سعودیہ سے تعلقات

20 فروری 2014
سعوی ولی عہد کا دورہ پاکستان اور ایرانی دھمکی، کیا یہ تہران کی پریشانی کا پیغام ہے۔  اے پی پی فوٹو۔۔۔
سعوی ولی عہد کا دورہ پاکستان اور ایرانی دھمکی، کیا یہ تہران کی پریشانی کا پیغام ہے۔ اے پی پی فوٹو۔۔۔

ولیِ عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز بن سعود کے دورہ اسلام آباد کے اختتام پر، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے پیر کو جاری مشترکہ بیان میں جن خیالات کا اظہار ہوا، دونوں ملکوں کے طویل، تاریخی تعلقات کے تناظر میں ایسا متوقع تھا۔

روزگار کے سلسلے میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی میزبانی کے علاوہ، سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کو معاشی بحرانوں سے نکلنے میں سہارا دیا ہے۔ پاکستان میں شریف فیملی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد باہمی تعلقات نے نئی جہتیں حاصل کی ہیں، جس کا ایک ثبوت حالیہ ہفتوں میں سعودی شاہی خاندان کی اعلیٰ شخصیات اور حکام کے دورے ہیں۔

تاہم خارجہ پالیسی ایک دوسرا ہی کھیل ہے اور جذبات کی راہ پر چلنے کے بجائے پاکستان اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ اس ضمن میں، مشترکہ اعلامیہ کے بعض حصے اس لیے پریشان کُن ہیں کہ ان سے، شام سے متعلق پاکستانی پالیسی میں امکانی تبدیلیوں کے اشارے ملتے ہیں۔

جیسا کہ ہم ہمیشہ یہی سمجھتے ہیں کہ شام اور خطے کے دیگر ممالک کے درمیان تنازعات کے ضمن میں، اسلام آباد کو متوازن اور غیر جانبدار کردار اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ دیگر دوست ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں کوئی بگاڑ یا دراڑ پیدا نہ ہو۔

مشترکہ بیان میں مشرقی بحیرہ روم کی صورتِ حال کو جس طرح بیان کیا گیا، وہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

مثال کے طور پر، جیسا کہ اس وقت شام بہت سارے تنازعات کا گھر بن چکا اور وہاں خطّے کی مختلف ریاستیں متعدد مقاصد رکھنے والے عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کررہی ہیں لیکن اس کے باوجود مشترکہ اعلامیہ میں صرف غیر ملکی طاقتوں کے انخلا کا ذکر ہے، جسے تھوڑا زیادہ واضح ہونا چاہیے تھا۔

عراق میں موجود انتشار سے بھی شامی بحران کی شدت بڑھ رہی ہے، وجہ یہ کہ القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروہ اس ملک سے یہاں منتقل ہوچکے، جس نے عرب موسمِ بہار کی انقلابی لہر کا چہرہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔

پاکستان نے اب تک، شامی مُردہ خانے میں کسی ایک فریق کی طرف داری سے گریز کیا ہے۔ تاہم، مشترکہ اعلامیہ سے نظر آتا ہے کہ پاکستان اس سعودی نقطہ نظر سے متفق ہے کہ صدر بشارالاسد کو جانا چاہیے، وجہ یہ کہنا کہ 'شام پر کنٹرول کے لیے، مکمل انتظامی اختیارات کے ساتھ عبوری حکومت قائم کی جائے۔'

جنیوا مذاکرات کی ناکامی اور تمام فریقین کی جانب سے سخت موقف اپنانے کے بعد، صدر اسد کی رخصتی کے لیے ایک منصوبے کی تیاری اور مذاکرات کے ذریعے عمل درآمد کرانے پر اتفاقِ رائے ممکن نظر نہیں آتا ہے۔

اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے علاقائی تنازعے میں اپنی غیر جانبداری ختم کر کے کسی ایک فریق کی حمایت کے واسطے، پاکستان کے پاس گنجائش ہونے کی علامات بہت کم ہیں۔

اب یہ اتفاق کہ مشترکہ بیان اُس ایرانی انتباہ کے ساتھ سامنے آیا کہ تہران اپنے مغوی سرحدی محافظوں کی بازیابی کے لیے پاکستانی میں اپنے فوجی داخل کرسکتا ہے۔ اس بیان کو لغوی معنوں میں تو نہیں لینا چاہیے لیکن کیا یہ سیکیورٹی اثرات کے حامل پاک ۔ سعودی مذاکرات پر ایرانی بے چینی کا پیغام ہے۔

یہ مقامِ افسوس ہے کہ اس مشکل وقت میں پاکستان کے پاس کوئی وزیرِ خارجہ نہیں جبکہ خارجہ تعلقات کو ایک کے بعد دوسرے بحرانوں کا سامنا ہے۔

یقیناً، پارلیمنٹ خارجہ پالیسی پر بحث و مباحثے کا فورم ہے لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ خارجہ تعلقات کے ضمن میں نہایت سنجیدہ معاملات، جن میں ممکنہ تبدیلیوں کے عناصر شامل ہیں، اُن پر رسمی پالیسی کی تشکیل سے پہلے بحث نہیں کی جاسکتی۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں