دو لاپتہ افراد کی موت، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2013
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ پینتس لاپتہ افراد میں سے دو کی موت واقع ہوچکی ہے۔—فائل فوٹو۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ پینتس لاپتہ افراد میں سے دو کی موت واقع ہوچکی ہے۔—فائل فوٹو۔

اسلام آباد: پاکستان کی سپریم کورٹ میں گزشتہ روز لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر قائم مقام سیکٹریٹری دفاع میجر جنرل راجہ عرف ناظر نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ لاپتہ ہونے والے 35 افراد میں سے دو کی موت واقع ہوچکی ہے۔

سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ باقی لاپتہ افراد کو عدالت میں حاضر کیا جائے۔

لاپتہ افراد کیس میں یہ پہلا موقع تھا کہ حکومت نے اس بات کو تسلیم کیا کہ سالوں سے لاپتہ افراد صرف مسلح فورسز کی حراست میں ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں چند افراد کی نامعلوم وجوہات کی بنا پر موت واقع ہوچکی ہے۔ حکومت کے اس بیان نے لاپتہ افراد کیس میں مزید مشکلات کو جنم دے دیا ہے۔

حکومت کے اس بیان پر عدالت نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ایک "حراستی قتل" ہے جس کی ذمہ دار متعلقہ ایجنسیاں ہیں۔

لاپتہ افراد کیس کی سماعت گزشتہ روز پیر کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین روکنی بینچ نے کی۔

عدالت میں جب مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو سیکٹریٹری دفاع میجر جنرل راجہ ناظر نے بتایا کہ لاپتہ ہونے والے سردار علی کی گزشتہ سال 29 دسمبر اور نادر خان کی رواں سال یکم جولائی کو مالاکنڈ ڈویژن کے علاقے لکی مروت میں واقع ایک حراستی مرکز میں موت واقع ہوگئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ دونوں افراد کی موت طبعی تھی اور لاشوں کو ان کے ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا۔ سیکٹریٹری دفاع کا مزید کہنا تھا کہ باقی 33 افراد کی تلاش جاری ہے۔

لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد میں سے ہلاک ہونے جانے والے دونوں افراد اس بات کا ثبوت تھے کہ باقی افراد بھی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی حراست میں ہیں۔

عدالت نے سماعت کے دوران وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کو حکم دیا کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کروائیں کہ باقی 33 افراد کو کسی بھی معذرت کے بغیر منگل کے روز عدالت میں پیش کیا جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو دوسری صورت میں عدالت قانونی کارروائی کرے گی۔

واضح رہے کہ اس کیس کی سماعت مردان کے علاقے کاٹلنگ سے لاپتہ ہونے والے ایک شخص یاسین خان کے بڑے بھائی محبت شاہ کی درخواست پر کی گئی۔

گزشتہ سماعت کے موقع پر ملاکنڈ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے عدالت میں خط پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کسی حکم کے بغیر فوجی انتظامیہ نے یاسین شاہ سمیت 66 افراد کو رواں سال ستمبر میں ان کے حوالے کیا تھا جو قیدی نہیں تھے، لیکن بعد میں ان میں سے 31 افراد کو قیدی قرار دے دیا گیا اور باقی 35 جن میں خود یاسین شاہ بھی شامل ہیں، کو مالاکنڈ کے حراستی مرکز سے باہر منتقل کردیا گیا۔

دورانِ سماعت قائم مقام سیکٹریٹری دفاع نے کہا کہ یہ 35 افراد فوجی حراست میں تھا اور ساتھ ہی بھی کہا کہ یہ افراد خیبر پختونخوا کی جانب سے چلائے جانے والی 48 حراستی مراکز میں تھے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں یاسین شاہ شامل نہیں ہیں۔ اس موقع پر عدالت نے دو افراد کی موت کے ذمہ داروں کو فوری گرفتار کرنے اور ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ جدوجہد جاری رہے گی۔

عدالت نے اپنے ریماکس میں مزید کہا کہ عدالت میں پیش کیے گئے تحریری بیان سے ایسا نہیں لگتا ہے کہ دونوں افراد کی موت طبعی تھی۔ عدالت کا مزید کہنا تھا کہ یہ ملک کے لوگوں کا کام ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کریں کیونکہ یہ ریاست اور اس کے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کا بنیادی حق ہے۔

عدالت نے ریماکس دیے کہ آئین کا آرٹیکل چار حکومت اور اس کے کسی بھی ادارے کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ "سبز کتاب" کی خلاف ورزی کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں