طالبان مذاکرات: نواز شریف کو بریفنگ دی گئی
اسلام آباد: کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) غیر مشروط طور پر جنگ بندی کا اعلان کرے گی تو ہی امن مذاکرات کو آگے بڑھایا جاسکے گا، اس سوال پر وزیراعظم کے ساتھ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے چیف کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ اتوار کو منعقدہ ایک اجلاس کے دوران طویل بحث کی گئی۔
عرفان صدیقی نے اپنی کمیٹی اور طالبان مذاکرات کاروں کے ساتھ جمعہ کے روز ہونے والے مذاکرات کے بارے میں وزیراعظم کو بریفنگ دی۔ یاد رہے کہ اس سے ایک دن پہلے کراچی میں پولیس پر ایک بم حملے میں 13 پولیس کمانڈوز ہلاک ہوگئے تھے۔
جب دونوں کمیٹیوں کے درمیان بات چیت ہورہی تھی، تو اس وقت وزیراعظم ترکی کے دورے پر تھے اور عملی طور پر امن عمل اپنے راستے سے ہٹ چکا ہے۔
اس اجلاس کے بارے میں آگاہی رکھنے والے ایک ذریعے نے ڈان کو بتایا کہ بم دھماکے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول کیے جانے کے بعد امن عمل درہم برہم ہوگیا، اس لیے کہ بم دھماکے پر اندازے کے مطابق وزیراعظم کے ردّعمل کی انتہائی اہمیت تھی اس لیے کہ وہ ان مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہتے تھے۔
وزیراعظم کے لیے محفوظ راستہ صرف یہی ہے کہ وہ اس موقع پر ٹی ٹی پی کی قیادت سے غیر مشروط طور پر جنگ بندی کے اعلان کا مطالبہ کریں۔ دوسری صورت میں یہ امن عمل ختم ہوجائے گا۔
ذرائع نے کہا کہ ’’حکومت مذاکرات کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے گی اور امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے، لیکن اس سے پہلے ٹی ٹی پی کو اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرانی ہوگی کہ اس کے زیرِ سایہ کسی قسم کی پُرتشدد کارروائیاں نہیں ہورہی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کسی پابندی سے آزاد منظم عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف مؤثر اقدامات اُٹھانے چاہیٔیں، جو مسلسل اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کررہی ہے۔‘‘
لیکن وہ (اجلاس کے شرکاء) اس بات کو لے کر پریشان رہے کہ کیا جنگ بندی مؤثر ہو پائے گی، اس لیے کہ 29 جنوری کو جب وزیراعظم نواز شریف نے امن مذاکرات کا اعلان کیا تھااور ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی تو فوج مستقل خاموش تھی، اس نے نہ تو جوابی کارروائی کی اور نہ ہی قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی آپریشن کیا۔
دوسری جانب پچھلے چند ہفتوں کے دوران ٹی ٹی پی اور اس کے ساتھ منسلک گروہوں نے ملک بھر میں درجنوں معصوم لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے۔
ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم کو بریفنگ دی، اس لیے کہ جب یہ المناک واقعات رونما ہوئے تو وہ ملک سے باہر تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’’میں نے دونوں کمیٹیوں کے اجلاس کے بارے میں انہیں بریفنگ دی، جس میں متفقہ طور پر پولیس اہلکاروں کے قتل کی مذمت کی گئی تھی، اور ٹی ٹی پی کی قیادت پر زور دیا تھا کہ وہ امن عمل کو کامیاب بنانے کے لیے تشدد کے راستے کو ترک کردے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس محض بریفنگ تک محدود تھا اور وزیراعظم نے کوئی خاص احکامات جاری نہیں کیے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق دو مطالبات کے بارے میں، جس میں ٹی ٹی پی جنگ بندی کے لیے ملاقات کرنا چاہتی ہے، وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور عرفان صدیقی نے کہا کہ جب ایک مرتبہ ٹی ٹی پی کی کمیتی اپنی شرائط پیش کردے گی تو اس کا باضابطہ جواب دے دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ دونوں کمیٹیاں ایک طے شدہ طریقہ کار کے تحت بالمشافہ مذاکرات کرری ہیں یا تحریری مراسلوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔یہ شرائط ٹی ٹی پی کی جانب سے نامزدہ کردہ تین رکن کمیٹی کے مناسب ذریعے سے ہم تک پہنچی ہیں۔‘‘
اتوار کے روز میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی شوریٰ نے جنگ بندی کو غیر جنگجوؤں کے تبادلے اور جنوبی وزیرستان سے فوج کے انخلاء کے ساتھ منسلک کیا تھا۔
جب اس سلسلے میں جے یو آئی ایس کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے ذاتی نمائندے مولانا یوسف شاہ سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے مذاکرات کے پہلے راؤنڈ کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں ٹی ٹی پی کی قیادت سے معلومات حاصل کرنے کے لیے شمالی وزیرستان کا سفر کیا تھا، تو انہوں نے کہا ’’میرے پاس آج ایسی کوئی خبر نہیں ہے۔‘‘
اتوار کے اجلاس سے آگاہ ذریعے نے کہا کہ شرکاء نے ان امکانات پر تبادلۂ خیال کیا کہ ٹی ٹی پی قیادت جنگ بندی کا اعلان کرے گی اور اس سلسلے میں جواب دینے کے لیے آزمودہ آپشن کو اختیار کیا جائے گا۔
ذریعے نے مزید کہا کہ ’’اگر ٹی ٹی پی جنگ بندی کا اعلان کرتی ہے، تو حکومت جلد یا بدیر اس کا جواب دے گی۔‘‘
عرفان صدیقی جو چار رکنی حکومتی کمیٹی میں اس کے واحد نمائندے ہیں، نے اس مؤقف کو دہرایا کہ حکومت نے اپنی کوششوں کو مزید آگے بڑھانے کے لیے اسی طرز میں جواب دیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں