آغا طالش کی برسی

اپ ڈیٹ 19 فروری 2014
فلمی حلقوں کا کہنا ہے کہ آغا طالش جیسے اداکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا جائے گا۔- انٹرنیٹ فوٹو
فلمی حلقوں کا کہنا ہے کہ آغا طالش جیسے اداکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا جائے گا۔- انٹرنیٹ فوٹو

اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے اداکار آغا طالش کو دنیا سے کوچ کئے سولہ سال بیت گئے مگر مداح آج بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔

پاکستان فلم انڈسٹری ميں اکيڈمی کا درجہ رکھنے والے اداکار کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا اور وہ 10 نومبر 1927 کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔

وہ قیام پاکستان سے قبل ہی فن اداکاری سے منسلک تھے اور لاہور منتقل ہونے کے بعد آغا طالش کے نام سے شہرت پائی۔

انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے بمبئی میں بننے والی فلم 'سرائے سے باہر' سے اپنی فلمی زندگی کا آغاز کیا۔

قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک ہوئے اور پھر فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔

پاکستان آنے کے بعد ان کی پہلی فلم 'نتھ' تھی جس کے بعد فلم 'جبرو' میں ولن کا کردار کیا جو کامیاب رہا، لیکن انھیں اصل شہرت فلم 'سات لاکھ 'سے ملی۔

رائٹر اور ہدایت کار ریاض شاہد نے ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا اور 1962 میں فلم 'شہید' نے آغا طلش کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

ان کی دیگر فلموں میں باغی، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، کنیز، لاکھوں میں ایک، زینت، امراﺅ جان ادا اور آخری مجرا کے نام سرفہرست ہیں۔

انہوں نے سات فلموں میں نگار ایوارڈز بھی حاصل کیے تھے۔

آغا طالش انیس فروری 1998 کو دنیائے فانی سے رخصت ہوئے، فلمی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسے اداکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا جائے گا۔

احسن طالش۔- اے پی فوٹو
احسن طالش۔- اے پی فوٹو

آغا طالش کے بیٹے احسن طالش بھی اپنے والد کی طرح اس شعبے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اب تک وہ کئی پاکستانی ڈرامے بنا چکے ہیں جن میں وہ بطور اداکار، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

ان کے کامیاب ڈراموں میں راکھ، اعتراف، محبت کرنے والوں کے نام، دل کو منانا آیا نہیں، کوئی تو بارش اور نم سمیت دیگر شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں