ایک اور رکاوٹ

02 فروری 2014
سابق آمر کے باہر جانے کا دروازہ بند،  گرفتاری وارنٹ جاری، پرویز مشرف عدالت کاسامنا کریں۔ فائل تصویر۔۔۔
سابق آمر کے باہر جانے کا دروازہ بند، گرفتاری وارنٹ جاری، پرویز مشرف عدالت کاسامنا کریں۔ فائل تصویر۔۔۔

منصوبہ ناکام ہوگیا: کم از کم، طبّی بنیادوں پر بیرونِ ملک علاج کرانے کے دعویدار، فوج کے سابق مضبوط ترین آدمی پرویز مشرف، کسی بھی وقت فوری طور پر، اب پاکستان سے کہیں باہر جانے والے نہیں۔ بیرون ملک علاج کی اجازت کے لیے جناب مشرف کی دائر درخواست کو مسترد کرنے کا عدالتی فیصلہ یقیناً، طبّی اور قانونی، دونوں لحاظ سے درست ہے۔

لُبِ لُباب یہ کہ فوجی ڈاکٹروں پر مشتمل، جناب مشرف کا طبّی معائنہ کرنے والی ٹیم نے عدالت میں رپورٹ پیش کی کہ انہیں درحقیقت علاج کی ضرورت ہے تاہم اصل مسئلہ سابقِ صدرِ پاکستان کے یقین کی کمی کا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں مناسب طبّی سہولتیں ناکافی ہیں۔

اگرچہ واقعات ثابت کرچکے کہ یہاں آئین کی معطلی کے الزام میں فوج کے سابق سربراہ پر مقدمہ چلانا اتنا آسان بھی نہیں تاہم بیرونِ ملک علاج کرانے کی استدعا کو جائز بنیادوں پر مسترد کرنا آسان تھا۔ ان کی عمر اور موجودہ حالات کے پیشِ نظر ذہنی دباؤ یقینی طور پرممکن ہے لیکن جناب مشرف کو اب بھی ایسا ہی علاج درکار ہے جو صرف بیرونِ ملک کرایا جاسکے۔

اگر یہ شرائط اٹھتی ہیں اور آزاد طبّی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم اس بات کی تصدیق کرتی ہے تو پھر اس نکتے پرعدالت ، جناب مشرف کی تازہ درخواست پر غور کرسکتی ہے اور انہیں کرنا بھی چاہیے۔

تاہم، قصہ مختصر یہ کہ جناب مشرف کا منطقی راستا واضح ہے: عدالت جائیں، عائد الزامات میں اپنا دفاع کریں، جس کے لیے وہ فٹ محسوس ہوتے ہیں، اور پھرانہیں اپنے مقدر کا فیصلہ عدالتی طریقہ کار پر چھوڑدینا چاہیے۔

یقینی طور پر، جناب مشرف کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے اوپر، اس وقت تک، کسی قسم کے سمجھوتے، غیر شفافیت یا عدالتی عمل میں کسی مداخلت کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ بات اُن دیگر حقوق پر بھی صادق آتی ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ سابق فوجی آمر آئین کے خلاف جرائم تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوں لیکن یہ بات یہاں زیادہ مطابقت یا اثرات کی حامل نہیں۔ جیسا کہ خود حکومت بھی اعتراف کرچکی، سچ تو یہ ہے کہ مشرف کے خلاف مقدمے کی سماعت کے لیے موقع کی یہ کھلی کھڑکی محدود وقت کے لیے ہے۔

مثال کے طور پر، اگر پیرکو وزیرِ اعظم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی ایک اور کوشش کے بجائے ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کردیتے تو سیاسی لحاظ سے مشرف کا مقدمہ ویسے ہی پسِ پردہ چلا جاتا۔

جیسا کہ دکھائی دے رہا ہے کہ جناب مشرف اس معاملے میں فوج کو بطور ادارہ گھسیٹنے کا عزم رکھتے ہیں تو ایسے میں حکومت کے لیے بہت مشکل ہوجاتا کہ ایک طرف تو وہ فوج ہو جو اس لڑائی میں زخم سہہ رہی ہو، ماری جارہی ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف، اسی فوج کے سابق سربراہ پر سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جاتا رہے۔

اصل میں حکومت کے اندر اسے کوئی دوسری شکل دینے کی صلاحیت نہیں، یہ صرف تعلقاتِ عامّہ کے کھیل کی فطرت ہے۔ لہٰذا، ایسے میں عدالت کی طرف سے جس دباؤ کا اظہار کیا جارہا ہے، وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے۔

ایک ایسا شخص جو اپنے دفاع کے لیے عدالت آنے پر تیار نہ ہو، اسے پیش کرنے کے لیے معیاری طریقہ کار کے مطابق، جنرل مشرف کی گرفتاری کے لیے جاری کردہ وارنٹ بالکل درست ہیں۔

جناب مشرف کو، سات فروری کو عدالت کے روبرو ضرور پیش ہوجانا چاہیے۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں