شام کے سرکاری و باغی رہنما پہلی مرتبہ براہ راست بات چیت پر آمادہ

25 جنوری 2014
شام کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر لخدر براہیمی نے کہا کہ امید ہے کہ دونوں فریقین سمجھ گئے ہیں کہ کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی
شام کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر لخدر براہیمی نے کہا کہ امید ہے کہ دونوں فریقین سمجھ گئے ہیں کہ کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی

جنیوا: شامی حکومت اور حزب مخالف کے نمائندے ہفتہ کو شام قیام امن مذاکرات کے لیے جنیوا میں ہونے والی کانفرنس کے دوران ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ کراجلاس میں شرکت کرنے جارہے ہیں۔

شام کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر لخدر براہیمی نے یہ اطلاع دیتے ہوئے میڈیا کے نمائندوں سے کہا کہ اُنہیں امید ہے کہ دونوں فریقین یہ جان چکے ہیں کہ کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور اس کانفرنس کا مقصد شام کو بچانا ہے۔

لخدر براہیمی نے یہ اعلان دونوں فریقین کے رہنماؤں سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کے بعد کیا۔ دونوں فریقوں کو امن کانفرنس میں آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت پر رضامند کرنے کے لئے لخدر براہیمی نے مسلسل تین دن تک کوشش کی تھی۔ شامی حزب اختلاف کی جماعتوں کے ایک ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ اس دوران سرکاری نمائندوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کی جائے گی۔

مذاکرات کے دوران تمام افراد ایک ہی کمرے بیٹھیں گے لیکن حزبِ مخالف کے نمائندے لخدربراہیمی سے ہی بات کریں گے۔ براهمی دونوں فریقین کے لیےثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لخدر براہیمی نے کہا ”ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہونے جارہا ہے، وہ بہت مشکل اور پیچیدہ ہے۔ ہمیں توقع نہیں ہے کہ یہ آسان ہوگا۔“

امن مذاکرات میں پیش رفت کی سست رفتاری کے حوالے سے دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

جنیوا میں موجود عالمی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اب امن معاہدے کی جگہ مقامی جنگ بندی کی توقع کر رہے ہیں۔

جمعہ کو شام کے سرکاری وفد نے مبینہ طور پر اعلان کیا تھا کہ اگر امن کانفرنس کے ہفتہ کے اجلاس میں سنگین مسائل کو شامل نہیں کیا گیا تو وہ مذاکرات کا بائیکاٹ کردیں گے۔

یاد رہے کہ شام میں 2011ء سے جاری خانہ جنگی میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

اس خانہ جنگی کی وجہ سے تقریباً پچانوے لاکھ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر پناہ گزین کے طور پر پڑوسی ممالک کے سرحدی علاقوں میں خیموں میں زندگی بسر کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ خانہ جنگی شام کے لیے ہی نہیں اس کے پڑوسی ممالک کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔

یہ امن مذاکرات سوئٹزرلینڈ کے شہر مونٹروکس میں بدھ کو شروع ہوئی تھی۔ توقع تھی کہ جمعہ چوبیس جنوری کو دونوں فریق اجلاس میں ایک دوسرےکے آمنے سامنے بیٹھ کر مذاکرات کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔

جمعہ کی صبح لخدر براہیمی نے شامی حکومت کے نمائندوں سے اور دوپہر کے بعد حزب اختلاف کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے اعلان کیا کہ دونوں طرف ایک ہی اجلاس کے دوران آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت پر رضامند ہو گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں