مشرف کے سمن کو معطل کرنے کی درخواست مسترد

11 جنوری 2014
عدالت نے غداری کے مقدمے کی سماعت کو سولہ جنوری تک ملتوی کردیا، جس تاریخ کو جنرل مشرف پر فردِ جرم عائد ہونے کا امکان ہے۔ —. فائل فوٹو
عدالت نے غداری کے مقدمے کی سماعت کو سولہ جنوری تک ملتوی کردیا، جس تاریخ کو جنرل مشرف پر فردِ جرم عائد ہونے کا امکان ہے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی سولہ جنوری کی سماعت میں فردِ جرم سے بچنے کی ممکنہ کوشش کو ناکام بنانے کے ایک اقدام کے طور پر خصوصی عدالت نے جمعہ دس جنوری کو غداری کے مقدمے میں ان کی طلبی کو معطل کرنے کی درخواست کو خارج کردیا۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی عدالت نے واضح کیا کہ ”یہ عدالت سوائے دفتری غلطیوں کو درست کرنے کے، اپنے احکامات پر نظرثانی کرنے، پلٹنے، تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔“

اس عدالت نے جنرل مشرف کو سولہ جنوری کی سماعت میں طلب کیا ہے، تاکہ غداری کی چارج شیٹ ان کے حوالے کی جاسکے۔

عدالت نے وکیل صفائی کے اس مؤقف کو بھی مسترد کردیا کہ کرمنل پروسیجر کوڈ غداری کے مقدمے پر لاگو نہیں ہوسکتا ہے۔

عدالت نے واضح کیا کہ کرمنل پروسیجر کوڈ خصوصی قوانین میں بہ نسبت زیادہ مؤثر ہے، چنانچہ اس فوری معاملے میں اس کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔

جمعہ کے روز جنرل مشرف کے وکیل انور منصور خان نے ایک درخواست جمع کرائی تھی کہ ان کے مؤکل حتی المقدور عدالت کا احترام کرتے ہیں، لیکن خصوصی عدالت کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے مقررہ طریقہ کار کے تحت نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل نوّے کے تحت اس طرح کا نوٹیفکیشن صرف صدر، وزیراعظم اور وفاقی کابینہ پر مشتمل وفاقی حکومت کی جانب سے ہی جاری کیاجاسکتا ہے۔ؕ

مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ”آئین کے تحت فیڈریشن کی ایگزیکٹیو اتھارٹی وفاقی حکومت کے ذریعے صدر کے نام پر استعمال کی جائے گی، جس میں وزیراعظم اور وفاقی وزیر بھی شامل ہوں گے، اس طرح کے اقدام وزیراعظم کے ذریعے کیے جائیں گے، جو فیڈریشن کے چیف ایگزیکٹیو ہوں گے۔“

انہوں نے نشاندہی کی کہ دفاعی فریق کی جانب سے تین مختلف درخواستیں خصوصی عدالت کے اختیارت کے خلاف جمع کرائی گئی تھیں، اور عدالتی اقدار کے تحت یہ عدالت پہلے اختیارات کے معاملے کا فیصلہ کرے پھر بعد میں جنرل مشرف کو طلب کرے۔ استغاثہ کی ٹیم کے سربراہ محمد اکرم شیخ نے اس درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ ریلیف کے حصول کی ایک ایسی ہی درخواست کو اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی مسترد کرچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وکیل صفائی نے آرٹیکل نوّے کا حوالہ دیا ہے، لیکن اس کے سیکشن 2 کو نہیں دیکھا کہ جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت اپنے افعال کی کارکردگی میں وزیراعظم براہ راست یا وفاقی وزراء کے ذریعے اقدام کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئین کی ضروریات کے مطابق یہ نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، یہ خصوصی عدالت قانونی دفعات کے تحت خود اپنے حکم کو تبدیل یا نظرِ ثانی نہیں کرسکتی، لہٰذا سابق صدر کو جاری کیا جانے والے سمن کو روکا نہیں جاسکتا۔

وکیل صفائی منصور خان نے کہا کہ وہ عدالت سے اس کے حکم کو نظرثانی کرنے کی درخواست نہیں کررہے ہیں، بلکہ صرف جمعرات کے لیے جاری کیے گئے حکم کو روکنے کی گزارش کررہے ہیں۔

اس موقع پر ایڈوکیٹ اکرم شیخ نے آہستگی سے کہا کہ یہ وکیل حکم کو عارضی طور پرملتوی کرنا چاہتے ہیں۔

شاید وہ کہنا چاہتے تھے کہ جنرل مشرف بھی غداری کے الزام کا سامنا آئین کو عارضی طور پر معطل کرنے کی وجہ سے کررہے ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ یہ عدالت اس مقدمے کی اہمیت کا شعور رکھتی ہے، جو ملکی تاریخ میں اپنی قسم کا پہلا مقدمہ ہے، جس میں ایک شخص جسے پہلے آئین میں ترمیم کی اجازت دی گئی تھی، اب اس کو معطل کرنے کے الزام کا سامنا کررہا ہے۔

جج نے بعض اخبارات میں کی جانے والی غلط رپورٹنگ پر اپنی جھنجلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کی جانب سے جاری کیے جانے والے احکامات کے برعکس اسٹوریز شایع کررہے ہیں۔

عدالت نے غداری کے مقدمے کی سماعت کو سولہ جنوری تک ملتوی کردیا، جس تاریخ کو جنرل مشرف پر فردِ جرم عائد ہونے کا امکان ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں