ڈرون حملے: مبہم اور نامکمل اعداد و شمار کے ساتھ گرماگرم بحث جاری

اپ ڈیٹ 18 دسمبر 2013
ڈرون حملوں کے حوالے سے  کسی بھی سرکاری ادارے کے پاس مستند اعدادو شمار موجود نہیں اور یہ اعدادوشمار ایک دوسرے سے انتہائی متضاد بھی ہیں۔ —. فائل فوٹو
ڈرون حملوں کے حوالے سے کسی بھی سرکاری ادارے کے پاس مستند اعدادو شمار موجود نہیں اور یہ اعدادوشمار ایک دوسرے سے انتہائی متضاد بھی ہیں۔ —. فائل فوٹو
عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف ڈرون حملوں کے خلاف مہم میں آگے آگے نظر آتی ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف ڈرون حملوں کے خلاف مہم میں آگے آگے نظر آتی ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود، جو ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود، جو ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

پشاور: ڈرون حملے کئی برسوں سے جاری ہیں، لیکن ان کی تعداد اب بھی متنازعہ ہے، ریاست کے کسی ایک ادارے اور حکومتی شعبے کے پاس ان حملوں کی تعداد اور ان میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت اور شہریوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے مستند اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔

ڈان کی جانب سے کی جانے والی گہری تفتیش، بڑے پیمانے پر کیے گئے انٹرویوز اور دستیاب معلومات کی تحقیقات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈرون پر جاری بحث جو پاکستان میں سیاسی محاذآرائی کی صورت اختیار کرچکی ہے، ناقص معلومات اور زیادہ تر قیاس آرائیوں کی بنیاد پر کھڑی ہے، اور تقریباً مکمل طور پر قابلِ تصدیق اعدادوشمار سے محروم ہے۔

ڈرون حملے:

ڈرون حملوں کی تعداد کو ہی لے لیجیے۔ پاکستان کے انٹیلی جنس ادارےجو قبائلی علاقوں سے انسانی اور الیکٹرانک ذرائع سے انٹیلی جنس معلومات حاصل کرتے ہیں، مختلف تعداد پیش کرتے ہیں۔ پہلا ڈرون حملہ جس میں نیک محمد جون 2004ء میں مارے گئے تھے، سے لے کر ہنگو میں ہونے والا حالیہ حملہ جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تک جو تعداد ریاستی اداروں کی جانب سے پیش کی جاتی ہے وہ 334 کے اردگرد معلق ہے۔

دوسری جانب وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے سیکریٹیریٹ کے مطابق اس علاقے میں اب تک 352 حملے ہوچکے ہیں۔

سرکاری طور پر پاکستان میں ڈرون حملوں کی کُل تعداد کے بارے میں کوئی اعدادوشمار جاری نہیں کیے گئے، لیکن اکتوبر میں وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وزارتِ دفاع کی جانب سے ایک تحریری جواب پیش کیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ 2008ء سے 317 حملے ہوچکے ہیں۔

لانگ وار جرنل پاکستان میں ڈرون حملوں کی تعداد 353 بتاتا ہے۔ برطانیہ کے بیورو آف انوسٹی گیشن جرنلزم کے مطابق یہ تعداد 380 ہے، جبکہ نیو امریکن فاؤنڈیشن ڈرون حملوں کی تعداد کا تخمینہ 364 لگاتا ہے۔

ہلاکتوں کی تعداد:

جبکہ سب جانتے ہیں کہ سی آئی اے پاکستان میں کارروائی کررہی ہے، کیا یہ ریاستی ایجنسیوں کی نااہلی ہوگی کہ وہ اس سے زیادہ قابلِ بھروسہ اور مستند تعداد حاصل کرے، اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ دہشت گردوں سے بھرے ہوئے علاقے میں کارروائی کرنا کس قدر دشوار ہوتا ہوگا۔

ایک ادارے کے مطابق 2004ء سے شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد 134 ہوچکی ہے، جبکہ ایک دوسرا ڈیپارٹمنٹ یہ تعداد 259 بتاتا ہے۔

فاٹا سیکریٹیریٹ جسے پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان حملوں میں مارے جانے والوں کو ”مقامی“ اور ”غیرمقامی“ کی درجہ بندی میں تقسیم کرتا ہے۔ لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی جاتی کہ یہ ہلاک شدگان تمام مقامی شہری تھے یا پھر مقامی دہشت گردتھے۔ اس حوالے سے ایک لفظ نہیں بیان کیا گیا کہ یہ غیر مقامی کون تھے۔

ڈان کو دستیاب ہونے والی فاٹا سیکریٹیریٹ کی ایک دستاویز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 2004ء سے اب تک ڈرون حملوں میں کل دو ہزار دو سو ترانوے اموات ہوچکی ہیں، ان میں سے ایک ہزار سات سو تیس افراد کو ”مقامی“ کی درجہ بندی میں شامل کیا گیا ہے۔

چوہدری نثار نے اپنے مذکورہ بیان میں بتایا تھا کہ 2008ء سے 2013ء تک ڈرون حملوں میں مارے جانے والے دہشت گردوں کی کل تعداد دو ہزار ایک سو ساٹھ تھی۔

ان کے بیان پر کہ 2008ء سے ڈرون حملوں میں صرف سڑسٹھ عام شہری ہلاک ہوئے ہیں، سینیٹ میں ایک ہنگامہ شروع ہوگیا تھا۔

تاہم دو ریاستی ایجنسیوں نے 2004ء سے ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد دوہزار تین سو تیس اور دو ہزار دو سو چالیس بیان کی تھی۔

ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں گڑبڑ:

تاہم شمالی اور جنوبی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹوں نے ایک بالکل مختلف فہرست پشاور ہائی کورٹ میں پیش کی تھی، جس کے مطابق 2008ء سے 2012ء تک کے حملوں میں مارے جانے والے تمام افراد پاکستانی شہری تھے۔فاٹا سیکریٹیریٹ کا کہنا ہے کہ دونوں اہلکاروں کی یہ درجہ بندی خود اُن کی وضع کردہ ہے۔

پشاور ہائی کورٹ میں جمع کرائی جانے والی اس فہرست میں ہلاک ہونے والوں کے نام نہیں دیے گئے ہیں، لیکن دہشت گردوں کے اعلٰی سطح کے کمانڈروں کے نام شامل ہیں، جن میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود، جنہیں اگست 2009ء میں ہلاک کیا گیا تھا۔قاری حسین، جو پاکستان میں خودکش حملوں کا معمار اور ماسٹر مائنڈ تھے، جو 2010ء میں ہلاک ہوئے، اور القاعدہ کے ساتھ منسلک الیاس کشمیری جنہیں جون 2011ء میں ہلاک کیا گیا۔

ان دونوں پولیٹیکل ایجنٹوں نے ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کے نام نہیں دیے۔ درحقیقت انہوں نے تو ان سینتالیس غیرملکیوں کے نام بھی نہیں دیے، جو ان کے مطابق ڈرون حملوں میں مارے گئے تھے۔

اس تعداد کا سب سے زیادہ حوالہ عمران خان کی طرف سے دیا جاتا رہا ہے، جن کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف ڈرون حملوں کے خلاف مہم میں آگے آگے نظر آتی ہے۔

سرکاری طور پر صرف ایک حملے میں شہری ہلاکتوں کو تسلیم کیاگیا تھا، جو مارچ 2011ء میں میرانشاہ کے قریب کرومائٹ کی ایک کان کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے منعقدہ قبائلی جرگے پر کیا گیا تھا، اور اس میں اکتالیس افراد مارے گئے تھے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نے اپنے مختصر بیان میں اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کو افسوسناک، سنگدلانہ اور غفلت قرار دیا تھا۔

اس وقت شمالی وزیرستان میں تعینات ایک آفیسر نے کہا تھا کہ وفاقی حکومت ہلاک ہونے والے پسماندگان کو تین کروڑ سے زیادہ کی رقم ادا کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن انہوں نے یہ رقم لینے سے انکار کردیا۔

فاٹا کی دستاویزات کے مطابق اب تک کم از کم ڈرون حملوں کے ایسے تین واقعات اور بھی ہوچکے ہیں، جن کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔ ایک واقعہ 13 جنوری 2006ء کو باجوڑ کے قبائلی علاقے ڈمہ ڈولا میں ہوا تھا، جب ایک ڈرون حملے میں سولہ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں پانچ خواتین، پانچ بچے اور چھ مرد شامل تھے۔ تیس اکتوبر 2006ء کو ہونے والا ایک اور حملہ تحصیل مہمند کے گاؤں میں ایک مدرسے پر ہوا تھا، جس میں اکیاسی افراد مارے گئے تھے، مرنے والوں میں 80 بچے تھے اور ایک مرد تھا۔

مذکورہ دستاویز کے مطابق اسی طرح کا ایک حملہ 23 جون 2009ء کو ہوا تھا، جس میں ایک ڈرون طیارے نے ایک دہشت گرد کمانڈر خوز ولی شبیخیل کے جنازے کو نشانہ بنایا تھا، یہ کمانڈر اسی روز صبح کے وقت ڈرون حملے سے ہلاک ہوئے تھے، جنازے پر حملے سے ساٹھ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ انٹیلی جنس حکام کو یقین ہے کہ یہ ڈرون حملہ ایک انٹیلی جنس کا نتیجہ تھا۔

ان چار ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کی کل تعداد تقریباً 192 بنتی ہے۔ چوہدی نثار کی فرہم کردہ 2008ء سے 2012ء تک شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد کو بھی اس میں شامل کرلی جائےتو ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی کل تعداد 259 تک پہنچ جائے گی۔ لیکن مارچ 2011ء میں ایک جرگے پر ہونے والے حملے کے علاوہ فاٹا سیکریٹیریٹ سے اور یہاں تک کہ کسی بھی ریاستی ادارے سےڈرون حملے میں ہلاک ہونے والوں کے کوئی اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں۔اور اسی وجہ سے نہ ہی کوئی معاوضہ ادا یا وصول کیا گیا۔

غیر ملکی دہشت گرد:

فاٹا سیکریٹریٹ کے پاس ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے غیرملکی دہشت گردوں کی تعداد کے حوالے سے کوئی اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔صرف ایک تعداد جو ان کے پاس موجود ہے، وہ یہ ہے کہ ڈرون حملوں کی شروعات سے اب تک 563 غیرمقامی افراد ہلاک ہوئے۔

ایک سیکیورٹی ایجنسی ان حملوں میں ہلاک ہونے والے غیرملکیوں کی تعداد 618 بتاتی ہے، جبکہ ایک دوسرا ادارہ یہ تعداد 701 بتاتا ہے۔ان میں مشرق وسطیٰ کے افراد سرفہرست ہیں، ان کے بعد وسطی ایشیا کی ریاست ازبکستان کے لوگ، چینی یوغور، ترکی، چیچینیا، تاجک، برطانیہ کے شہریون کے ساتھ دیگر اقوام کے لوگ شامل ہیں۔

ہلاک شدگان کے نام:

حالانکہ ڈرون حملوں اور شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد پر بہت زیادہ سیاسی بیان بازی اور بحث ہوچکی ہے، ستم ظریفی دیکھیے کہ اس کی توثیق کے لیے کسی بھی سرکاری ادارے اور حکومتی شعبے کے پاس مزید اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔

فاٹا سیکریٹیریٹ ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والوں کے ناموں پر مشتمل کوئی مواد موجود نہیں ہے۔وہ حکام جو جڑواں قبائلی علاقے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں 2008ء سے 2012ء کے دوران اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں،جب ڈرون حملوں میں تیزی آئی ہوئی تھی، تین سو تین حملوں کی گواہی دیتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ اس حوالے سے اعدادوشمار موجود نہیں ہیں، اس لیے کہ وہاں تک رسائی دشوار ہے۔

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس معلومات کے حصول کا ذریعہ صرف ایسے قبائلی افراد ہیں، جو مقامی اور غیرملکی دہشت گردوں سے قریبی روابط رکھتے ہیں، اور دہشت گردوں کے درمیان وائرلیس پر کی جانے بات چیت ہے، جسے وہ قریبی نگرانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ان میں سے ایک آفیسرنے کہا کہ ”اگر ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے معروف کمانڈر تھے، تو ہم وائرلیس ریڈیو کی بات چیت پر شور شرابہ سنیں گے اور ہم ہلاک ہونے والے کمانڈر کے نام کے ناقابلِ فہم کوڈ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے علاوہ ہم اکثر فاتحہ خوانی کی تقریب سے بھی ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو شمار کرتے ہیں، لیکن یہ فاتحہ خوانی صرف مقامی لوگوں کے لیے کی جاتی ہے، پنجابی اور غیرملکی دہشت گردوں کے لیے فاتحہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔“

”وہاں کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا۔ اگر ایک سینیئر کمانڈر یا معروف غیرملکی لڑاکو ہلاک ہوا ہے تو اس اطلاع کاخیبرپختونخوا کے گورنر اور فاٹا کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے ساتھ اشتراک کیا جائے گا۔نہ تو کوئی طریقہ کار موجود تھا اور نہ ہی کوئی ڈیٹا بیس موجود تھا۔“

فاٹا کی انتظامیہ کو بھیجی گئی ناموں کی فہرست سے صرف مارچ 2011ء کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت ہوسکتی تھی، وہ بھی لاپتہ ہے۔ ڈان کو صرف 19 لوگوں کے نام حاصل ہوسکے ہیں، وہ بھی ایک سیکیورٹی ذرائع سے۔ فاٹا سیکریٹیریٹ کے حکام کا کہنا ہے کہ کچھ دیگر نام بھی ہوسکتے ہیں، لیکن وہ معمول کے مطابق سیکریٹیریٹ کو بھیجی جانے والی ڈیلی سچویشن رپورٹ (ڈی ایس آر ایس) میں دفن ہوگئے ہوں گے۔

انویسٹیگیٹو جرنلزم کے بیورو نے ہلاک ہونے والوں کے ناموں کے لیے ایک جرأت مندانہ پروگرام شروع کیا تھا، جو ان کے کہنے کے مطابق جنوری 2013ء کے اواخر تک جاری رہا، اس کے ذریعے ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد دو ہزار چھ سو انتیس میں سے 544 شہریوں کو ان کے ناموں سے شناخت کیا گیا تھا۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان کی سیاسی انتظامیہ کے مقابلے میں انٹیلی جنس ایجنسیاں ایک انسانی انٹیلی جنس کا ایک وسیع نیٹ ورک رکھتی تھیں، اور ان کے پاس انٹیلی جنس اور معلومات اکھٹا کرنے کے لیے بہتر الیکٹرونک استعداد موجود تھی۔

لیکن ڈان نے جو دستاویز دیکھیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید یہ ایک ریاستی ادارے سے ہی اعدادوشمار دستیاب ہوسکے جو انتہائی مبہم اور نامکمل تھے، اس میں 2010ء اور 2013ء کے درمیان ہلاک ہونے والے دو ہزار سے زیادہ میں سے چوبیس اعشاریہ بتیس فیصد کو شناخت کیا جاسکا، ان میں کوئی بھی شہری نہیں تھا، اور سب کے سب مقامی اور غیر مقامی دہشت گرد تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Pak siyasat Dec 20, 2013 03:12am
right
Pak siyasat Dec 20, 2013 03:13am
RIGHT
Pak siyasat Dec 20, 2013 03:15am
Dawn.com encourages its readers to share their views on our website. We try to accommodate all users' comments but this is not always possible due to space and other constraints. Please read our comments guidelines below for more information: Please be aware that the views of our bloggers and commenters do not necessarily reflect Dawn.com's policies. Though comments appear to have been published immediately after posting, they are actually forwarded to a moderation queue before publication. Dawn reserves the right to remove or edit comments that are posted on this blog. Language that is offensive to any race, religion, ethnicity, gender or nationality is not permitted. Avoid posting comments in ALL CAPS. Commenters are also encouraged to avoid text contractions like 'u r.' Do not cross-post comments across multiple blog entries. Any comments posted to a blog entry should be relevant to the topic or discussion. Do not spam the comment section.