اسلام آباد: پاکستان کی سپریم کورٹ نے گزشتہ روز پیر کو لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہونے پر سخت نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا کہ عدالتی ہدایات پر عملدرآمد نہ کرنے پر اس کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع ہوسکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ جو تین رکنی بینچ کی سربراہی میں اس مقدمے کی سماعت کررہے ہیں، انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 'ہم لاپتہ افراد کیس کے معاملے میں کوئی نرمی نہیں کریں گے، اور حکومت کے خلاف توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کریں گے'۔

یاد رہے کہ یہ عدالتی بینچ لاپتہ فرد یاسین شاہ کے بڑے بھائی محبت شاہ کی درخواست پر سماعت کررہا ہے۔

اس سے قبل گزشتہ سال دس دسمبر کو عدالت نے اس مقدمے کی روشنی میں فوجی انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے مالاکنڈ کے حراستی مرکز سے 35 لاپتہ افراد کی بازیابی کروائے، لیکن ان میں سے صرف سات افراد کو عدالت کے سامنے پیش کیا جاسکا۔

عدالت نے اشارہ دیا کہ وہ حکومت سے پوچھیں گے کہ آیا وہ انٹیلیجنس ایجنسیوں سے اعلیٰ درجے پر ہے یا ان کے ماتحت ہے۔

یاد رہے کہ دس جنوری کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں عدالت نے وزیراعظم کے سیکریٹری جاوید اسلم کو حکم دیا تھا کہ وہ 35 لاپتہ افراد کی بازیابی کے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلق وزیراعظم کو آگاہ کریں۔

اسی طرح عدالت نے صوبہ خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری محمد شہزاد ارباب کو بھی حکم جاری کیا تھا کہ وہ اس صورتحال سے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو آگاہ کریں۔

سماعت کے موقع پر حالیہ بنوں اور پھر راولپنڈی میں بم دھماکوں کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے اسے معاشرے میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت قرار دیا اور ان واقعات پر افسوس کا اظہار کیا۔

اس دوران صوبہ خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ زاہد قریشی نے عدالت کو بتایا کہ جوابات تیار ہیں لیکن وقت کی کمی کے باعث عدالت میں جمع نہیں کروائے جاسکتے۔

اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ اس عہدے پر حال ہی میں تعینات ہوئے ہیں، عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ وہ پوری کوشش کریں گے، لیکن گزشتہ ہفتے جب سے انہوں نے اپنا چارج سنبھالا وہ سماعت کو مختصر عرصے کے لیے ملتوی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

تاہم انہوں نے عدالت کو دیا دلایا کہ اس سلسلے میں وزارتِ دفاع ایک جواب جمع کروا چکی ہے۔

بعد میں کیس کی سماعت کو 22 جنوری یعنی بدھ تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

وزارتِ دفاع کے جواب کے بارے میں عدالت کا کہنا تھا کہ اس میں کچھ نئی بات نہیں اور وہی بات کی گئی ہے جو وزارتِ دفاع ماضی میں بھی کرتی آئی ہے۔

عدالت نے کہا کہ حکومت اصل میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے معاملے میں سست رفتاری سے کام کررہی ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ' ہم مشکلات کو سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ ہم اپنی تاریخ کے دشوار ترین دور سے گزرہے ہیں، اور اس معاملے کی نزاکت کے بارے میں بھی جانتے ہیں، لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پر ایک واضح مؤقف لے اور عوامی سطح پر اعلان کرے کہ یہ لاپتہ افراد پاکستانی شہری ہیں یا نہیں اور کیا یہ تحفظ کے قانون کے حقدار نہیں ہیں'۔

عدالت نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اس معاملے کے حل میں سنجیدہ نہیں ہے۔

سماعت کے موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ امکان ہے 27 جنوری کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں داخلہ سیکیورٹی کے ایک نیا قانون پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے عدالت کو یاد دلایا کہ گزشتہ سال جولائی سے آٹھ سو لاپتہ افراد بازیاب ہوچکے ہیں اور ان کی حراستی مدت کے دوران کسی کو بھی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے نہیں اٹھایا تھا۔

اس ہی دوران سپریم کورٹ کے ایک اور بینچ جس کی سربراہی جسٹس ناصرالمک کررہے ہیں، نے ایک اور لاپتہ شخص حماد امیر کے مقدمے کی سماعت کی اور وزارتِ دفاع کے لیگل ڈائریکٹر کو طلب کیا ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا جو حراست میں کیے گئے لاپتہ افراد کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔

واضح رہے کہ حماد امیر کو 17 نومبر 2009ء کو ویسٹریج میں واقع ان کے گھر سے اٹھایا تھا اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں کرنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق انہیں اسلام آباد کے آئی 3-9 میں واقع ایک محفوظ گھر میں رکھا ہوا ہے۔

لیکن سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ آئی ایس آئی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ حماد امیر ان کے حراست میں ہے، ملٹری انٹیلیجنس سے مزید دو ہفتوں میں اس معاملے اور حماد امیر کے حراستی مرکز کے بارے میں جواب جمع کروانے کے لیے کہا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں