فرقہ واریت سے نمٹنے کے لیے سعودی حکومت سے مدد کی درخواست

08 جنوری 2014
وزیراعظم نواز شریف اور شہزادہ الفیصل۔ —. فوٹو آئی این پی
وزیراعظم نواز شریف اور شہزادہ الفیصل۔ —. فوٹو آئی این پی
وزیراعظم نواز شریف، سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ الفیصل کا خیرمقدم کرتے ہوئے۔ —. فوٹو آئی این پی
وزیراعظم نواز شریف، سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ الفیصل کا خیرمقدم کرتے ہوئے۔ —. فوٹو آئی این پی
سعودی وزیر اپنے وفد کے ہمراہ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ دورانِ اجلاس۔ —. فوٹو آئی این پی
سعودی وزیر اپنے وفد کے ہمراہ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ دورانِ اجلاس۔ —. فوٹو آئی این پی
صدر ممنون حسین اور شہرادہ الفیصل۔ —. فوٹو آئی این پی
صدر ممنون حسین اور شہرادہ الفیصل۔ —. فوٹو آئی این پی
سعودی وزیر خارجہ الفیصل صدر ممنون حسین سے ملاقات کررہے ہیں۔ —. فوٹو آئی این پی
سعودی وزیر خارجہ الفیصل صدر ممنون حسین سے ملاقات کررہے ہیں۔ —. فوٹو آئی این پی

اسلام آباد: پاکستان اور سعودی عرب نے منگل سات جنوری کو اپنے دفاعی تعاون کو مزید گہرا اور مضبوط بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے شام اور افغانستان سمیت دیگر علاقائی معاملات پر ایک دوسرے کے مؤقف کی حمایت کا اعادہ کیا۔

سعودی وزیرِ خارجہ پرنس سعود الفیصل نے کل صدر ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف اور خارجہ امور و قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز سے ملاقات میں اپنے ملک سے متعلق علاقائی معاملات پر پاکستانی حمایت حاصل کی۔

حکومت کی جانب سے چھ سالوں کے دوران پہلی مرتبہ کسی اعلٰی سطح کے سعودی رہنما کے پاکستان کے دورے کو ایک ”تاریخی موقع“ قرار دیا جارہا ہے، جبکہ سعودی حکام دو روزہ دورے کے نتائج سے ”خوشی اور اطمینان“ محسوس کرتے ہیں۔

پرنس سعود الفیصل نے صدر ممنون حسین کو سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا ”خصوصی پیغام“ پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ پیغام دوستی، تعاون اور ہرقسم کے حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے عزم کے بارے میں ہے۔“

اپنے دورے کی مصروفیات مکمل کرنے کے بعد میڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر نے کہا کہ ”سعودی عرب اور پاکستان علاقائی امن و مفاہمت پر یکساں نکتہ نظر رکھتے ہیں۔“

ان کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ ”خطے کو مختلف شکلوں کے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، یہ انتہائی اطمینان بخش بات ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک ساتھ کھڑے ہیں اور خطے میں امن اور ترقی کے حوالے سے دونوں کے نکتہ نظر مشترک ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین نے سعودی وزیر سے اپنی ملاقاتوں کے دوران ایک نئے عہد کی شروعات کرنے اور دو طرفہ اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کو مزید گہرا کرنے پر زور دیا۔

پرنس الفیصل نے میڈیا کانفرنس پر علاقائی امن کو لاحق چیلنجز کے بارے میں تفصیلی بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے دورے کا ایجنڈا علاقائی اور بین الاقوامی پہلوؤں سے متعلق ہے۔

شام کے معاملے پر سعودی وزیر نے کہا کہ ان کی حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک مذاکرات پر زور دیا تھا۔ انہوں نے شام کے صدر بشارالاسد کو فری ہیند دینے کی مذمت کی۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب شام میں تین سال سے جاری مسلح تصادم کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی حمایت میں یکساں خیالات رکھتے تھے۔

دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے اپنے مقام پر قریبی تعاون کرتے رہیں گے۔

پرنس فیصل نے کہا کہ افغانستان میں ان کے خیال میں ایک فیصلہ کن موڑ آرہا تھا، اور پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ ان کی بات چیت کا مرکزی نکتہ بھی یہی معاملہ تھا۔

انہوں نے افغانستان کے مختلف گروہوں سے کہا کہ وہ اپنے تنازعات ایک طرف رکھ دیں اور قومی مفاد کی خاطر متحد ہوجائیں۔

سعودی وزیر نے ایران کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، لیکن سرتاج عزیز نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تہران کی مغرب کے ساتھ بات چیت خطے کے لیے مفید ثابت ہوگی۔

پرنس فیصل نے دو طرفہ تعلقات میں خلل ڈالنے والے عناصر کو نظرانداز کرنے کی ضروت پر زور دیا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ جن عناصر کا حوالہ دے رہے تھے، انہوں نے ان کی وضاحت نہیں کی۔

فرقہ واریت:

پاکستانی رہنماؤں نے ان ملاقاتوں میں فرقہ واریت پر گرفت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب کی حکومت کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی، جو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔

سرتاج عزیز نے رپورٹروں کو بتایا کہ ”ہم نے فرقہ واریت سے نمٹنے کے لیے سعودی حکومت سے مدد کی درخواست کی ہے، اس لیے کہ یہ مسلم اتحاد کو متاثر کررہی ہے۔“

پاکستان حکام کو شبہ ہے کہ فرقہ واریت میں ملؤث زیادہ تر گروہوں کو مالی امداد سعودی خیراتی اور مذہبی اداروں کی جانب سے ہی آتی ہے۔

اس معاملے کی میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران نشاندہی نہیں کی گئی، تاہم پرنس فیصل نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کو باہمی تعاون کے ساتھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ ایک اور ملاقات میں سرتاج عزیز نے کہا کہ دونوں فریقین دفاعی تعاون میں اضافے پر متفق تھے۔

انہوں نے دفاعی تعاون میں نئے زاویوں کی تفصیلات کے بارے میں نہیں بتایا، جس کے متعلق توقع کی جارہی ہے کہ سعودی عرب پاکستان سے مزید ہتھیار کی خریداری کرسکتا ہے۔

دونوں ملکوں کے دفاعی ماہرین اگلے چند مہینوں میں اس کی تفصیلات طے کرنے کے لیے ملاقات کریں گے۔

مشرف ٹرائل:

سعودی وزیر کے اس دورے سے بہت سی افواہوں نے جنم لیا تھا، کہ وہ سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے مستقبل کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کررہے ہیں، جنہیں غداری کے مقدمے کی کارروائی کا سامنا ہے۔

پرنس فیصل نے پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ اس مقدمے کے بارے میں تبادلہ خیال کو مسترد کردیا اور کہا کہ سعودی عرب دیگر ملکوں کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے۔

حکومت پہلے ہی اس دورے کو غداری کے مقدمے سے منسلک کرنے کے خیال کو مسترد کرچکی تھی۔ دونوں ملکوں نے تجارت، معیشت، سرمایہ کاری اور توانائی میں تعاون کی مختلف تجاویز پر بات چیت کے لیے اپنے مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔

سعودی عرب نے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے سلسلے میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا۔

دونوں ملکوں نے نجی شعبے کی شمولیت میں اضافہ کرنے کے لیے مشترکہ تجارتی کونسل کو ازسرِ نو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ ”ہم نے تعلقات کو وسعت دینے کے لیے ادارہ جاتی طریقہ کار اختیار کرنے پر اتفاق کیا ہے۔“

تبصرے (0) بند ہیں