سخت شرائط
نوجوانوں کے لیے وزیراعظم کی قرض اسکیم کی نہایت سخت شرائط کی شکایات تو ملک بھر سے مل رہی ہیں، جس نے آخرِ کار بدھ کو قومی اسمبلی کی راہ بھی تلاش کرلی۔ اس کی یوں بھی توقع تھی کہ قرض حاصل کرنا تو درکنار، کم آمدنی والے طبقے کے لیے کڑی شرائط کے باعث قرض کی درخواست دینا بھی محال ہے۔
یہ بہت زیادہ پذیرائی حاصل کرنے والے منصوبوں میں سے ایک ہے تو اس کے ساتھ ہی شاید یہ طیش دلانے کا بھی سب سے زیادہ باعث بن رہی ہے۔
وزیرِ اعظم قرض اسکیم کے تحت ایک سو ارب روپے کی تقسیم کا وعدہ ہے؛ ایک لاکھ روپے کا آسان قرض ایک لاکھ درخواست دہندگان کے لیے جبکہ بیس لاکھ روپے تک کا قرض اُن بے روزگار نوجوان مرد و خواتین کے واسطے جو چھوٹے پیمانے پر اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے آغاز پر اس منصوبے کو بڑے پیمانے پر اس خاطر پذیرائی ملی تھی کہ اس سے ملک کے نوجوانوں کو اپنی تقدیر بنانے کے لیے، آسان قرض تک رسائی میں مدد دینے کے لیے حکومتی عزم کا اظہار ہورہا تھا۔
اگر اس منصوبے کے پیچھے یہ خیال کار فرما تھا کہ پسماندہ طبقے کے غریب نوجوانوں کا ہاتھ تھام کر اُنہیں خود اُنہی کے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد دی جائے تو اس منصوبے کی موجودہ شکل میں یہ مقصد حاصل ہوتا نظر نہیں آتا۔
قرض کے خواہشمندوں کے لیے ضامن کی شرط ہی، لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوان مرد و خواتین کی ایسی بڑی تعداد کو فہرست سے خارج کردیتی ہے، جن کے پاس نہ صرف قابلِ عمل منصوبے ہیں بلکہ وہ اس قرض کے ذریعے، سخت محنت کرکے، خوابوں کو حقیقت کاروپ دینے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔
قرض کے لیے درخواست دہندہ پر لازم ہے کہ وہ گریڈ پندرہ یا اس سے اوپر کے ایک سرکاری افسر کی ضمانت رکھتا ہو یا دوسری صورت میں ایسا شخص اُس کا ضامن بن سکتا ہے جس کے پاس ممکنہ قرض کی رقم کا ڈیڑھ سو فیصد نقد اثاثہ ہو۔ قرض کے ہر درخواست گذار کے لیے اس طرح کے ضامن کا بندوبست کرنا ممکن نہیں۔
اسکیم کی 'مقبولیت' کا اندازہ اسمال اینڈ میڈیم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹس سے درخواست فارم ڈاؤن لوڈ کرنے کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ اٹھارہ دسمبر تک ویب سائٹس سےساڑھے پانچ ملین (پچپن لاکھ) درخواست فارم ڈاؤن لوڈ کیے جاچکے تھے۔
ضامن کی شرط، جس طرح قرض حاصل کرنےکے خواہشمندوں کو روک رہی ہے، اسی سے نشاندہی ہوجاتی ہے کہ دو سرکاری بینکوں کو ملنے والی درخواستوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہی ہوگی، لہٰذا جب اپوزیشن ارکان اسمبلی قرض اسکیم سے باہر رہ جانے والوں کی جانب سے معاملے کو ایوان میں اٹھارہے ہیں تو اس پر حکومت کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
اپوزیشن جماعتیں اور دیگر شراکت اس معاملے پر جو کچھ کہہ رہے ہیں یا اپنے خدشات کا جو اظہار کررہے ہیں، اسے ضرور سننا چاہیے۔ بینک، جن کی رقم اس میں شامل ہوگی، سخت شرائط عائد کرنے کا الزام ان کے سر نہیں ڈالنا چاہیے۔ اگر یہ قرض اسکیم بینکوں نے اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر بنائی ہے تو پھر حکومت اس کا سہرا اپنے سر کیوں سجارہی ہے؟
اسکیم پر ہونے والی تنقید پر سیخ پا ہونے کے بجائے، اس کے خالقوں کو چاہیے کہ وہ اس پر نظر ڈالتے ہوئے ایسے لوگوں کو بھی استفادے کا موقع دینے کی خاطر راستے تلاش کریں جو ضامن کا انتظام نہیں کرسکتے یا پھر اُن کے پاس آسان قرض حاصل کرنے کے واسطے رہن رکھنے کے لیے اثاثے موجود نہیں ہیں۔
اور اس مسئلے کا حل بینکوں کی رقم کو خطرے میں بھی نہ ڈالتا ہو جیسا کہ ماضی میں یلیو کیب منصوبے میں ہوچکا۔