شمالی وزیرستان: فورسز اور شدت پسندوں میں جھڑپیں، مزید ہلاکتیں

شائع December 20, 2013
شیلنگ سے درجنوں گھر تباہ ہوچکے ہیں، جبکہ مقامی لوگوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔—فائل فوٹو۔
شیلنگ سے درجنوں گھر تباہ ہوچکے ہیں، جبکہ مقامی لوگوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔—فائل فوٹو۔

میران شاہ: پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بدھ کی رات سے شروع ہونے والی سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں گزشتہ روز جمعہ کو بھی جاری رہیں جن مقامی لوگوں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اب 53 ہوگئی ہے۔

تازہ کارروائی کے دوران پاکستانی فورسز نے کھجوری چیک پوسٹ کے قریب ایک گاڑی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہوگئے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب علاقے میں کرفیو نافذ تھا۔

ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ آیا گذشتہ تین روز سے جاری سیکیورٹی فورسز کی ان کارروائیوں میں ہلاک ہونے عام شہری ہیں یا پھر شدت پسند، تاہم مقامی افراد کے مطابق اس آپریشن میں عام سویلین افراد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ افغان سرحد کے کنارے شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان بدھ کے روز جھڑپیں اس کے بعد شروع ہوئی ہیں جب ایک خودکش حملہ آور نے میر علی کی چیک پوائنٹ پر خود کو دھماکے سے اُڑا لیا تھا جس میں پانچ پاکستانی فوجی ہلاک ہوگئےتھے۔

عسکریت پسندوں نے بدھ کے روز بمباری میں زخمی سپاہیوں کو واپس لانے والے قافلے پر بھی حملہ کیا تھا اور اس کے بعد فوج کی جانب سے مارٹر، آرٹلری اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

جمعے کے روز دو ہوٹلوں کے ملبے تلے مزید چار لاشیں برآمد ہوئی۔ ان دونوں مقامات کو شدت پسندوں نے مورچوں کے طور پر استعمال کررکھا تھا اور فوج نے ان پر شدید بمباری کی تھی۔

فوجی ذرائع کے مطابق اس کارروائی میں مارے جانے والے تمام افراد طالبان دہشتگرد تھے لیکن مقامی افراد کا کہنا تھا کہ اس ہوٹل میں ڈرائیور موجود تھے جو منگل کو کرفیو کے نفاذ کے بعد وہاں سے نکل نہیں سکے تھے۔

علاقے میں پارلیمنٹ کے رکن نذیر خان وزیر کا کہنا ہے کہ آپریشن میں مارے جانے والے اکثر افراد شدت پسند نہیں تھے۔

انہوں نے خبرراساں ادرے اے ایف پی کو بتایا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے اکثر افراد سویلین تھے اور یہاں کے عوام کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے جو اپنے گھروں میں محصور ہر کر رہ گئے ہیں۔

ان مزید کہان تھا کہ شیلنگ سے درجنوں گھر تباہ ہوچکے ہیں، جبکہ مقامی لوگوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ وزیر نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ بمباری روک دیں تاکہ مقامی افراد اپنے مردوں کو دفناسکیں اور زخمیوں کو ہسپتال لے جاسکیں۔

فوجی کارروائیاں میں ہلاک ہونے والے افراد کی آزادانہ شناخت اور گنتی ممکن نہیں کیونکہ سرچ آپریشن جاری ہے اور کرفیو نافذ ہے جبکہ علاقے میں مددگار تنظیموں اور غیر ملکی صحافیوں کی آمد و رفت پر پابندی ہے۔

سیکیورٹی فورسز کے ایک نمائیندے کے مطابق میرعلی میں اب بھی سرچ آپریشن جاری ہے۔

میرعلی کے مقامی عالم مولوی گل عباس نے اے ایف پی کو بتایا کہ پوری رات فائرنگ اور گولہ باری کی وجہ سے وہ سو نہیں سکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ درجنوں گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ گھروں کے اندر ہلاک ہونے والے اکثریت مقامی رہائشی تھے۔

شمالی وزیرستان عسکریت پسندوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے جہاں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور القاعدہ نےعسکریت پسند بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

اسی علاقے میں امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے کئے جاتے رہے ہیں جن میں ٹی ٹی پی سربراہ حکیم اللہ محسود سمیت کئی اہم دہشتگرد مارے گئے ہیں۔ تاہم ان ڈرون حملوں میں عام بے گناہ افراد کی بڑی تعداد ہلاک ہوئی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 جون 2025
کارٹون : 20 جون 2025