وزیرِاعلیٰ کا دورہ

18 دسمبر 2013
وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف اور ہندوسانی وزیر اعظم منموہن سنگھ ملاقات کے دوران۔ فوٹو آئی این پی۔
وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف اور ہندوسانی وزیر اعظم منموہن سنگھ ملاقات کے دوران۔ فوٹو آئی این پی۔

جن تصورات کو تلاش کیا گیا، اس کے لیے جذبات درست تھے۔ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری، اساتذہ اور طلبا کی سرحد پار باآسانی نقل وحرکت اور وہ سب کچھ جو ہندوستان اور پاکستان کے حالتِ نزع کا شکار تعلقات کو آگے لے جاسکیں، ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔

بلاشبہ، پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کی موجودہ حکومت کے مرکز میں برسرِ اقتدار آنے سے پہلے بھی، پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف ہندوستانی پنجاب کا دورہ کرچکے تھے۔ چوہدری پرویز الہٰی نے بھی اپنے دور میں، باڑ کی دوسری جانب جا کر، دونوں کے درمیان متعدد مماثلت تلاش کی تھیں۔

اس بات کا احساس ہے کہ زبان و ثقافت کی قدرِ مشترک کے حامل پنجاب کی شورش زدہ تاریخ میں، جس نسل نے تقسیم کا جبر سہا تھا، وہ مٹتی چلی جارہی ہے۔ اب ایک دوسرے کے قریب تر آنے کی راہیں زیادہ کھل رہی ہیں، ایسے میں کاروباری طبقہ اور دیگر بھی پہلے سے مواقعوں پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔

اگرچہ اسلام آباد اور نئی دہلی، دونوں ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور امن عمل میں پیشرفت کی خاطر سرگرم ہیں تاہم جو بات آگے مسئلہ بننے جا رہی ہے، وہ یہ کہ دونوں پنجاب کے درمیان موجودہ تعلقات کو مستحکم بنانے کی خاطر بہت کم کوششیں کی گئی ہیں۔

اپنے قریب ترین با اعتماد ساتھی کے ذریعے، سرحد پار خیر سگالی کے جذبات بھجوانا، وزیرِ اعظم کی نیک نیتی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ پہلے ہی متعدد مسائل سے دوچار ایک صوبے کا انتظام چلارہے ہیں لیکن اس کے باوجود وزیرِ اعظم کے لیے یہ بات زیادہ سہولت کی ہوگی کہ ان کے چھوٹے بھائی اپنے کندھوں پہ مزید ذمہ داریاں اٹھانے کو تیار نظر آتے ہیں۔

لیکن مشیروں کے چھوٹے سے گروہ اور اپنے خاندان کے لوگوں پر انحصار کر کے، امن عمل کو ادارتی سطح پر مستحکم کرنے کی خاطر، وزیراعظم کچھ زیادہ نہیں کرپائیں گے۔

وزیراعظم ذاتی ایلچی کی حیثیت میں جس شخصیت کو بھیجیں، اس پر توجہ مرکوز ہونا ناگزیر ہے لیکن مسائل بدستور حل طلب ہیں۔ ملک میں باقی تین صوبے بھی ہیں، جن میں سے ہر ایک میں مختلف جماعت کی حکومت ہے اور ہر ایک کی خطّے میں اپنی اپنی ترجیحات اور مفادات ہیں۔

اگر شہباز شریف ہندوستانی پنجاب میں اپنے ہم منصب کے ساتھ مل کر عوامی سطح پر تعلقات کی بہتری چاہتے ہیں تو پھر خیبر پختون خواہ میں، سرحدی معاملات پر کابل سے بات چیت کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت کو کس نے روکا ہے؟

بلوچستان میں نیشنل پارٹی کی زیرِ قیادت حکومت ایران سے آزادانہ بات چیت کرسکتی ہے یا سندھ میں پی پی پی، راجستھان سے قدیم تعلقات کی دوبارہ بحالی کرسکتی ہے؟

شہباز شریف کی سفارت کاری سے دوسرے صوبوں کو جو پیغام گیا، وہ بھی مسئلہ ہے: پاکستان مسلم لیگ ۔ نون سب سے پہلے اور سب سے زیادہ، بدستور پنجاب کے مقدر پر فکرمند ہے۔

اگر شہباز شریف کا ہندوستانی پنجاب کا دورہ، دونوں ملکوں کے درمیان امن عمل کی سرگرم بحالی کی طرف لے کر بڑھتا ہے تو اسے اسلام آباد کی طرف سے، دہلی کے ساتھ بہتر تعلقات کے ایک قدم کے طور پر دیکھا جائے گا ورنہ یہ سرحد پار، تعلقات بنانے کی ایک مشق کے سوا کچھ نہیں۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں