شام میں ہونے والے تشدد کی رپورٹ انتہائی خطرناک ہے: اقوامِ متحدہ

22 جنوری 2014
حلب شہر کے ضلع المیسار میں شام کے باغی گروپوں کے تحت اس علاقے پر بشارالاسد کی وفادار فوج نے فضائی حملہ کیا، جس سے عام لوگوں کے مکانات بھی تباہ ہوگئے، شہری تباہ شدہ مکانات سے اپنا بچا کھچا سامان نکال کر لے جارہے ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز
حلب شہر کے ضلع المیسار میں شام کے باغی گروپوں کے تحت اس علاقے پر بشارالاسد کی وفادار فوج نے فضائی حملہ کیا، جس سے عام لوگوں کے مکانات بھی تباہ ہوگئے، شہری تباہ شدہ مکانات سے اپنا بچا کھچا سامان نکال کر لے جارہے ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز
شام کے باغی گروپوں کے مطابق بشارالاسد کی وفادار فوج کے فضائی حملے کے بعد حلب شہر کے بس اڈے سے دھواں اُٹھ رہا ہے۔ —. فوٹو رائٹرز
شام کے باغی گروپوں کے مطابق بشارالاسد کی وفادار فوج کے فضائی حملے کے بعد حلب شہر کے بس اڈے سے دھواں اُٹھ رہا ہے۔ —. فوٹو رائٹرز
منگل اکیس جنوری کو شام کے شہر حلب میں ایک بس اڈے پر کھڑی بسوں میں آگ لگی ہوئی ہے، شام کے باغی گروپوں کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کی وفادار فوج کی جانب سے یہاں فضائی حملہ کیا گیا تھا۔ —. فوٹو رائٹرز
منگل اکیس جنوری کو شام کے شہر حلب میں ایک بس اڈے پر کھڑی بسوں میں آگ لگی ہوئی ہے، شام کے باغی گروپوں کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کی وفادار فوج کی جانب سے یہاں فضائی حملہ کیا گیا تھا۔ —. فوٹو رائٹرز

جنیوا: اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کل اکیس جنوری بروز منگل کو ایک رپورٹ پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا، جس میں شامی حکومت پر وسیع پیمانے پر تشدد اور ہلاکتوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے دفتر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس الزام کی لازمی طور پر تفتیش کی جانی چاہیٔے۔

عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کو بھیجی گئی ایک ای میل میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ ناوی پلے کے ترجمان روپرٹ کول ولے نے کہا ”یہ رپورٹ انتہائی خطرناک ہے، اور زیرحراست قیدیوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا الزام اگر ثابت ہوگیا تو یہ واقعی دہشت انگیز بات ہوگی۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”ان سنگین الزامات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اس کی مزید تفتیش کرنا اب نہایت ضروری ہوگیا ہے۔“

امریکا نے کہا ہے کہ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کو ان کے عہدے سے برطرف کرنا کس قدر ضروری ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کی ایک ترجمان میری ہارف کا کہنا ہے ”ہم فطری طور پر اس رپورٹ کی انتہائی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ یہ تصاویر انتہائی خوفناک ہیں۔ یہ سنگین بین الاقوامی جرم کا معاملہ ہو سکتا ہے۔ شام میں کیے جانے والے ان جرائم کے ذمہ دار کا تعین کیا جانا چاہیٔے۔

اس سے پہلے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ بھی اس رپورٹ پر ایسے ہی خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔

دوسری جانب بشارالاسد کی حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ صداقت پر مبنی نہیں ہے کیونکہ اسے قطر نے تیار کرایا ہے، جو شام میں باغی گروپوں کو مالی امداد فراہم کررہا ہے۔

یاد رہے کہ یہ رپورٹ شام کے بحران پر سوئٹزرلینڈ میں شروع ہونے والی امن کانفرنس سے صرف ایک دن پہلے منظرعام پر آئی ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے شہر مونٹروکس میں ہونے والی اس کانفرنس کے لیے مختلف ممالک کے نمائندےپہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔

اس کانفرنس کا پہلا سیشن مونٹروکس میں ہوگا، پھر دو دن بعد اس کا دوسرا سیشن جنيوا میں منعقد ہوگا۔ شام میں جاری بحران کے حل کے لیے اس کانفرنس کو اب تک کی سب سے بڑی سفارتی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔

جنگی جرائم کے معاملات سے متعلق تین سابق پراسیکیوٹرز کی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ شام میں بغاوت شروع ہونے کے بعد سے تقریباً گیارہ ہزار قیدیوں کو تشدد کے بعدہلاک کیا گیا۔ انوسٹی گیٹرز نے ہزاروں مردہ قیدیوں کی تصاویر کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ یہ تصاویر شام میں فوجی پولیس کے ایک فوٹوگرافرز نے فراہم کی تھیں، جنہوں نے اب باغی گروپ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔فوٹوگرافر نے گیارہ ہزار مردہ قیدیوں کی تقریباً پچپن ہزار تصاویر فراہم کی ہیں، جن میں2011ء کے دوران بغاوت شروع ہونے سے لے کر گزشتہ سال اگست تک کی تصاویر شامل ہیں۔

یاد رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تصاویر زیادہ تر ایسی لاشوں کی حالت انتہائی خراب ہے اور انہیں بُری طرح تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک گیا ہے یا پھر گلا گھوٹ كر۔

اس رپورٹ کے ایک مصنف پروفیسر سر جیفرے نائس نے بی بی سی کے پروگرام نیوزڈے میں کہا کہ جس وسیع پیمانے پر مسلسل لوگوں کو مارا گیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ اس میں حکومت بھی شامل تھی۔

فورنسک پتھالوجسٹ اسٹیورٹ ہیملٹن نے بھی ثبوتوں کی جانچ پڑتال کی اور پروگرام نیوزڈے میں کہا کہ مرنے والوں کی تصویریں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھوک سے بے حال تھے۔ انہوں نے کہا کہ کئی لاشوں کی تصاویر کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ انہیں باندھ کر رکھا گیا تھا یا وہ قید میں تھے۔

شام کی حکومت نے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن 34 ماہ سے جاری اس خانہ جنگی کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات سے انکار کیا ہے۔

دوسری جانب شام میں صورتحال انتہائی بدتر ہوچکی ہے، ابھی چند روز قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا تھا کہ شام کی نصف آبادی یعنی تقریباً 93 لاکھ افراد کو فوری طور پر مدد کی ضرورت ہے۔ یہ بات انہوں نے کویت میں امداد دینے والے ممالک کے ایک اجلاس میں کہی تھی۔

اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے شام میں جاری خانہ جنگی سے متاثرین کی مدد کے لیے ساڑھے چھ ارب ڈالرز کی رقم کا مطالبہ کیا۔ اقوامِ متحدہ کی تاریخ میں کسی جنگی بحران سے نمٹنے کے لیے یہ مدد کی سب سے بڑی اپیل تھی۔

منگل پندرہ جنوری کو کی جانے والی اس اپیل کے اگلے دن بدھ سولہ جنوری تک مختلف ملکوں نے دو ارب چالیس کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ان میں کویت نے پچاس کروڑ ڈالر اور امریکہ نے تیس کروڑ آٹھ لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔

کویت میں منعقدہ مذکورہ کانفرنس میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا تھا کہ شام میں جاری خانہ جنگی نے ملک کو کئی دہائی پیچھے دھکیل دیا ہے اور خاص طور پر اس خطے میں واقع ممالک اور بالعموم پوری دنیا کے ملکوں پر یہ لازم ہے کہ وہ شام کے بدحال لوگوں کی مدد کریں۔

شام میں اب تک تقریبا 65 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ 23 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے خود کو شام کے باہر پناہ گزین کے طور پر اندراج کروایا ہے۔ ان میں سے کئی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ شام میں جنگ سے متاثر شہروں سے فاقہ کشی کی خبریں مل رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق سال 2011ء میں شروع ہونے والی اس خانہ جنگی میں اب تک ایک لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اسے 2014ء میں شام کے لیے ساڑھے چھ ارب ڈالر کی مدد درکار ہے، جس میں سے تقریباً ایک تہائی یعنی دو ارب 40 لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا جا چکا ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شام میں امدادی کام کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ان تنظیموں نے حکومت پر کچھ علاقوں میں جان بوجھ کر ان کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں