شام امن مذاکرات: ایران کو دی گئی دعوت واپس لے لی گئی

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2014
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بائیس جنوری کو سوئٹزرلینڈ کے شہر مونٹروکس میں ہونے والے مذاکرات میں ایران کو شرکت کی دعوت دی تھی اور ایران نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کو شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تو وہ مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے گا۔ —. فوٹو رائٹرز
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بائیس جنوری کو سوئٹزرلینڈ کے شہر مونٹروکس میں ہونے والے مذاکرات میں ایران کو شرکت کی دعوت دی تھی اور ایران نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کو شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تو وہ مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے گا۔ —. فوٹو رائٹرز

نیویارک: اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے شام میں قیامِ امن کے لیے مذاکرات میں شرکت کے لیے ایران کو دی گئی دعوت، شامی حزبِ اختلاف کی اس دھمکی کے بعد واپس لے لی ہے، کہ اگر صدر بشارالاسد کے اہم حمایتی اس کا حصہ بنیں گے تو وہ اس ہفتے منعقد ہونے والی کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان مارٹن نیسركی نے ایران پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ شام میں ایک عارضی حکومت کی منصوبہ بندی کی حمایت کرنے میں ناکام رہا ہے، جو شام میں قیامِ امن کے لیے منعقد کی جانے والی کانفرنس کا بنیادی مطمع نظر ہے ۔

یاد رہے کہ بان کی مون نے بائیس جنوری کو سوئٹزرلینڈ کے شہر مونٹروکس میں ہونے والے مذاکرات میں ایران کو شرکت کی دعوت دی تھی اور ایران نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کو شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تو وہ مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے گا۔ کانفرنس میں ایران کو مدعو کیے جانے پر امریکہ اور مغرب کی حمایت یافتہ شامی حزبِ اختلاف نے انتہائی ناراضگی کا اظہار کیا تھا ۔ ایران، شام کا اہم اتحادی ہے جہاں صدر بشار لاسد کی حکمرانی ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے شہر مونٹروکس میں یہ امن کانفرنس بدھ سے شروع ہونے والی ہے، جو شام میں تین سال سے جاری بحران کو ختم کرنے کی سمت میں اب تک کی سب سے بڑی سفارتی کوشش بتائی جارہی ہے۔

شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور شام کی ایک چوتھائی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے، اس خانہ جنگی کی شروعات بشارالاسد کے خاندان کے چالیس سالہ دورِ اقتدار کے خلاف پُرامن احتجاج سے شروع ہوئی تھی جو مخالف فریقین کو سنی عرب ریاستوں اور شیعہ ایران کی جانب سے اسلحہ اور فنڈز کی فراہمی کے ذریعے اب فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے۔

تازہ ترین صورتحال کے مطابق اب صدر بشار لاسد اور شامی حزب اختلاف کا اہم گروپ شامی قومی اتحاد کے نمائندے مونٹروکس امن کانفرنس میں حصہ لیں گے۔

شام کے مرکزی حزبِ اختلاف کے جلاوطن گروپ قومی اتحاد نے ”جنیوا ٹو“ کے نام سے منعقد ہونے والے مذاکرات میں شرکت سے رضامندی ظاہر کی تھی، لیکن محض اڑتالیس گھنٹوں سے بھی کم وقفے کے بعد ایران کو دی جانے والی دعوت کے خلاف شرکت سے دستبرداری کی دھمکی دے دی تھی۔ شام کے قومی اتحاد کے ترجمان لوئے صافی نے ٹوئیٹر پر اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ ”جب تک کہ بانی کی مون ایران کو دی گئی دعوت کو واپس نہیں لے لیتے، شامی اتحاد جنیوا ٹو مذاکرات میں اپنی شرکت سے دستبرداری کا اعلان کرتا ہے۔“

امریکی دفترِ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”آج کے اس اعلان کے بعد ہماری امیدیں بڑھ گئی ہیں کہ اب تمام فریقین شامی عوام کی مشکلات کے خاتمے اور ایک ایسی سیاسی تبدیلی جس کی ضرورت طویل عرصے سے محسوس کی جارہی ہے، کی جانب یکسوئی کے ساتھ بڑھ سکیں گے۔“

اس سے پہلے واشنگٹن نے بھی اقوامِ متحدہ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایران کو دی گئی دعوت واپس لے لی جائے۔

گوکہ اس وقت تمام توقعات پر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں تاہم بشارالاسد کا کہنا ہے کہ وہ اس سال دوبارہ انتخابات کرواسکتے ہیں، انہوں نے پُرزور طریقے سے ایسے کسی بھی مذاکرات کو مسترد کردیا، جن کا مقصد ان کے اقتدار کا خاتمہ ہو۔

اقوام متحدہ کے ترجمان مارٹن نیسرکی کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے ایران کے اعلٰی حکام کے ساتھ علیحدہ سے بات چیت کے بعد ایران کو مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی حکام نے بان کی مون کو یقین دلایا تھا کہ ”وہ اس کانفرنس کے مقاصد کو سمجھنے اور اس کے مرکزی نکتے کی حمایت کرتے ہیں ۔“

لیکن ایران نے پیر کو ایسے بہت سے بیانات جاری کیے جن کے ذریعے کانفرنس میں اس کی شرکت کو مشروط کرنے کو مسترد کردیاگیا تھا۔

مارٹن نیسرکی کا کہنا تھا کہ ”یہ جاننے کے بعد کہ ایران شام میں قیامِ امن کے لیے منعقد کی جانے والی کانفرنس کے بنیادی نکتے سے خود کو علیحدہ رکھنا چاہتا ہے، یہ طے کیا گیا کہ یہ کانفرنس ایران کے بغیر ہی منعقد ہوگی۔“

اسی حوالے سے سی این این اور برطانوی اخبار گارڈین کی خبروں میں کہا گیا ہے کہ شام کی حکومت نے ہزاروں یرغمالیوں کو پریشان کیا ہے اور ان کی جان لی ہے .

سی این این کے مطابق ، تقریباً پچپن ہزار تصاویر میں لگ بھگ گیارہ ہزار تابوت دکھائے گئے ہیں۔ یہ تصاویر اس فوٹو گرافر نے شام سے بھیجی ہیں جو کسی زمانے میں فوج میں کام کرتے تھے۔

گارڈین کا کہنا ہے کہ یہ تمام معلومات جان بوجھ کر ایسے وقت جاری کی گئی ہیں جب کہ کئی مہینوں کی سفارتی کوششوں کے بعد امن کانفرنس شروع ہونے والی ہے۔

گزشتہ سال مئی میں روسی وزیر خارجہ سرگئی امریکی وزیر خارجہ جان کیری، شام کے دونوں فریقوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے پر متفق ہو گئے تھے ۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل چاہتی ہے کہ شام میں ایک عارضی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے،لیکن شام میں حزب اختلاف کی اہم گروپ شامی قومی اتحاد کا کہنا ہے کہ ایسی کسی حکومت میں صدر بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیٔے۔

دوسری جانب صدر اسد نے پیر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نئی حکومت میں قومی اتحاد کو وزارت ملنے کا امکان مکمل طور حقیقت سے دور ہے ۔

کل بروز پیر خبررساں ادارے اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شام کے صدر بشار الاسد نے واضح کیا کہ اس سال کے بعد دوبارہ انتخابات کا امکان ہے، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی برطرفی مذاکرات کا موضوع نہیں بنائی جاسکتی۔

مغربی رہنما جو پچھلے تین سالوں سے اسد پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں، پچھلے سال سے اسد کے باغیوں حمایت ترک کردی ہے ، اس لیے کہ ان باغیوں کے القاعدہ کے ساتھ روابط میں اضافہ ہوا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں