مجرمانہ خاموشی

22 جنوری 2014
بیشتر ملکوں سے پولیو کا خاتمہ ہوگیا ہے، پاکستان میں پولیو ورکروں پر حملے جاری ہیں اور سیاسی اشرافیہ چُپ سادھے بیٹھی ہے۔ —. فائل فوٹو
بیشتر ملکوں سے پولیو کا خاتمہ ہوگیا ہے، پاکستان میں پولیو ورکروں پر حملے جاری ہیں اور سیاسی اشرافیہ چُپ سادھے بیٹھی ہے۔ —. فائل فوٹو

پاکستان کی بہت سے المیوں کے ساتھ ایک قابل ذکر ان چیزوں کو بھی تیزی کے ساتھ متنازعہ بنانے کی اس کی صلاحیت ہے، جنہیں متنازعہ بنانے قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

انسداد پولیو مہم کو بہت بُری طرح نشانہ بنایا جارہا ہے، جو ناقابل بیان ہےؕ۔ ہم اپنے بچوں کو مہلک بیماریوں سے محفوظ بنانے کے حوالے سے دو رائے کیسے رکھ سکتے ہیں، اور یہ قابل علاج ہے اور اس سیارے کے بہت بڑے حصے میں اس پر قابو پالیا گیا ہے۔

یہ صورتحال غیر معمولی ہے۔ ایک جانب حقیت یہ ہے کہ یہ بیماری نئے سرے سے پھوٹ رہی ہے۔ کراچی اور پنجاب کے بعض علاقوں میں یہ مسئلہ سامنے آرہا ہے، اگرچہ اس سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ مسئلہ چند علاقوں میں موجود ہے۔ اس وائرس کا دباؤ جس طرح پاکستان میں نمایاں ہے، اسی طرح مصر، چین اور اسرائیل میں بھی پریشانی کا باعث تھا۔جبکہ پاکستان میں گمراہ کن اطلاعات اور شرانگیزی کے ساتھ جاری انسدادِ پولیو مہم کے حوالے سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ایک بُرا تاثر بن چکا ہے۔ کچھ مثالوں میں قبائلی جرگوں نے ریاست سے پولیو کے قطرے پلانے کے بدلے میں معاوضہ وصول کرنے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر کہا گیا کہ قبائلی علاقوں میں پولیو ورکروں کی کسی ٹیم کو داخل ہونے نہیں دیا جائے گا، جب تک کہ ڈرون حملے بند نہیں ہوجاتے۔

ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ طالبان نے اپنے ماتحت علاقوں میں پولیو ویکسین پلانے پر پابندی لگادی ہے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ مولانا فضل اللہ جو اس وقت تحریک طالبان کے سربراہ ہیں، جب وہ اپنا غیرقانونی ریڈیو چینل چلارہے تھے اور ملّا ریڈیو کے نام سے جانے جاتے تھے، انہوں نے اس سازشی نظریے بہت بڑے پیمانے پر فروغ دیا تھا کہ پولیو ویکسین کے قطرے نقصان دہ ہیں۔

کئی سالوں سے پولیو ویکسین پلانے کی کوششوں کو غیرفعال کرنے کے لیے اس کے خلاف مزاحمت جارحانہ ہوتی جارہی ہے۔حالیہ مہینوں کے دوران پولیو ورکروں پر براہ راست حملوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، جن میں سے اکثر ہلاکت خیز ثابت ہوئے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ کراچی کے علاقے قیوم آباد میں پولیو ورکروں کی ٹیم پر موٹرسائیکل پر سوار مسلح افراد کی فائرنگ سے تین افراد ہلاک اور چار زخمی ہوگئے تھے۔ یہ ٹیم صوبائی محکمۂ صحت کے حکام کی جانب سے شروع کی گئی انسدادِ پولیو مہم کے دوسرے دن میں گھرگھر پولیو کے قطرے پلانے کے کام میں مصروف تھے۔

لہٰذا پاکستان میں پولیو کا مسئلہ موجود ہے، اور اس میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف کی جانب سے ایک رپورٹ پاکستان کی حکومت کو ارسال کی گئی ہے، جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ وبائی بیماری کسی دھماکے کی صورت میں سامنے آسکتی ہے۔

اس مسئلے کے حوالے سے عالمی طور پر موجود پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو سال پہلے پولیو کے خاتمے کے لیے عالمی خودمختار بورڈ نے پولیو زدہ ممالک کے لوگوں کے سفر پرپابندی کی سفارش کی تھی۔ پچھلے ہی مہینے انڈیا نے جنوری کے آخر تک اسی طرح کی پابندی کے اطلاق کا اعلان کیا تھا۔

ایسے حالات میں پاکستان کیا کررہا ہے؟ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ کبھی کبھی اچھے ارادوں کا اظہار کیا جاتا ہے اور نئے سرے سے کوششیں شروع کرنے کا عزم ظاہر کیا جاتا ہے۔

پولیو ٹیم کو سیکیورٹی فراہم کردی گئی تھی، لیکن چند ہفتے پہلے ہی کراچی میں موقع پر اس سے انکار بھی کردیا گیا تھا۔ کسی بھی معاملے میں پولیس یا دیگر سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی ہمیشہ بچاؤ کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہوسکی ہے۔

اب ریاست کیا کرے؟ اس سوال کا جواب ریاست کا نظم و نسق چلانے والوں کے لیے تلاش کرنا سخت مشکل ہے، سیاسی رہنما یا تو چُپ سادھے رہتے ہیں یا پھر توڑ مروڑ کر بدخوئی کے ساتھ ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر عمران خان نے جوانسدادِ پولیو مہم کو ترجیح دینے کے بارے میں لمبے چوڑے عہد وپیمان کیے تھے وہ محض چند ہفتے ہی برقرار رہ سکے جب کیمروں کی فلیش لائٹس بند ہوگئیں تو وہ دوسرے معاملات کی جانب مُڑ گئے، کیا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پولیو مہم کو ترجیح دینا ان کا واحد مقصد تھا؟

وزیراعظم نواز شریف اور دارالعلوم حقانیہ کے مولانا سمیع الحق سے لیے کر آصفہ بھٹو زرداری تک دیگر سیاستدان اور رہنماؤں نے بھی اسی طرح شہہ سرخیوں کی زینت بننے کی کوشش کی اور پھر خاموشی سے اس معاملے کو ایک طرف رکھ دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں