پولیو کی شدّت

11 جنوری 2014
پاکستانی قیادت آنکھیں کھولے، پولیو وبا کی صورت پھوٹ پڑا تو ساری سیاست دھری رہ جائے گی۔ فائل فوٹو۔۔۔
پاکستانی قیادت آنکھیں کھولے، پولیو وبا کی صورت پھوٹ پڑا تو ساری سیاست دھری رہ جائے گی۔ فائل فوٹو۔۔۔

یہ ایک عظیم موقع تھا۔ یہاں صحتِ عامہ کو درپیش ایسے مسائل ہیں جو شہریوں کی بنیادی آزادی کے لیے خطرہ اور بلاشبہ ملکی مستقبل کے واسطے بھی نہایت سنگین ہیں۔ پولیو قطروں کو مہلک سمجھنے والوں کے سوا، لگ بھگ ہر شخص اس بات سے اتفاق کرے گا کہ پولیو روک تھام کی کوشش نہایت ضروری ہے۔

سب سے اچھی بات یہ کہ لگ بھگ ایک دہائی سے بھی زیادہ ہوچلا، ملک گیر سطح پر پولیو ختم کرنے کی خاطر حکومتی پروگرام جاری ہے اور اس مہم میں ہزاروں پولیو ورکرز شامل ہیں۔

دراصل، کیا یہ زیادہ بہتر نہیں کہ عوام کی فلاح و بہبود سے اپنی وابستگی کا پُرعزم اظہار کرنے والے قائدین اور سیاستدان اپنی تمام تر حمایت کاوزن انسدادِ پولیو ویکسی نیشن مہم کے پیچھے ڈالیں؟ صحت کو لاحق یہ سنگین خطرہ نہ صرف ملک میں ایک بار پھر پوری شدت سے اپنا سر اٹھارہا ہے بلکہ اب تو یہ بیماری یہاں سے دنیا کے دوسرے ممالک تک بھی پہنچ رہی ہے۔

زیادہ تر وہ ممالک جو پولیو جیس متعدی بیماریوں سے پاک ہیں یا اس پر کامیابی سے قابو پاچکے، ان کے لیے سب سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ دو سال سے اوپر ہونے کو آئے جب 'گلوبل انڈی پینڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ فار پولیو اِری ڈیکیشن' نے پاکستان پر سفری پابندیوں کی تجویز دی تھی، اس کے بعد، پاکستان حالیہ ویکسی نیشن کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا ہے۔

اگرچہ ہمارے قائدین اور سیاستدان بہت بولتے اور خوب بولتے ہیں لیکن اس پر شاید ہی ان کی کوئی آوازبُلند ہوئی ہو۔ رہی بات پولیو ویکسی نیشن پروگرام کی تو اس کی حمایت میں بھی ان کی شمولیت صرف فوٹو سیشن تک محدود دکھائی دیتی ہے۔

صرف چند ہفتے قبل ہی پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ پولیوویکسی نیشن کی مہم میں نہ صرف شریک ہوں گے بلکہ ان کی جماعت اسے اپنی ترجیحات میں شامل کرے گی۔

اسی دوران جے یو آئی ۔ س کےسربراہ اور دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے بھی، وزیرستان کے علاقے میں پولیو قطرے پلوانے پر پابندی لگانے والے طالبان کے ساتھ تعلقات کے باوجود، پولیو مہم کے حق میں رائے کا اظہار کیا۔

مذکورہ بالا دونوں شخصیات کے اثر و رسوخ کے ساتھ پولیو مہم کے خلاف صورتِ حال کا رخ پلٹا جاسکتا ہے لیکن جیسے ہی کیمرے بند ہوئے اور صحیح معنوں میں کام شروع کرنے کا وقت آیا، دونوں شخصیات کی توجہ اُن امور پر مرکوز ہوگئی جو بلاشبہ زیادہ دباؤ ڈالنے والے معاملات ہیں۔

علاوہ ازیں، آصفہ بھٹو زرداری بھی ایک تصویر میں کراچی کے بچوں کو پولیو قطرے پلاتی نظر آئیں لیکن پولیو ورکرز کی ٹیموں کی خاطر ناکافی حفاظتی انتظامات کے سبب شہر بھر میں پولیو مہم کو ملتوی کیا جاچکا۔

پولیو کے محاذ پر پاکستان کو درپیش صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ پہلے تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ پولیو وائرس کے دوبارہ پھوٹ پڑنے اور اس کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی مزاحمت کا بڑا سبب، خیبر پختون خواہ کے قبائلی علاقے اور کراچی میں کم آمدنی والے باشندوں کی پسماندہ بستیاں ہیں۔

لیکن، جیسا کہ گذشتہ روزہمارے اخبار میں شائع شدہ ایک خبر سے پتا چلتا ہے، صورتِ حال نہایت سنگین ہوچکی ہے۔ : اقوامِ متحدہ کے ادارے، عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف، پنجاب کو ایک بڑے چیلنج کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، جہاں بڑی تعداد میں بچے پولیو ویکسی نیشن سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان اداروں نے حال ہی میں حکومت کو بھیجی گئی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ یہاں ایک متعدی وبا پھوٹ پڑنے کے لیے بالکل تیار ہے۔

تمام اشارے کہہ رہے ہیں کہ ایسا ہوگا اور ایسے میں ملکی قیادت کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ صورتِ حال بگڑی تو پھر ان کی ساری کی ساری سیاست گری دھری کی دھری رہ جائے گی۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں