نامکمل ترقیاتی اہداف

29 جنوری 2014
اقوامِ متحدہ کےعالمی ترقیاتی اہداف حاصل کرنے میں پاکستان کی کمزور کارکردگی، حصول ممکن نظر نہیں آتا۔ فائل فوٹو۔۔۔۔۔ا
اقوامِ متحدہ کےعالمی ترقیاتی اہداف حاصل کرنے میں پاکستان کی کمزور کارکردگی، حصول ممکن نظر نہیں آتا۔ فائل فوٹو۔۔۔۔۔ا

اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے ریجنل ڈائریکٹر ہاؤلیانگ چو کے اس تجزیے سے متفق ہیں کہ قومی سطح پر، ملک کو درپیش سماجی و معاشی بحرانوں سے نکالنے کی خاطر، پاکستان میں 'جلدی کا احساس' موجود نہیں۔ اقوام متحدہ کے اہلکار نے میلینئیم ڈویلپمنٹ گولز یا نئے ہزاریے کے ترقیاتی اہداف پر کارکردگی سے متعلق 'ڈان' سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی

اس طرح کے تلخ مشاہدات کو ہضم کرنے کے بجائے ان پر افسردہ ہونے اور مسائل کے فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بے تکلفی سے کہیں تو سماجی و معاشی ترقی کے میدان میں ہماری کارکردگی شرمندگی سے کچھ کم نہیں۔

میلینئیم ڈویلپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) کو اگر معیار بنا کر کہیں تو، بطورمثال، ہمارے کتنے ایسے ارکانِ قومی اسمبلی ہوں گے جو ان آٹھ میں سے کسی ایک ہدف کا نام بھی جانتے ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاست، سیاستدان، سول سوسائٹی کا بڑا حصہ اور عام شہری آبادی بھی، سادہ لفظوں میں کہیں تو انسانی ترقی سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔

ہم ایسی صورت میں ہرگز نہیں کہ سن دو ہزار پندرہ تک ان ترقیاتی اہداف کو حاصل کرسکیں۔ اگرچہ سن دو ہزار سے عالمی برادری اہداف کے حصول پر زور دیے چلی جارہی ہے تاہم پاکستان نے اس ضمن میں نہایت معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔

مثال کے طور، یو این ڈی پی کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ایم ڈی جیز کے پچیس اشاریوں سے دور اور صرف نو اشاریوں کے حصول کی راہ پر ہے۔ اگرچہ دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب کی صورتِ حال نسبتاً بہتر ہے تاہم اس کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ سب سے بڑی آبادی والا صوبہ بھی زیادہ تر اشاریوں تک پہنچ سے کافی دور ہے۔

قومی سطح پر سب سے پسماندہ بلوچستان سے متعلق اعداد و شمار یہاں بھی افسوسناک ہیں۔ اہداف کے مطابق شرح بیس فیصد تک ہونے کے بجائے، صوبے میں تینتالیس فیصد بچے عمر کے لحاظ سے کم وزنی کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں زچہ و بچہ کی اموات کی شرح بھی یکساں طور پر افسوسناک ہے۔

بہرحال، یہ ترجیحات کا معاملہ ہے۔ ہماری ریاست اور معاشرے کے لیے یہ اہداف بھوک کے خاتمے، عالمی ابتدائی تعلیم یا ماحولیاتی پائیداری سے متعلق ہیں تاہم ایسے مقاصد، اب خود پر ہماری توجہ مرکوز کرانے کے قابل نہیں رہے۔

یہ حیران کُن ہے کہ ہمارے سرکاری وفود ہر سال ایم ڈی جیز سے متعلق ہونے والی عالمی کانفرنس میں شرکت کی خاطر باقاعدگی سے غیر ملکی دورے کرتے ہیں تاہم اس کے باوجود، یہاں ریاست کے پاس ان اہداف پر پیشرفت اور اپنی کارکردگی دکھانے کے واسطے کچھ زیادہ نہیں ہے۔

ہمارے سماج کا مزاج خیراتی ہے، ہم مچھلی مانگنے والے کو چھڑی کانٹا پکڑا کر دریا کا رخ کرنا نہیں سکھاتے بلکہ ہاتھ بڑھا کر مچھلی خیرات کردیتے ہیں اور یہ بھی ایک غیر مساویانہ قدم ہے۔ اپنے مقابلے میں دیکھیں تو ایم ڈی جیز کے حصول میں سری لنکا اور بنگلہ دیش نے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس سے پہلے کہ بھوک و افلاس، ناخواندگی اور امراض مل کر حملہ آور ہوں اور ریاست کو مفلوج بنادیں، کچھ کرنے کے لیے اب بھی وقت باقی ہے۔ سماجی و معاشی انصاف کے حصول کی خاطر ہمیں خود اپنی سمت کا ازسرِ نو تعین کرنا ہوگا۔

ہمیں دوسروں کی یہ سچ بات سننے میں کڑوی لگ سکتی ہے کہ پاکستانیوں میں 'اہداف حاصل کرنے کا فقدان' ہے، تاوقتیکہ اس ملک کے حکمران اورعوام خود ان کہانیوں کو تبدیل کرنے کا عزم نہ کرلیں، اس طرح کے تجزیے درست ثابت ہوتے رہیں گے۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں