عمدہ قدم

21 Dec, 2013
عمران خان کی پشاور میں پولیو مہم میں شرکت، قومی ہیروز منفی سماجی رویے بدل سکتے ہیں۔ آن لائن فوٹو۔۔۔
عمران خان کی پشاور میں پولیو مہم میں شرکت، قومی ہیروز منفی سماجی رویے بدل سکتے ہیں۔ آن لائن فوٹو۔۔۔

ریاست اور صوبوں، دونوں کی جانب سے ملک بھر میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی کوششوں کو، خطرناک ڈھلوانوںپر ڈالا جاچکا، ایسے میں سیاسی اور دیگر قائدین کی بدستور خاموشی قابلِ توجہ ہے۔

مُلا فضل اللہ کے بدنامِ زمانہ غیر قانونی ایف ایم ریڈیو اسٹیشن سے پہلی بار پولیو قطرے پلانے کے خلاف شروع کی گئی مہم کو کئی برس گذرچکے لیکن اس کے باوجود، ملک بھر میں اپنے بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین کی تعداد بدستور بڑھتی جارہی ہے۔

بدترین بات یہ ہے کہ کراچی اور خیبر پختون خواہ میں پولیو ورکرز اور ان کے محافظوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

گذشتہ کئی برسوں کی کوششوں کے باوجود اس وائرس پر قابو پانے میں ناکامی کے باعث اب پولیو، پاکستان میں صحت اور آزادی کو درپیش بڑھتے خطرے کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔

یہ پیشِ نظر رہے کہ خطرناک ہوتی صورتِ حال کی بنا پر ہی، پولیو کے خاتمے کی نگرانی کرنے والے آزادانہ بورڈ نے سن دو ہزار گیارہ میں پاکستانیوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کی تجویز دی تھی۔

لیکن ہمارے وہ رہنما جن کا منہ 'قومی مفاد' کے حق میں دلائل دیتے نہیں سوکھتا، انہوں نے شاید ہی کبھی ملک کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے والے اس معاملے پر لب کشائی کی ہو۔

ایسے میں یہ بات قابلِ اطمینان ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے اس عمل میں شرکت کرتے ہوئے، پولیو کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

عمران خان نے بدھ کو پشاور کے قریب بچوں کو پولیوسے بچاؤ کے قطرے پلا کر، صوبے میں حالیہ پولیو مہم کا افتتاح کیا۔ وہ کچھ عرصہ قبل پولیو ورکرز سے متعلق ایک حملے کے دوران ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار کے گھر بھی پہنچے، جس سے درست پیغام جاتا ہے۔

خیبر پختون خواہ میں مسائل سے دوچار ان کی حکومت ایک طرف کہ جہاں حقیقت میں پولیو سے بچاؤ مہم پر شدید دباؤ ہے لیکن عمران خان جس شخصی حیثیت میں ہیں، وہاں ان کی کوششیں تبدیلی لاسکتی ہیں۔ بطور سیاستدان نوجوان ووٹرز میں مقبولیت ثابت کرنے والے خان ملک بھر میں لاکھوں کرکٹ متوالوں کے دیوتا ہیں۔

خیبر پختون خواہ میں جماعتِ اسلامی ان کی اتحادی ہے، ایسے میں وہ مذہبی بنیادوں پر قائم سیاسی جماعتوں اور معاشرے کے قدامت پسند حلقوں کی توجہ حاصل کرسکتے ہیں۔

پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے اور عوامی شعور بڑھانے کی خاطر اس محاذ پر، معاشرے کی جانی پہچانی اعلیٰ شخصیات کی اس عمل میں شمولیت کی ضرورت ہے۔ اگر مزید قومی قائدین اور ہیرو اس عمل میں شریک ہوں تو تند و تیز مخالف لہروں کا رخ پلٹا بھی جاسکتا ہے۔

پولیو خاتمے کے لیے، دو دہائی قبل اُس وقت کی وزیرِ اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے خود اپنے بچوں کو قطرے پلا کر مہم کا آغاز کیا تھا۔ آج اشد ضرورت ہے کہ ملک کے بااختیار اور طاقتور حلقے بھی پولیو خاتمے کی اس مہم کے ساتھ اظہار یکجہتی کی خاطر، اسی طرح کے جذبات کا اظہار کریں۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں