سعودی عرب کی بین الاقوامی درجے کی خاتون فوٹوگرافر

06 جنوری 2014
سعودی عرب کی بین الاقوامی درجے کی خاتون فوٹوگرافر تسنیم السلطان کے مطابق سعودی معاشرہ خاصی حد تک بدل چکا ہے، لیکن جذبات کا اظہار کرنا سعودیوں کے لیے سخت مشکل کام ہے۔ —. فوٹو بشکریہ تسنیم فوٹو گرافی ڈاٹ کام
سعودی عرب کی بین الاقوامی درجے کی خاتون فوٹوگرافر تسنیم السلطان کے مطابق سعودی معاشرہ خاصی حد تک بدل چکا ہے، لیکن جذبات کا اظہار کرنا سعودیوں کے لیے سخت مشکل کام ہے۔ —. فوٹو بشکریہ تسنیم فوٹو گرافی ڈاٹ کام
تسنیم السلطان اپنی فوٹوگرافی کے اسٹال پر۔ —. فوٹو بشکریہ تسنیم فوٹو گرافی ڈاٹ کام
تسنیم السلطان اپنی فوٹوگرافی کے اسٹال پر۔ —. فوٹو بشکریہ تسنیم فوٹو گرافی ڈاٹ کام
تسنیم السلطان اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کے ہمراہ۔ —. فوٹو بشکریہ تسنیم فوٹو گرافی ڈاٹ کام
تسنیم السلطان اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کے ہمراہ۔ —. فوٹو بشکریہ تسنیم فوٹو گرافی ڈاٹ کام
تسنیم السلطان۔ —. فوٹو بشکریہ عرب نیوز
تسنیم السلطان۔ —. فوٹو بشکریہ عرب نیوز

لائٹس، کیمرہ، ایکشن!

یہ وہ پیشہ ہے جس کا انتخاب سعودی عرب کی بین الاقوامی درجے کی فوٹو گرافر تسنیم السلطان نے کیا، وہ لسانیات اور ادب میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری کے لیے داخلہ لینا چاہتی تھیں۔

جب انہیں اس حقیقت کا احساس ہوا کہ الفاظ سے کہیں زیادہ تصویریں کہہ دیتی ہیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کیمرے کی آنکھ سے دنیا کو دیکھیں گی، یہ ان کا بچپن سے شوق تھا، اور وہ شادی پر کی جانے والی فوٹوگرافی میں مہارت حاصل کی اور بحرین میں 2010ء کے دوران کام کا آغاز کردیا۔

ابتدائی طور پر تو وہ اپنے خاندان اور بچوں کی تصویریں اُتار کر اپنا شوق پورا کرتی رہی تھیں، لیکن پیشہ ورانہ مہارت کا حصول ان کے لیے بہتر تھا، پھر انہوں نے شادیوں میں تصویریں کھینچنا شروع کیں۔ اس کا کیا اثر ہوا؟

فوٹوگرافی کے شعبے میں اپنے سفر کی کہانی سناتے ہوئے تسنیم نے عرب نیوز کو بتایاکہ ”شادیوں میں فوٹوگرافی کرنے پر میری حوصلہ افزائی کی گئی جس کی وجہ سے میرا کام لاجواب ہوتا چلا گیا، جس سے میں شادیوں کی فوٹوگرافی کے لیے مخصوص ہوکر رہ گئی۔“

انہوں نے بتایا کہ ”سعودی معاشرے میں عام طور پر خواتین کےسرمایہ کاری یا اپنا ذاتی کاروبار کرنےکے سلسلے میں حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ زیادہ تر خاندان اپنے بچوں کو انجینئرنگ اور میڈیکل کے شعبوں میں بھیجنا پسند کرتے ہیں، جہاں زیادہ آمدنی کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔ چونکہ میرا ابتدائی بچپن امریکا میں گزرا تھا اوروہاں میری پرورش ہوئی تھی، چنانچہ میرے خاندان کے لوگوں نے میرے اندر تحریک پیدا کی کہ میں بہادر بنوں اور اپنا ذاتی کاروبار شروع کروں، اور اس بات کی پروا نہ کروں کہ معاشرہ مجھ سے کیا چاہتا ہے۔ اب یہاں کوئی بہانہ نہیں تھا کہ میں اپنے بچوں کی تصویر اتروانے کے لیے کسی کی خدمات حاصل کروں۔ امریکا میں میرے پاس ایک ورکشاپ تھی اور میرا ذاتی کیمرہ بھی تھا، لہٰذا یوں سمجھیے کہ میرا آدھا راستہ تو طے ہوچکا تھا، اور بس کام شروع کرنا باقی تھا۔“

تسنیم نے بتایا کہ ”آج میں بہت خوش ہوں کہ سعودی معاشرہ کافی حد تک تبدیل ہوچکا ہے، اور بہت سے نوجوان اپنے پس منظر سے قطع نظر اپنا کاروبار کررہے ہیں، ان میں سے زیادہ تر نے بالکل نچلی سطح سے شروع کیا تھا۔“

ادب میں ان کی تعلیم کے اثرات فوٹوگرافی پر کس طرح مرتب ہوئے، اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے تسنیم نے کہا کہ ”ادب سے میری محبت اور رومانس ہی ہے کہ جب میں فوٹوگرافی کررہی ہوتی ہوں تو مجھے نت نئے طریقوں کے ناقابلِ تردید سراغ ملتے ہیں۔ اپنے جذبات کا اظہار کرنا عرب معاشرے اور خاص طور پر سعودیوں کے لیے سخت مشکل کام ہے۔پھر بھی میں ان میں سے سب سے بہتر حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہوں، یا چاہتی ہوں کہ ہر سعودی مرد کے اندر سے جان آسٹن کے ناول کے ہیرو مسٹر ڈیرسی کو برآمد کرسکوں۔“

کامیابی کے حصول میں دی جانے والی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے تسنیم نے کہا کہ ”میں نے جسمانی طور پر تھکا دینے والے بہت سے سفر کیے۔

مالی طور پر دیکھا جائے تو میں نے بالکل ابتداء سے اپنا کام شروع کیا تھا، اور میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا، نہیں جانتی تھی کہ یہ کام کیسے ختم ہوگا۔

مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ یہ جذبہ چند دنوں میں ختم ہوجائے گا۔ میں نے اپنے ٹیچنگ کے کیریئر میں بھی بہت ایثار کیا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ میں اس قابل ہوں، لہٰذا مجھے اپنے ایثار کرنے کا افسوس نہیں تھا۔

خلیج میں شادیوں کے انعقاد کے مختلف طریقوں پر تبصرہ کرتے ہوئے تسنیم نے کہا کہ ”مختلف ٹائم زون میں شادیوں کی رسمیں الگ الگ ہیں۔ ریاض میں شادی کی تقریب کا اختتام صبح چار یا پانچ بجے تک ہوتا ہے۔ جبکہ مشرقی علاقے میں لگ بھگ رات دو بجے تک شادی کی تقریبات جاری رہتی ہیں۔ تاہم جدہ کے لوگوں کی پارٹی ہروقت جاری رہتی ہے، آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ شاید یہ ختم ہی نہیں ہوگی۔ متحدہ عرب امارات، اور خاص طور پر العین میں شادی کی تقریب صرف ایک گھنٹے کی ہوتی ہے۔ یوں تو عربوں میں شادیاں تقریباً ایک ہی طرح سے منعقد کی جاتی ہیں، لیکن رسمیں، خاص طور پر مہندی کی رات میں فرق ہوتا ہے۔“

تبصرے (0) بند ہیں