امریکی پابندیوں کے بعد ایران کا مذاکرات سے انکار
تہران: ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ گزشتہ مہینے ہوئے عبوری معاہدے کے بعد ہونے والے مذاکرات میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے مزید ایرانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنا چوبیس نومبر کے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
تاہم امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور یورپی یونین میں خارجہ امور کی ترجمان کیتھرین اسٹین جو اہم جوہری معاہدے میں بھی شریک بھی تھے، دونوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ مذاکرات کا عمل جلد شروع ہوجائے گا۔
ایران کے سینیئر سفارتکار عباس عراقچی نے ایرانی میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکا کی جانب سے مزید پابندیوں کو دوہرا معیار قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات اس بات چیت کا حصہ نہیں تھی جو جنیوا میں ہوئی اور ایسا قدم جنیوا میں ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
ایران کی جانب سے یہ درِ عمل اس وقت سامنے آیا جب کل بروز جمعے کو امریکا نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک درجن سے زیادہ کمپنیوں اور افراد پر پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ کاروبار کرنے کے حوالے سے پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ رہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمہ اور اس کے بدلے میں امریکا کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں میں نرمی کے لیے گزشتہ مہینے ایران اور دنیا کی چھ بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان ایک عبوری معاہدی طے پایا تھا۔
◄ایران، عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدہ
جنیوا میں ہوئے اس اہم عبوری معاہدے میں امریکا کے علاوہ برطانیہ، روس، فرانس، جرمنی اور چین بھی شامل تھا کے بعد یہ خیال ظہار کیا جارہا تھا کہ اس معاہدے سے مشرقی وسطٰی میں جنگ کے خطرات کو کم کرنے اور وسیع تر مفاہمتی عمل کی ایک نئی راہ ہموار ہوئی ہے۔
ادھر روس نے بھی امریکہ کے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔
اس سے پہلے 24 نومبر کو اس معاہدے کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی جو رواں سال جون میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے میں کامیاب ہوئے تھے، اس معاہدے سے مغرب کے ساتھ کشیدگی کو ختم کرنے کی ایک امید ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی سرزمین سے یورینیم کی افزودگی اس کا حق ہے جس کو اس معاہدے میں عالمی طاقتوں نے قبول کیا گیا ہے۔
لیکن، امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس بات پر قائم تھے کہ ایسا کچھ نہیں کہا گیا کہ یورینیم کی افزودگی ایران کا حق ہے۔
واضح رہے کہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کی مبینہ تیاری پر سب سے زیادہ شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور اس معاہدے میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرے گا۔