے ہیں، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔
نوشہروفیروز میں دریائے سندھ کی بپھری لہروں سے کچے کے دیہات شدید متاثر ہوئے ہیں، دیہات کے اطراف کاشت کی گئی فصلیں بھی تباہ ہوگئیں، 2 ہزار سے زائد ایکڑ پر کاشت لیموں کی فصل میں کئی فٹ پانی جمع ہوگیا، کاشتکاروں نے سندھ حکومت سے امدادی پیکج دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
گھوٹکی میں بھی کئی دیہات کا زمینی رابطہ تاحال منقطع ہے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے شہر کی طرف آنے کے لیے واحد زریعہ کشتی ہے، سیلابی پانی نے ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو تباہ کردیا ہے۔
سیلابی پانی کی سطح کم ہونے لگی ہے، تاحال قادر پور راؤنتی اور آندل سندرانی کے کچے کے علاقوں میں سیلابی پانی موجود ہے۔
نواب شاہ میں دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہونے لگا ہے، کچے کے متعدد دیہات زیر آب آگئے ہیں، ریسکیو کے مطابق سیلاب میں پھنسے افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) پنجاب نے دریائے راوی ستلج اور چناب میں سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کردی، جس میں بتایا گیا ہے کہ مختلف حادثات میں 127 شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔
دریائے راوی ستلج اور چناب میں شدید سیلابی صورتحال کے باعث 4 ہزار 700 سے زائد موضع جات اور 47 لاکھ 55 ہزار لوگ متاثر ہوئے ہیں، شدید سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں 319 ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔
سیلاب سے متاثر ہونے والے اضلاع میں 407 میڈیکل کیمپس بھی قائم کیے گئے ہیں۔
ریلیف کمشنر پنجاب کے مطابق سیلاب میں پھنس جانے والے 26 لاکھ 22 ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے، متاثرہ اضلاع میں ریسکیو و ریلیف سرگرمیوں میں 20 لاکھ 90 ہزار جانوروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
دوسری جانب پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں رکنے میں نہیں آرہیں، جلال پور پیر والا کے قریب سیلاب سے موٹروے ایم فائیو کا ایک اور حصہ ٹوٹ گیا، ترجمان موٹروے پولیس کے مطابق ایم فائیو موٹروے جلال پاور والا کے مقام پر ٹریفک کے لیے بند ہے، گاڑیوں کو متبادل راستوں سے گزارا جارہا ہے۔
پنجاب میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کیمپوں میں بے بسی کی تصویر بن گئے ہیں، سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد لوگوں کی گھروں کو واپسی کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے، سیلاب سے 90 ہزار ایکڑ پر فصلیں اور باغات تباہ ہوئے، جس کے بعد سبزیاں اور پھل مہنگے ہوگئے ہیں۔
ڈرون کیمروں سے لی گئی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہر طرف سیلاب ہے، سیلابی پانی نے گھروں کو جزیروں میں بدل دیا ہے، متاثرین گھٹنوں گھٹنوں پانی سے گزرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
خانیوال کی تحصیل کبیروالا میں سیلاب نے تباہی مچادی، خانیوال تا فیصل آباد سیکشن ریلوے لائن بری طرح متاثر ہوئی ہے، جہاں گزشتہ 15 روز سے ٹرینوں کی آمدو رفت معطل ہے۔
سیلاب زدگان کو ریسکیو کرنے اور ریلیف دینے کے آپریشنز جاری ہیں۔
ہم جب ننگر ٹھٹہ سے نکلے تھے تو ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا، مسلسل بارشوں کی وجہ سے تاحدِ نگاہ مکلی کی پہاڑی، راستے، تعمیرات بھیگے سے دکھائی دے رہے تھے۔ مون سون کا برساتی سلسلہ 4 دن خوب برسنے کے بعد ختم ہو گیا تھا مگر دھوپ کم نکلنے کی وجہ سے نظر جہاں تک جاتی ہر منظر بھیگا نظر آتا جبکہ سمندر کے نزدیک ہونے اور پانی کی نظر نہ آنے والی بوندوں کی وجہ سے منظرنامے پر ہلکی نیلے رنگ کی ایک تہہ بچھی ہوئی نظر آرہی تھی۔
ہم نے ٹھٹہ شہر میں ایک ہوٹل پر ناشتہ کیا دو دو کپ شیریں چائے کے اُنڈیلے اور جب شہر سے شاہ بندر اور کیٹی بندر کے لیے نکلے تو راستوں کے کناروں پر پانی تھا۔ مگر راستے کے کناروں پر موجود کیکر کے درختوں پر بہار چھائی ہوئی تھی۔
موجودہ دنوں پر بات کرنے سے پہلے سندھ کے سمندر کنارے کے متعلق ابن بطوطہ کی کچھ باتیں میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں تاکہ موجودہ زمانے کی تصویر ہمیں صاف نظر آئے۔ ابن بطوطہ 1333ء یعنی آج سے 652 برس پہلے سیہون سے سندھو دریا کے راستے انڈس ڈیلٹا میں اپنے ایک دوست کے ساتھ آیا تھا۔ وہ اپنے سفرنامے میں تحریر کرتے ہیں کہ ’سندھو دریا دنیا کے بہت بڑے دریاؤں میں شمار کیا جاتا ہے جس طرح مصر کی زراعت کا دار و مدار نیل کی تغیانی پر ہے، اسی طرح یہاں کے باشندے بھی اس کی طغیانی پر جیتے ہیں‘۔
بالکل ایسی بات عبدالرحیم خان خاناں نے 1592ء میں کہی تھی جب وہ اکبر کے حکم کو مانتے ہوئے ٹھٹہ پر قبضہ کرنے آیا تھا۔ اس نے کہا کہ جنوبی سندھ میں پانی کی نہروں کا ایک جال بچھا ہوا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کسی زمانے میں بغداد نہروں کی بہتات کی وجہ سے مشہور تھا۔ یہاں بہت سارے گھاٹ ہیں اور سمندری کنارہ چھوٹی بڑی بندرگاہوں سے بھرا پڑا ہے۔ دھان، گنا، نیر یہاں بہت اُگایا جاتا ہے۔ جھیلیں بہت ہیں جن کی وجہ سے مچھلی اور پرندوں کی فراوانی ہے۔

ابن بطوطہ کے دنوں میں سندھو دریا کا مرکزی بہاؤ، برہمن آباد سے شمال اور مغرب میں دو حصوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ایک بہاؤ جنوب میں نصرپور کے مشرق سے، جنوب مغرب میں ٹنڈو محمد خان کے قریب سے گزرتا ہوا ٹھٹہ کے شمال میں دیبل اور لاڑی بندر کے شمال میں جاکر سمندر میں گرتا تھا۔
ابن بطوطہ لاڑی بندر کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’یہ خوبصورت شہر سمندر کے کنارے واقع ہے۔ قریب ہی سندھو دریا سمندر میں جا گرتا ہے۔ یہ شہر بڑی بندرگاہ ہے۔ یہاں یمن اور فارس کے جہاز اور تاجر زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے یہ شہر بہت مالدار ہے اور اس کا محاصل بھی زیادہ ہے۔ علاء الملک مجھ سے کہتے تھے کہ اس بندر کا محاصل 60 لاکھ دینار ہے۔ امیر الملک کو اس کا 20واں حصہ ملتا ہے باقی مرکزی حکومت میں جمع ہوتا ہے’۔
ہم جب کوٹری ڈاؤن اسٹریم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تب ہم انڈس ڈیلٹا کی بات کر رہے ہوتے ہیں اور کوٹری کے جنوب میں ہزاروں گاؤں اور لاکھوں انسان بستے ہیں جن کا ذریعہ معاش دریا کے بہاؤ پر ہے۔ جب دریا کے بہاؤ کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تب پانی کی جگہ تیز ریت بہتی ہے اور وہاں رہنے والے لوگ اپنے گاؤں خالی کرکے نقل مکانی کے درد کی گٹھڑیاں اپنے سینے پر رکھ کر بھٹکتے پھرتے ہیں۔
پانی کی روکنے کی داستان کی ابتدا 1830ء میں ہوئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں آب پاشی کا نظام بنایا کہ زراعت زیادہ ہو اور اُن کے کارخانوں کو خام مال مسلسل ملتا رہے۔ 1932ء میں انگریزوں نے ’سکھر بیراج‘ تعمیر کیا۔ یہ سمجھیں کہ دریا کی خوبصورت دیوانگی کو روکنے کی یہ پہلی کوشش تھی۔ پھر 1955 میں ’کوٹری بیراج‘ بنا، 1967ء میں ’منگلا‘ اور پھر 1976ء میں ’تربیلا ڈیم‘ بنا۔ ان تمام منصوبوں کے منفی اثرات انڈس ڈیلٹا پر پڑنے تھے اور پڑے بھی۔
ڈاؤن اسٹریم دریا کا وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں دریا کا سفر اختتام کو پہنچتا ہے۔ یہاں فطرت کی رنگارنگی کا اپنا ایک الگ حُسن ہے۔ جنوبی سندھ کی سمندر کنارے والی زمین کو دریا کی مٹی اور ریت نے بنایا ہے۔ جہاں کا منظر نامہ پورے ملک سے مختلف ہے کہ یہاں جھیلوں کی بہتات ہے (تھی) اور کیوں نہ ہو آخر دریائے سندھ کا ہزاروں کلومیٹرز کا سفر یہاں اس ساحلی پٹی پر آکر جو ختم ہوتا ہے۔
سمندر تک پہنچنے کے لیے جتنے راستے اور بہاؤ دریائے سندھ نے تبدیل کیے ہیں وہ کسی دوسرے دریا نے شاید ہی کیے ہوں۔ ’انسائیکلوپیڈیا سندھیانا‘ اس حوالے سے تحریر کرتی ہے کہ ’دریائے سندھ کے سفر کی آخری منزل سے آگے سمندر تک کافی تعداد میں کھاڑیاں یا کریکس (Creeks) جاتی ہیں۔ جنوب مشرق میں ’سیر‘ نامی کھاڑی ہے جو پانی میں پاک و ہند سرحد کا کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کھارک، کوچی واڑی، کاجھر، مل، کانہر، ادھیاڑی، سنہڑی، گھوڑو، کھوبر، قلندری، مٹنی، ترچھان، حجامڑو، چھان، دبو، پئٹانی، کھائی، وڈی کُھڈی، ننڈھی کُھڈی، پھٹی، کورنگی اور گزری کریکس ہیں‘۔

یہ کھاڑیاں وہ راستے ہیں جو دریا سمندر تک پہنچنے کے لیے جنوبی سندھ میں آ کر بناتا ہے۔دریاؤں کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جن میں ریت اور مٹی کم آتی ہے اور دوسرے وہ جو اپنے ساتھ بڑی مقدار میں ریت اور مٹی لاتے ہیں۔ ایسے دریاؤں میں ’دریائے نیل‘ اور ’دریائے سندھ‘ قابلِ ذکر ہیں۔ ان دونوں میں سے دریائے سندھ اپنے ساتھ سب سے زیادہ زرخیز ریت اور مٹی لانے والا دریا رہا ہے۔ اگر آپ اس تحریر میں شامل تصاویر کو دھیان سے دیکھیں گے تو آپ کو نظر آئے گا کہ پانی کتنا گاڑھا اور مٹیالا ہے۔ یہ پانی زرخیز ریٹ اور خوراک کی ذرات سے بھرا پڑا ہے۔
دریا اپنی ریت سے جو زمین بناتا ہے، ہم اسے ڈیلٹا کہتے ہیں۔ دریا زمین کیسے بناتا ہے؟ میں مختصراً آپ کو بتاتا ہوں۔
دریا کا پانی سمندر کو آگے آتا دیکھ کر چھوٹے پنکھے (بادکش) کی صورت میں پھیل جاتا ہے اور اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت پھیلاتا جاتا ہے جو دھیرے دھیرے سے زمین بنتی جاتی ہے اور جیسے جیسے زمین بنتی جاتی ہے سمندر پیچھے کی جانب ہٹتا چلا جاتا ہے مگر اس کی سطح وہی رہتی ہے۔ جب تیز ہواؤں کے دنوں میں سمندر کی مدافعت بڑھتی ہے تو دریا شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت سمندر کے اندر پھینکتا رہتا ہے۔ اسی طرح سمندر کے اندر ریت کے ٹیلے بنتے جاتے ہیں اور زمین بنتی جاتی ہے۔
اس حوالے سے ہم یہ بخوبی کہہ سکتے ہیں کہ ماضی میں جنوبی سندھ کا مشرق کی جانب والا حصہ (بدین) ایکٹیو ڈیلٹا تھا اور اب مغرب کی طرف (ٹھٹہ) والا حصہ ایکٹیو ڈیلٹا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، جب دریائے سندھ میں طغیانی آتی تھی تو اس طغیانی کے 100 دنوں میں یہ ریت کے 11کروڑ 90 لاکھ معکب گز سمندر کی طرف لے چلتا ہے۔ اگر اس ریت کا مقابلہ ہم نیل ندی سے کریں جو خود ایک زیادہ ریت لانے والا دریا ہے تو یہ پورے ایک برس میں 4 کروڑ معکب گز ہے اور ہم جانتے ہیں کہ دریائے سندھ میں ریت کی مقدار دریائے نیل سے تین گنا زیادہ ہے۔

جنرل ہیگ اپنی کتاب ’انڈس ڈیلٹا کنٹری‘ میں دریا سے بنی ہوئی نئی زمین کے متعلق تحریر کرتے ہیں، ’برٹش راج کے بعد سمندر کی طرف زمین کے بڑھ جانے کے متعلق جاننے کے لیے ہماری بڑی دلچسپی رہی۔ ہم نے اس پر سروے بھی کیے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دریائے سندھ جن مختلف ندیوں کی صورت میں سمندر کی طرف سفر کرتا سمندر سے جا ملتا ہے، وہاں نئی زمین بڑی تیزی سے بن رہی ہوتی ہے اور سمندر کو مسلسل پیچھے دھکیل رہی ہوتی ہے۔
’ہم نے پہلے 1877ء میں اس پر کام کیا تھا۔ جس سے ہمیں پتا لگا کہ گزشتہ 10 برسوں میں ان نہروں کے سمندر میں پانی ڈالنے سے ساڑھے تین مربع میل نئی زمین بنی ہے۔ اور زمین بڑھنے کی رفتار ہر بہاؤ میں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کہیں زمین زیادہ بنتی ہے اور کہیں کم‘۔
انڈس ڈیلٹا اپنی زرخیزی کے حوالے سے خوشحال بھی تھی اور مشہور بھی۔ دھان اُگانے کے لیے اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی تھی۔ دھان کے بیج زمینوں میں ڈال دیے جاتے اور دھان کی فصل کے جیسے جنگل اُگ آتے۔ اس کے متعلق جیمز میکمرڈو لکھتے ہیں، ’پانی کے ساتھ دھان بھی بڑھتی جاتی، کسی علاقے میں تو یہ تین سے چار فٹ تک بڑی ہو جاتی‘۔ اور دھان اتنی اراضی میں ہوتی کہ فصل کی کٹائی کے لیے کَچھ اور ملتان سے لوگ یہاں فصل کی کٹائی کے لیے آتے۔

19 ویں صدی کی ابتدا میں ڈیلٹا کے متعلق جیمس برنس لکھتے ہیں کہ ’یہاں کے مرکزی بہاؤ اور دیگر ندیوں میں سفر کرتے آپ کو پرندوں کی میٹھی آوازیں سننے کو ملیں گی۔ کناروں پر آپ کو گنے کے کھیت ملیں گے جنہیں پانی دینے کے لیے رہٹوں کا استعمال عام ہے۔ ان رہٹوں کو اونٹ اور بیل بھی کھینچتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ٹھنڈے دنوں میں پرندوں کی اتنی بہتات ہے کہ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ مچھلی کے شکار کی تو کیا بات ہے، ایسا لگتا ہے کہ مچھلی پیدا ہی یہاں ہوئی ہے۔ یہاں کیکر اور لئی کے بڑے درختوں کے جنگل ہیں جو یقیناً ایک ڈیلٹا کی خوبصورتی کے زیور ہیں‘۔
Empires of the Indus کی مصنفہ Alice Albinia ڈیلٹا کی تباہی کے متعلق تحریر کرتی ہیں کہ ’1958ء میں کوٹری بیراج مکمل ہونے کے بعد 3500 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی انڈس ڈیلٹا 250 کلومیٹر تک سُکڑ گئی۔ پانی صرف نام کو سمندر کو جاتا تھا۔ میٹھے پانی کی کمی کی وجہ سے تمر کے جنگل اجڑ گئے، چاول کی فصلیں دینے والی زمینیں سفید نمک میں بدل گئیں۔ کاشتکاروں کے پاس مچھلی کے شکار کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچا‘۔
ڈیلٹا کی اُجڑتی ہوئی دنیا کے متعلق محمد علی شاہ تحریر کرتے ہیں کہ ’گزشتہ کئی برسوں سے حکومت، آبپاشی کے ماہرین، ماحولیاتی ماہرین اور سول سوسائٹی کے درمیان یہ بات زیربحث ہے کہ انڈس ڈیلٹا کے لیے کوٹری ڈاؤن اسٹریم سے کتنے پانی کی ضرورت ہے۔ ماحولیات پر کام کرنے والی عالمی تنظیم ’آئی یو سی این‘ کی تحقیق کے مطابق، تمر کے جنگلات اور سمندر کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے 2 کروڑ 70 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہے۔
’ہم جو ماہی گیروں کے لیے کام کرتے ہیں تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ 35 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی کی ضرورت ہے جبکہ 1991ء کے معاہدے کے مطابق ڈاؤن اسٹریم میں ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی چھوڑا جانا تھا مگر اس پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ پاکستان آب پاشی نظام پر 3 کروڑ 50 لاکھ ایکڑ زراعت ہوتی ہے، اس کے لیے دریائی بہاؤ پر پانی جمع کرنے کے تین ڈیم بنائے گئے ہیں جن میں 20 ایم اے ایف تک پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔

’اس کے علاوہ 12 لنک کینال تعمیر کئے گئے ہیں، ایک تخمینہ کے مطابق دریائے سندھ کا سالانہ بہاؤ سراسری 150 ایم اے ایف ہے۔ اب اس تمام صورت حال کو دیکھیں تو سارا نزلہ آپ کو کوٹری ڈاؤن اسٹریم پر گرتا نظر آئے گا جس کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین برباد ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔
’دریا کا میٹھا پانی سمندر کے آگے بڑھتے ہوئے پانی کو روکتا ہے بلکہ اس کو پیچھے دھکیلتا ہے، تمر کے جنگلات کو اُگاتا ہے جو ایک دیوار کی طرح ساحل کے میدانی علاقوں کو تحفظ کا کام کرتے ہیں۔
’ہم جو Sub-Tropical Country میں رہتے ہیں تو سب ٹراپیکل کنٹریز کا درجہ حرارت بھاری ہوتا ہے، اب ہمارے ملک کے درجہ حرارت کو فقط دریائے سندھ کا تازہ پانی ہی برقرار رکھ سکتا ہے۔
’جب تازہ پانی ڈیلٹا میں داخل ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ریت بھی آتی ہے اور اس ریت میں غذائی اجزا ہوتے ہیں جنہیں ہم نیوٹرنٹس بھی کہتے ہیں۔ یہ نیوٹرنٹس مچھلی کو پروٹین اور خوراک مہیا کرتے ہیں اور فطرت اس طریقے سے ایک بریڈنگ شیٹ مہیا کرتی ہے۔ اس لیے سندھ کے سمندر کی مچھلیاں اس پر زندہ رہتی ہیں۔ اگر دریائے سندھ کا پانی وہاں نہیں جائے گا تو وہاں کا درجہ حرارت بڑھ جائے گا اور مچھلیاں زندہ نہیں رہ پائیں گی۔ وہ یا تو مر جائیں گی یا دوسری جگہ چلی جائیں گی۔

’اس لیے میٹھا تازہ پانی آپ کے سمندری درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھتا ہے اور ساتھ میں ایک ’کانٹینینٹل شیلف‘ بھی بناتا ہے۔ سندھ کے ساحل کا ’کانٹینینٹل شیلف‘ 110 کلومیٹر ہے۔ یہ کانٹینینٹل شیلف دریائے سندھ بناتا ہے۔ آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ بلوچستان کا ساحلی علاقہ تو سندھ کے کوسٹ سے بڑی اراضی میں پھیلا ہوا ہے مگر وہاں مچھلی سندھ کے ساحل سے کم کیوں ہے؟ وہ اس لیے ہے کیونکہ وہاں کا کانٹینینٹل شیلف فقط 30 سے 35 کلومیٹر تک ہے۔
’اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جتنا یہ شیلف وسیع ہوگا، اتنی زیادہ مچھلی وہاں ہوگی اور ساتھ میں اس سلٹ کی وجہ سے تمر کے جنگلات کی خوب افزائش ہوتی ہے اور مینگروز کے جنگلات مسلسل پھلنے پھولنے کے عمل میں مصروف رہتے ہیں۔ مگر اب یہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔
’دریائے سندھ کی سمت میں تبدیلی اور سمندر میں پانی نہ چھوڑنے کے سبب، اس وقت فقط 70 ہزار ہیکڑز پر تمر بچے باقی رہ گئے ہیں جو ایک زمانے میں لاکھوں ہیکٹرز پر پھیلے ہوئے تھے۔ یہی تمر کے جنگلات مچھلی اور جھینگوں کی جو کمرشل species ہیں ان کی نرسریز ہوتی ہیں۔ اگر ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہیں چھوڑا جاتا تو مچھلی کی صنعت برباد ہو جائے گی اور انڈس ڈیلٹا فقط سمندر کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں آب گاہیں، قدرتی جنگل اور زراعت بھی آجاتا ہے۔

’1980ء تک ریونیو ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 12 لاکھ زرعی زمین سمندر کے نذر ہوگئی تھیں اور اب تک ڈیلٹا کی 35 لاکھ زرعی زمین یا تو سمندر نگل گیا ہے یا سمندر کے کھارے پانی کی وجہ سے زمینوں نے اپنی زرخیزی گنوادی ہے۔ یہاں تک کہ گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اُگتا۔ لاکھوں لوگوں کو انتہائی مجبوری کی حالت میں نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔ جھیلوں کا کلچر برباد ہوا ہے وہ الگ جبکہ جنگلی حیات کی سیکڑوں نسلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ یہ ایک سانحے سے کم نہیں ہے‘۔
ہم جب کیٹی بندر سے واپسی پر جھالو کی بستی پہنچے تو وہاں کے سماجی کارکن گلاب شاہ سے میں نے سوال کیا کہ موجودہ وقت جو مون سون کا پانی دریائے سندھ کے راستے سمندر میں داخل ہو رہا ہے، اس سے ڈیلٹا کو کچھ فائدہ ہوگا یا نہیں؟ جواب میں اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگا کر کہا، ’جس طرح ہم کہتے ہیں کہ ’وٹھا بھلا‘ (بارشیں کتنی بھی برسیں وہ نعمت ہیں) تو ہم یہاں کے بسنے والوں کے لیے تو وہ دن عید کے ہوتے ہیں جب دریا میں پانی آتا ہے تب سب کچھ تبدیل ہونے لگتا ہے۔ وہ میدان، جنگل اور چھوٹی بڑی جھیلیں سوکھی ہوتی ہیں، وہ بھر جاتی ہیں اور گھاس اور درختوں میں جان پڑ جاتی ہے۔ سمندر کے کنارے سے کئی کلومیٹر اندر تک سمندر کے پانی کو یہ میٹھا پانی دھکیل دے دیتا ہے۔
’ آپ اگر بگھان (کیٹی بندر اور کھارو چھان سے پہلے ایک چھوٹا سا شہر) سے کھارو چھان جائیں تو سمندر میں آپ کو نمک سے بھرا پانی نہیں ملے گا بلکہ سندھو دریا کا میٹھا پانی ملے گا جسے ہم تو پیاس لگنے پر پیتے ہیں اور یہ میٹھا پانی آپ کو سمندری کنارے سے کئی میل آگے تک ملے گا۔ جہاں جہاں تک یہ میٹھا پانی جائے گا وہاں جھینگے اور دوسری مچھلیوں کی پیداوار میں بے تحاشا اضافہ ہوگا۔ مطلب کے تین ماہ کے بعد سمندر سے مچھلی پکڑنے کا تناسب گزشتہ برس اگر 30 فیصد تھا تو وہاں اب 90 فیصد ہوگا جس سے مقامی لوگوں پر معاشی حوالے سے اچھے دن آنے والا ہیں’۔

پانی اور ماحولیات کے حوالے سے جب ٹھٹہ کے محترم انجینئر اوبھایو خشک سے میں نے دریافت کیا تو انہوں نے انتہائی تفصیل سے جواب دیا، ’موجودہ دنوں دریائے سندھ سے تین لاکھ کیوسک جو اندازاً 60 لاکھ ایکڑ فٹ بنتا ہے، وہ مختلف راستوں (کریکس) سے سمندر میں داخل ہو رہا ہے۔ ٹھٹہ کی دولہہ دریا خان پُل سے آتھرکی تک پہنچ کر یہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ ایک روہڑو، کھارو چھان سے ہوتا ہوا شاہ بندر پہنچتا ہے جبکہ دوسرا بہاؤ کیٹی بندر سے ہو کر کھوبر کریک پہنچتا ہے وہاں سے تُرچھان اور پھر حجامڑو کریک تک چلا جاتا ہے۔ یہ تقریباً 80 کلومیٹر سے زیادہ علاقہ ہے جس سے میٹھا پانی سمندری پانی کی جگہ لے لیتا ہے۔
’اس سے ماحولیاتی اور خوراک کے حوالے سے فائدہ ہی فائدہ ہے کیونکہ ان دنوں جب میٹھا پانی اور زرخیز ریت تمر کے جڑوں تک پہنچتی ہے تو اس کے پھلنے پھولنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے اور ساتھ میں اس کے بیج اس پانی کے بہاؤ میں دور دور تک جاتے ہیں۔ چونکہ تمر کاربن ڈائی آکسائیڈ بہت زیادہ جذب کرنے والی جھاڑ ہے، اس کا بڑھنا ماحولیات کے لیے سب سے مثبت ہے۔
’اور ساتھ میں ان کے جنگلات کی جڑوں میں جھینگے اور مچھلیاں انڈے دیتی ہیں تو وہاں ریت اور غذائی اجزا سے بھری ریت موجود ہوتی ہے جس سے ان کی پیداوار بڑھے گی۔ ساتھ میں جہاں جہاں سے سندھو دریا آرہا ہے وہاں کے قرب و جوار میں میٹھے پانی کی سطح بڑھائے گا۔ مطلب یہ کہ ان دنوں ڈیلٹا کے لوگ بے تحاشا خوش ہیں‘۔

ہر خطے کی اپنے معروضی حالات اور احساسات ہوتی ہیں۔ پھر لوگ اُن اثاثوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے معاشی راستے تلاش کرتے ہیں کیونکہ دو نوالوں کے سوا ایمان اور احترام کا درخت کبھی نہیں اُگتا پھر ان کے روزگار کے وسائل، وہاں موجود منظرناموں اور موسموں کی کوکھ سے وہاں کا کلچر جنم لیتا ہے۔ زبان کو بیان کی طاقت ملتی ہے اور لہجے اور رویے جنم لیتے ہیں۔
وہ لوگ جو ان حالات میں جنم لیتے ہیں، وہیں پر جوان ہوتے ہیں، وہیں پر ان کے اپنوں کے جنازے اُٹھتے ہیں، ان ہی آنگنوں پر خوشیوں کے ڈھول بجتے ہیں، مطلب ہزاروں برسوں کی فطرت، معروضی حالات اور انسان کے میل میلاپ اور ایک دوسرے کو قبول کرکے ایک کلچر پنپ کر جوان ہوتا ہے۔
ہم کسی مچھلی کے شکار کرنے والے کو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ سمندر یا جھیل کے کنارے گَنا کیوں کاشت نہیں کرتے؟ یا یہ کہ آپ کے پاس مچھلی کے شکار کے بعد جو وقت ملتا ہے، اس میں ان کناروں پر ضرور گندم کاشت کردیا کریں تو شاید یہ کسی بھی کیفیت میں ممکن نہیں ہوگا۔ تو ایک کلچر ہے جس کو ہم موہانہ کلچر کا نام دیتے ہے۔ ڈیلٹا کے اچھے دن اور ڈیلٹا کے بُرے دن ایک کلچر کو زندہ رکھنے یا برباد کرنے کا کام کرتے ہیں۔
—تصاویر بشکریہ: اطہر مصطفیٰ سومرو
ہیڈر: ماہی گیر سبحان علی اپنے چھوٹے جال سے حسین آباد میں دریائے سندھ پر کوٹری-حیدرآباد ریلوے پل کے قریب پلا مچھلی پکڑنے کے لیے اپنی قسمت آزما رہے ہیں—تصویر: عمیر راجپوت
دریائے سندھ پر سکھر بیراج میں تاحال اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ گڈو بیراج میں پانی کی سطح کم ہو کر درمیانے درجے پر آگئی ہے، دریائے چناب میں پانی کی سطح کم ہورہی ہے، تاہم دریائے ستلج میں ایک بڑا سیلابی ریلہ جلالپور کی طرف بڑھ رہا ہے جو لودھراں اور بہاولپور کے قریبی دیہات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
فلڈ فورکاسٹنگ ڈیپارٹمنٹ (ایف ایف ڈی) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دریائے سندھ پر سکھر بیراج میں تاحال اونچے درجے کا سیلاب جاری ہے جبکہ گڈو بیراج میں پانی کی سطح کم ہو کر درمیانے درجے پر آگئی ہے۔
سکھر بیراج پر اخراج تقریباً 5 لاکھ 10 ہزار کیوسک اور گڈو بیراج پر 4 لاکھ 75 ہزار کیوسک سے زائد ریکارڈ کیا گیا، دونوں جگہوں پر پانی کی روانی مستحکم ہے، کوٹری بیراج میں اس وقت کم درجے کا سیلاب ہے جہاں سے تقریباً 2 لاکھ 90 ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے۔
پنجاب میں دریائے ستلج کے مقام گنڈا سنگھ والا پر درمیانے درجے کا سب سے زیادہ سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ملتان کی ضلع انتظامیہ کے ترجمان وسیم یوسف نے کہا کہ دریائے چناب میں پانی کی سطح کم ہورہی ہے، تاہم دریائے ستلج میں ایک بڑا سیلابی ریلہ جلالپور کی طرف بڑھ رہا ہے جو لودھراں اور بہاولپور کے قریبی دیہات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
