اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت نے ہندوستان کے ساتھ حالیہ تجارتی مذاکرات میں اگلے مہینے سے دہلی کو پشندیدہ ترین قوم کا درجہ دینے کی حریت انگریز پیشکش کو مشروط کردیا۔ پاکستان کی کوشش ہےکہ اس کے 250 سے 300 آئٹمز پر کم سے کم ڈیوٹی عائد کی جائے۔

وزارتِ تجارت میں ایک اعلیٰ سطح کے عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ مارکٹ تک رسائی حاصل کرنے کی یقین دہانی کے بعد ایک قانونی ریگولیٹری حکم کے ذریعے ہندوستان کو پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ 'موسٹ فوریٹ نیشن' کا مطلب ہے کہ ایک ہزار دو سو نو آئٹمز کی منفی فہرست کو ختم کیا جائے۔

خیال رہے کہ 2012ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ہندوستانی مصنوعات کے لیے اپنی مارکیٹ کو کھول دیا تھا، لیکن گزشتہ سال مئی میں عام انتخابات کی وجہ سے یہ معاہدہ نتجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا تھا۔

اب جب ہندوستان کے عام انتخابات اسی سال مئی میں ہونے جارہے ہیں تو مسلم لیگ نون کی حکومت کے خیال میں یہ ایک مناسب وقت ہے جب ہندوستان کی موجودہ کانگریس حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کیا جائے۔

نئی دہلی اس معاہدے کے لیے ایک درست آپشن ہوسکتا ہے، کیونکہ اسلام آباد نے ہندوستان کو مکمل طور پر 'موسٹ فوریٹ نیشن' کا درجہ دینے کے 'روڈ میپ' کو تین سال سے کم کرے 45 دن کردیا ہے جو موجودہ کانگریس کی حکومت کے لیے ایک بڑی سیاسی رعیایت ہے۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں اب کسی بھی قسم کی پیش رفت کا دارومدار نئی دہیلی کی جانب سے اسلاآباد کی پیشکش کے ردِ عمل پر ہے۔

وفاقی وزیر برائے تجارت خُرم دستگیر خان نے ڈان کو بتایا کہ تجارتی مذاکرات میں ہم نے اگلے مہینے سے ہندوستان کو غیر امتیازی مارکیٹ تک رسائی دینے پر اتفاق کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ غیر امتیازی مارکٹ تک رسائی دینے کی تجویز 'موسٹ فوریٹ نیشن' کے طور پر ایک نیا نام تھا جس میں سیاسی مداخلت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔

خُرم دستگیر کا کہنا تھا کہ یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب اگر ہندوستان پاکستانی اشیاء کی شناخت کے لیے مارکیٹ تک رسائی فراہم کرے گا۔

یہ آئٹمز جنوبی ایشیا فری ٹریڈ ایریا کی فہرست میں ہیں۔ ٹیکسٹائل اور کیمیکل وہ بڑی مصنوعات ہیں جو اس وقت ہندستان کی طرف سے بھاری ڈیوٹی کے لیے موضوع ترین ہیں۔

پاکستان یہ فہرست ہندوستانی حکومت کو پیش کرچکا ہے۔

اگرچہ آئی ایم ایف بھی پاکستان سے ہندوستان کے درمیان تجارتی لین دین بحال کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے، لیکن مسلم لیگ نون کی حکومت کے ہندوستان کے لیے اپنے رویے میں جو تبدیلی آئی ہے اس کی ایک وجہ علاقائی عوامل ہیں۔

واضح رہے کہ صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے گزشتہ سال دسمبر میں نئی دہلی اور انڈین پنجاب کا دورے میں طویل عرصے سے زیرالتوا تجارتی معاہدے کی ایک راہ ہموار کی تھی۔

اس دورے کے دوران ہندوستانی وزیراعظم منموہن سنگھ نے شہباز شریف کی جانب سے دو طرفہ تجارتی سرحد کی بحالی کے ٹائم لائن کو بنانے کے لیے ایک خصوصی اجلاس کی تجویز پر اتفاق کیا تھا۔

حال ہی میں نئی دہلی میں ہونے والا اجلاس جامع مذاکرات کا حصہ نہیں تھا، کیونکہ ہندوستان نے پاکستان کو دوٹوک انداز میں واضح کیا تھا کہ آزاد تجارت پر کوئی اور دور منعقد نہیں ہوگا۔

یہ اجلاس آزاد تجارت پر ماضی میں طے پانے والے ٹائم لائن پر عملدرآمد کرنے کے سلسلہ کی ایک کڑی تھا، کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات ابھی بھی معطل ہیں۔

اس جلاس کی ہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے نئی دہلی میں ہونے والی ملاقات سے ایک روز قبل ہی خرم دستگیر خان کو نہ صرف وفاقی وزیر کا درجہ دیا، بلکہ انہیں خصوصی پلان پر ہندوستان بھی بھیج دیا۔

سترہ جنوری کو ہندوستان کے دورے کے دوران اپنے ہم منصب آنند شرما کے ساتھ ملاقات سے قبل خرم دستگیر خان کو وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے ایک واضح مینڈیٹ حاصل ہوگیا تھا جس میں انہوں نے اس بات کی یقنین دہانی کروائی تھی کہ ہندوستان کو جلد ہی 'موسٹ فوریٹ نیشن' کا درجہ مل جائے گا۔

ان کا یہ دورہ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کے گزشتہ سال نومبر میں کیے گئے ہندوستانی دورے کا ایک 'فلو اپ' تھا۔

دستاویزات اور متعلقلہ لوگوں کے ساتھ انٹرویوز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تجارتی معاہدے سے صرف ایک پنجاب سے دوسرے پنجاب تک ٹریڈ میں اضافہ ہوگا۔

واہگہ بارڈر کو 24 گھنٹے کھولنے سے تجارت کو بندرگاہ اور زمینی راستوں کی جانب موڑ دیا جائے گا، تاہم حکومت ہندوستان کی طرف سے تمام اشیاء کو واہگہ بارڈر کے راستے درآمد کرنے پر بھی رضامند ہے۔

ان دو عوامل سے زیادہ تر تجارت کراچی سے پنجاب کے راستے کی جائے گی۔

وزیرِ تجارت خرم دستگیر خان کا کہنا ہے کہ واہگہ بارڈر کو اگلے مہینے کے آخر تک ایک 'خشک بندرگاہ' قرار دیے دیا جائے گا جس کے نتیجے میں یہاں سے کانٹینرز کے ذریعے سامان کی نقل و حمل شروع ہوجائے گی جس کے لیے ہم تیار ہیں۔

دوسری جانب سندھ حکومت وفاقی حکومت سے کئی بار واہگہ اٹاری کی طرز کے کھوکھرا پار بارڈر سے تجارت کی اجازت کا کہہ چکی ہے، تاہم وفاقی حکومت پاکستانی علاقے میں ترقیاتی کام شروع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

سندھ اور ہندوستانی راجستان کے درمیان تجارت کے لیے کھوکھراپار مناباؤ اسٹیشن کی بحالی مستقبل میں روشن نہیں نظر آتی۔ لیکن وزیرِ تجارت خرم دستگیر خان کہتے ہیں کہ حکومت ہندوستان کے ساتھ تجارت کے سلسلہ میں کھوکھراپار مناباؤ سمیت متعدد اہم پوئنٹس پر بندرگاہ کے قیام کا ارادہ رکھتی ہے۔

یاد رہے کہ 1965ء میں پاکستان اور ہندوستان دوطرفہ تجارت کے لیے گیارہ زمینی راستے استعمال کرتے تھے، جن میں سے آٹھ پنجاب اور تین صوبہ سندھ کے شامل ہیں۔

لاہور میں ایک رئیل اسٹیٹ ڈیلر نے ڈان کو بتایا کہ واہگہ اٹاری کے راستے تجارت کے شروع ہونے سے زمین کے مالکان جو رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کرچکے ہیں، ان کو یقینی طور فائدہ حاصل ہوگا۔

خرم دستگیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت پاکستانی بینکوں کو ہندوستان میں اپنی برانچ کھولنے کی اجازات دینے پر رضا مند ہے جس کے لیے ان بینکوں کو ہندوستان کے ریزرو بینکز کی شرائط کو پورا کرنا پڑے گا۔

وزارتِ کامرس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ نیشنل بینک، یونائٹڈ بینک اور مسلم کمرشل بینک کو ہندوستان میں اپنی برانچ کھولنے کی اجازت مل چکی ہے۔

اس ہی طرح ہندوستان کی طرف، اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور بینک آف انڈیا پاکستان میں اپنی برانچوں کو آپریٹ کریں گے۔

وزیرِ تجارت کے مطابق بینک ان برانچوں کو کھولنے کے لیے درخواست دائر کرسکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

انور امجد Jan 26, 2014 11:07am
پاکستان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کا وہی حشر ہو جائے گا جو پاکستان کی فلم انڈسٹری کا ہوا ہے۔ اکونومیز آف سکیل کے مطابق پاکستان کی چھوٹی صنعت پیداواری لاگت میں کبھی بھی بھارت کی بڑی صنعت کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اور ختم ہوجائے گی۔
Israr Muhammad Jan 26, 2014 09:49pm
یہ‏ ‏دو‏ ‏ملکوں‏ ‏کے‏ ‏عوام‏‏ ‏کی‏ ‏ترقی‏ ‏اور‏ ‏بہتری‏ ‏کیلئے‏ ‏عظیم‏‏ ‏قدم‏ ‏ھے‏ ‏ھم‏ ‏اسکی‏ ‏تائید‏ ‏‏کرتے‏ ‏ھیں‏ ‏اور‏ ‏حکومت‏ ‏کو‏ ‏اس‏ ‏پر‏ ‏مبارکباد‏ ‏پیش‏ ‏کرتے‏ ‏ھیں‏ ‏اس‏ ‏سلسلے‏ ‏میں‏ ‏گسی‏ ‏قسم‏ ‏کی‏ ‏دباؤ یا‏ ‏مصلحت‏ ‏سے‏ ‏نہیں‏ ‏ڈرنا‏ ‏چاھیے‏
Israr Muhammad Jan 26, 2014 09:53pm
یہ‏ ‏دو‏ ‏ملکوں‏ ‏کے‏ ‏عوام‏‏ ‏کی‏ ‏ترقی‏ ‏اور‏ ‏بہتری‏ ‏کیلئے‏ ‏عظیم‏‏ ‏قدم‏ ‏ھے‏ ‏ھم‏ ‏اسکی‏ ‏تائید‏ ‏‏کرتے‏ ‏ھیں‏ ‏اور‏ ‏حکومت‏ ‏کو‏ ‏اس‏ ‏پر‏ ‏مبارکباد‏ ‏پیش‏ ‏کرتے‏ ‏ھیں‏ ‏اس‏ ‏سلسلے‏ ‏میں‏ ‏گسی‏ ‏قسم‏ ‏کی‏ ‏دباؤ یا‏ ‏مصلحت‏ ‏سے‏ ‏نہیں‏ ‏ڈرنا‏ ‏چاھیے‏ تمام‏ ‏سیاسی‏ ‏جماعت‏ ‏سے‏ ‏اپیل‏ ‏ھے‏ ‏اس‏ ‏وقت‏ ‏‏"عظیم‏ ‏تر‏"‏‏ ‏کو‏‏ ‏نہ‏ ‏لائيں‏ ‏ ‏‏