ویکسی نیشن مہم

05 فروری 2014
پشاور میں 'صحت کا انصاف' چار لاکھ بچوں نے پولیو قطرے پیے، آگاہی مہم میں توسیع کی ضرورت۔ فائل فوٹو۔۔۔
پشاور میں 'صحت کا انصاف' چار لاکھ بچوں نے پولیو قطرے پیے، آگاہی مہم میں توسیع کی ضرورت۔ فائل فوٹو۔۔۔

چند ہفتے قبل عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ ویکسی نیشن مہم ان کی جماعت کی اولین ترجیح ہوگی۔ اس دوران تازہ انتباہ بھی آچکے تھے کہ ملک بہت پریشان ہے بالخصوص خیبر پختون خواہ کے حوالے سے، جو دنیا میں پائے جانے والے خطرناک پولیو وائرس کا ذریعہ بن چکا۔ ان حقائق کی روشنی میں، اس محاذ پر پیشرفت حوصلہ افزا ہے۔

اتوار کو صوبائی محکمہ صحت نے 'صحت کا انصاف' مہم شروع کی، جس کے دوران پشاور کی پینتالیس یونین کونسلوں میں چار لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے گئے۔

یہ مہم دو ہزار سات سو ستر افراد کے اشتراک سے ممکن ہوسکی جس میں محکمہ صحت اورپی ٹی آئی رضاکاروں کے علاوہ خود پولیس عملہ بھی شامل تھا۔

اطلاعات کے مطابق، پولیو کے خلاف اب تک، یہ شہر کی سب سے بڑی مہم تھی جس میں پولیو سمیت بچپن کی بیماریوں سے متاثرہ نو افراد نے بھی حصہ لیا، شکر ہے کہ اس دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔ شہر کی باقیماندہ سینتالیس یونین کونسلوں کے بچوں کی ویکسی نیشن آئندہ اتوار کی جائے گی۔

صوبائی وزیرِ صحت کا وعدہ ہے کہ منصوبے کے مطابق، بعد میں ویکسی نیشن مہم کو صوبے کے دیگر حصوں تک توسیع دی جائے گی۔ یہ نہایت لائقِ تحسین قدم ہے، امید کرتے ہیں کہ ویکسی نیشن مہم کامیابی سے ہمکنار ہوکر توسیع پائے گی۔ دیگر صوبوں کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کی ویکسی نیشن پر توجہ مرکوز کرنے کی حوصلہ افزائی کریں۔

اس کے علاوہ، کیا اس مقام پر ریاست کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پولیو اور دیگر ویکسی نیشن کے بارے میں لوگوں کی سوچ اور تصورات کو تبدیل کرنے کی خاطر، میڈیا اور دیگر ذرائع سے، آگاہی مہم کو توسیع دے جائے تاکہ لوگوں کو ان کی اہمیت، افادیت اور دستیابی سے متعلق آگاہ کیا جاسکے۔

جیسا کہ اتوار کو خیبر پختون خواہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا تھا کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی سہولت، صحت کی سہولت فراہم کرنے والے ہر مقام پر دستیاب ہے لیکن لوگ چونکہ جانتے نہیں، اس لیے وہ اپنے بچوں کو وہاں لے کر نہیں آتے ہیں۔ یہی بات دیگر ویکسی نیشن کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔

خواہ اس بنا پر ہو کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ خطرناک ہے یا پھر اس وجہ سے کہ وہ نہیں جانتے کہ ویکسین کی سہولت کہاں دستیاب ہے، یہ کوئی منطق نہیں کہ بچوں کو زندگی بھر پیچھا کرنے والی ایسی بیماریوں کا شکار بنے کے لیے چھوڑ دیا جائے جو قابلِ علاج ہیں۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں