پاکستان میں ڈرون حملوں کے لیے نئے اڈّوں کی تلاش

اپ ڈیٹ 17 فروری 2014
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

واشنگٹن: لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی اتوار کی اشاعت میں رپورٹ دی ہے کہ پاکستان کے اندر القاعدہ کے مشتبہ اہداف پر 2014ء کے بعد ڈرون حملے شروع کرنے کے لیے وسطی ایشیا میں نئے اڈّے تلاش کررہا ہے۔

یہ اڈّے صرف اسی صورت میں استعمال کیے جائیں گے، اگر امریکا افغانستان کے ساتھ ایک دوطرفہ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط میں ناکام ہوجائے گا اور 2014ء کے بعد اُسے اِس ملک سے اپنی مکمل افواج کے انخلاء پر مجبور ہونا پڑے گا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ اڈے وسطی ایشیاء میں منتقل کردیے گئے تو پاکستان کے اندر اہداف پر حملوں کے لیے ایک نئے جیٹ طاقتور ڈرون، جنہیں پریڈیٹر (شکاری) سی یا ایوینجر (بدلہ لینے والا) کا نام دیا گیا ہے، استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

جنرل اٹامک، نامی کمپنی جس نے ایوینجر کو تیار کیا ہے، کا کہنا ہے کہ یہ لڑائی کے لیے تیار ہے۔ اب تک سان ڈیاگو میں قائم اس کمپنی نے چار نمونے تیار کرلیے ہیں۔

تاہم یہ نئے اڈّے افغانستان میں موجود امریکی اڈّوں سے زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوں گے، جہاں سے سی آئی اے کو القاعدہ کے کارکنوں کی تلاش کے سلسلے میں انٹیلی جنس حاصل کرنے کی اجازت ہے اور یہاں سے پاکستان کے پہاڑی قبائلی خطے میں مخصوص اہداف کو ڈرون میزائل حملے تیزی کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکا اب بھی ان اڈّوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔

امریکا کے سرکاری ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لاس اینجلس ٹائمز رپورٹ کرتا ہے کہ سی آئی اے کے تجزیہ کار الیکٹرانک انٹیلی جنس حاصل کرنے کے لیے پاکستانی سرحد کے قریب قلعہ بند چوکیوں میں کام کرتے ہیں۔

وہ ڈرون میزائل کے حملے کی رہنمائی میں مدد لینے کے لیے کاروں یا عمارتوں پر جی پی ایس ٹریکرز نصب کرنے کے لیے لوگوں کو ادائیگی کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں اڈّوں کو بند کرنا سی آئی اے کو اس سہولت سے محروم کرنے کا بھی سبب بن جائے گا۔

اس اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر ان اڈوں سے نکالا جاتا ہے تو سی آئی اے کے مسلح پریڈیٹر اور ریپر ڈرون کا بیڑہ شمالی افغانستان کے ہوائی اڈوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔

اس مہینے وزیرِ دفاع چک ہیگل نے عوامی سطح پر پہلی بار یہ تسلیم کیا تھا کہ ڈرون کے لیے امریکی حکام مختلف اڈوں کے آپشن کا جائزہ لے رہے ہیں،ان میں ہندوستان میں قائم اڈّے بھی شامل ہیں۔

سی آئی اے اور امریکی فوج ازبکستان میں ایک اڈّے کو ڈرون پروازوں کے لیے اس وقت تک استعمال کرتی رہی ہے، جب کہ 2005ء انہیں وہاں سے بے دخل نہیں کردیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ امریکی فوج کرغزستان میں ایک اڈّے کو فضائی آپریشن کے لیے استعمال کرچکی ہے۔

پینٹاگون نے گزشتہ موسم خزاں میں کہا تھا کہ وہ ان آپریشنوں کو اس موسمِ گرما میں رومانیہ منتقل کردیں گے۔

پاکستان میں ڈرون حملوں میں بتدریج کمی آئی ہے، 2010ء میں 117 سے یہ کم ہوکر پچھلے سال 28 رہ گئے تھے۔

لندن میں قائم بیورو آف انوسٹی گیٹیو جرنلزم، جس نے ڈرون حملوں سے متعلق اعدادوشمار جمع کیے ہیں، ان کے مطابق 2013ء میں چار غیر جنگجو ان حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’لیکن شہریوں کو نقصان پہنچائے بغیر تیزی سے کارروائی کرنے کی صلاحیت متاثر ہوگی، اگر سی آئی اے کو اس علاقے سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں