منفی اثرات
معیشت کو دستاویزی شکل دینے اور ٹیکس پر مشتمل اخراجات کے ضمن میں، نواز شریف حکومت نے پہلے بجٹ میں جن اقدامات کو بڑے فخر سے متعارف کرایا تھا، اُن میں سے بیشتر ٹیکس اقدامات پہلے ہی واپس لیے جاچکے۔ اب دس لاکھ روپے سے کم سالانہ آمدنی حاصل کرنے والوں کو ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ری کنسائیلشن اسٹیٹمنٹ سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔
بجٹ میں بیان کردہ ان اقدامات سے حکومت کی پسپائی کے مالی مضمرات اب تک غیر واضح ہیں لیکن نادہندگان کو ٹیکس دائرے میں لانے کی کوششوں پر اس کے منفی اثرات یقیناً مرتب ہوں گے۔
محسوس ہوتا ہے کہ بجٹ میں بیان کردہ یہ ٹیکس اقدامات پنجاب کے اُس کاروباری اور تاجر طبقے کے دباؤ پر واپس لیے گئے جو حکمراں پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کا بنیادی اوراہم انتخابی حلقہ ہیں۔
حکام یہ یقین دلانے کی طرف لے جارہے ہیں کہ ٹیکس اصلاحات کے اقدامات واپس لیے جانے سے تاجربرادری کو حوصلہ ملے گا کہ وہ وصولی پر متعین عملے کے کسی خوف کا شکار ہوئے بنا اپنے ریٹرنز جمع کراسکیں۔ ایسا ہوگا؟ شاید ہی کسی کو اس پر یقین آئے۔
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے سنیچر کو لاہور میں تاجر برادری سے خطاب کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لیے حکومت کوئی 'سخت اقدامات' نہیں کرے گی، اس کے بجائے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایسی پالیسیاں لائی گی جس کے تحت لوگ 'رضاکارانہ' طور پر اپنے ٹیکس ادا کریں۔
یہ بیان نہایت تعجب خیز ہے کہ ٹیکس دہندہ کی آمدنی اور اثاثوں کو غیر ضروری قرار دینے کے بعد، کس طرح ٹیکس ریٹرنز فارم یا ویلتھ اسٹیٹمنٹ پُر کیے جاسکیں گے۔
ایک ایسے ملک میں کہ جہاں مجموعی آبادی کا صفر اعشاریہ چھ فیصد سے بھی کم شہری ٹیکس ادا کرتے ہوں، کیا یہ 'سخت ترین اقدامات' کے زمرے میں شمار ہوسکتے ہیں۔
ٹیکس اصلاحات کے ضمن میں اٹھائے گئے اقدامات واپس لینے سے صرف معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں تاخیر ہوگی بلکہ اس سے آمدنی میں اضافے کی خاطر، براہ راست ٹیکس ادا کرنے والوں کا دائرہ بڑھانے کی کوششوں پر بھی زد پڑے گی۔
وزیرِ خزانہ کے مالیاتی پالیسی پر مبنی اس بیان پر، اسٹیٹ بینک کو چاہیے کہ وہ ان ڈائریکٹ یا بالواسطہ ٹیکسز کے طوفان اور ٹیکس دائرے سے باہر رہنے والی آمدنی پر حکومت کو خبردار کردے۔
درحقیقت استیٹ بینک کو طویل المدت مالیاتی استحکام کے تناظر میں، حکومت کو (غیر مقبول) ٹیکس اصلاحات کے نفاذ کا مشورہ دینا چاہیے۔ بہت جلد حکومت کی مالیاتی منیجمنٹ ٹیم کو بینک کے مشورے پر کان دھرنا ہی ہوں گے۔ یہی معیشت اور عوام، دونوں کے حق میں بہتر ہوگا۔