پنجاب پی ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق صوبے کے تقریباً تمام بڑے دریاؤں بشمول جہلم، ستلج، راوی اور چناب میں پانی کی سطح میں کمی آرہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجند پر اب بھی کم درجے کا سیلاب ہے جہاں پانی کی سطح ایک لاکھ 48 ہزار 450 کیوسک ہے، جبکہ گنڈا سنگھ والا پر درمیانے درجے کے سیلاب کے ساتھ پانی کی سطح 95 ہزار کیوسک ہے۔
سیلاب نے ملتان-سکھر موٹروے (ایم-5) کو پانچ مقامات پر نقصان پہنچایا ہے اور ملتان، لودھراں اور بہاولپور کے دیہات جیسے پھگل ماری، حیات پور، جھانپ، سویوالا اور مرادپور میں پھیل گیا ہے۔
سیلاب اوچ شریف تک بھی پہنچ گیا ہے اور جھنگڑا، بستی میر چاکر رند سمیت قریبی بستیوں کو ڈبو دیا ہے، ملتان-اوچ شریف موٹروے سیکشن کو شدید نقصان کے باعث کئی مقامات پر بند کردیا گیا ہے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور پولیس نے ٹریفک کے لیے متبادل راستے مقرر کیے ہیں، این ایچ اے کے مطابق ایک سڑک کا عارضی بحالی کام مکمل کرلیا گیا ہے جبکہ انجینئرز اور ماہرین مستقل مرمت پر کام کر رہے ہیں۔
اتھارٹی نے کہا کہ اس سیکشن کو مکمل طور پر کھولنا پانی کی سطح میں کمی اور مرمت کی تکمیل سے مشروط ہے۔
موٹروے کے کئی حصے اس وقت متاثر ہیں کیونکہ دریائے چناب اور ستلج سے آنے والے دباؤ کے باعث حفاظتی بند ٹوٹ گئے تھے، جس کے بعد ٹریفک کو متبادل شاہراہوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔
پنجاب کے ریلیف کمشنر نبیل جاوید نے کہا ہے کہ حالیہ سیلاب سے صوبے کے 4 ہزار 700 سے زائد دیہات میں 47 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متاثرہ اضلاع میں 329 ریلیف کیمپس اور 425 میڈیکل کیمپس قائم کیے گئے ہیں، جبکہ مویشیوں کے علاج کے لیے 367 ویٹرنری کیمپس بھی قائم کیے گئے ہیں۔
اب تک 26 لاکھ سے زیادہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاچکا ہے جبکہ تقریباً 21 لاکھ مویشیوں کو بھی محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا ہے۔
نبیل جاوید نے مزید بتایا کہ ایک اور ہلاکت کے بعد صوبے میں حالیہ سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ کر 119 ہوگئی ہے۔
محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) نے بتایا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران منگلا ڈیم میں پانی کی سطح 0.4 فٹ اور سملی ڈیم میں 0.1 فٹ بڑھی ہے، تاہم خانپور اور راول ڈیم میں پانی کی سطح 0.8 فٹ کم ہوئی ہے۔
پنجاب حکومت کے مطابق صوبے میں دریاؤں کے کنارے رہنے والے 4 لاکھ 33 ہزار 490 افراد کو کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
ادھر پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کے سربراہ سلمان شاہ نے کہا ہے کہ جیکب آباد کی نہر میں شگاف پڑنے پر بروقت اقدامات سے بڑا نقصان ٹل گیا،دو شگاف مقامی افراد اور انتظامیہ جبکہ تیسرا سرکاری مشینری سے پر کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کے ڈی واٹرنگ پمپ اور میونسپل کمیٹی کی مشینری سے پانی کی نکاسی جاری ہے، متاثرہ خاندانوں کے لیے اسکولز میں سہولتیں مہیا کی گئی ہیں تاہم متاثرہ افراد نے اپنے رشتیداروں کے ہاں منتقلی کو ترجیح دی۔