پانچ مہینوں میں طالبان کے حملوں سے 460 افراد کی ہلاکت

20 فروری 2014
فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں 308 عام شہری، 114 فوجی اور 38 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ —. فائل فوٹو اے پی
فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں 308 عام شہری، 114 فوجی اور 38 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ —. فائل فوٹو اے پی

اسلام آباد: پچھلے پانچ مہینوں کے دوران تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے کی جانے والی پرتشدد کارروائیوں میں چار سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں، اسی عرصے کے دوران ہی حکومت عسکریت پسند گروپ کو امن عمل میں منسلک کرنے کی کوشش کررہی ہے، تاکہ ان کی جارحانہ کارروائیوں کا خاتمہ ہوسکے۔

ایک فوجی اہلکار نے اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’گزشتہ سال دس ستمبر کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کے بعد سے اب تک چار سو ساٹھ افراد، جن میں تین سو آٹھ عام شہری، ایک سو چودہ فوجی اور اڑتیس پولیس اہلکار تھے، ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران شہید ہوگئے۔‘‘ فوج کی جانب سے عسکریت پسندوں کے تشدد سے ہلاک ہونے والوں کے اعدادوشمار جاری کرنا غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ حکومت کے مذاکرات 23 فرنٹیئر کور کے سپاہیوں اور کراچی میں13 پولیس اہلکاروں کی حملوں میں ہلاکتوں کی وجہ سے معطل ہوگئے تھے، اس کےبعد جاری یہ دہشت خیز اعدادوشمار کیے گئے، ان حملوں کے بارے میں عسکریت پسند گروپ نے دعویٰ کیا تھا۔

ان حملوں سے زخمی ہونے والوں کی تعداد بارہ سو چونسٹھ ہے، ان میں چھ سو چوراسی عام شہری، پانچ سو اکتیس فوج کے جوان اور اننچاس پولیس اہلکار شامل ہیں۔

نو ستمبر 2013ء کو منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں متفقہ طور پر حکومت پر بات چیت شروع کرنے کے لیے زور دیا گیا تھا۔

سیاسی قیادت کی جانب سے عسکریت پسندوں کو کی گئی امن کی پیشکش کے فوراً بعد ہی، ٹی ٹی پی نے سوات میں تعینات فوجی ڈویژن کے کمانڈر جنرل ثناءاللہ نیازی کے قتل سے اس پر ضرب لگادی تھی۔ عسکریت پسند قیادت نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ یہ حکومت کی سنجیدگی کا امتحان تھا، اور اس کے حملے جاری رہیں گے۔

سیاسی تجزیہ نگار یہاں یہ رائے دیتے ہیں کہ اس غضبناک تشدد سے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے، لیکن مسلم لیگ نون کی حکومت کچھ گروہوں کے ساتھ امن کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے، اور اس کا کہنا ہے کہ اس کی مذاکرات کی پیشکش برقرار ہے۔

فوجی اور سیکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ، مذہبی و مسلکی اقلیتیں، پولیو ویکسین پلانے والے ہیلتھ ورکرز، میڈیا کے کارکن، اور اعتدال پسندی کی علامات، جیسے سینما گھر ٹی ٹی پی کے بنیادی اہداف ہیں۔

ابتداء میں تو حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف مذاکرات کے لیے ٹی ٹی پی کی عدم آمادگی کا ذمہ دار امریکی ڈرون حملوں کو قرار دیتی تھیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی ڈرون کے خلاف مہم کے دباؤ کے تحت امریکا کی جانب سے ڈرون حملوں میں غیر اعلانیہ وقفے کے باوجود دہشت گردانہ حملے جاری ہیں۔

تیز ترین حملوں میں گھری ہوئی حکومت اس سال جنوری میں ایک نکتے پر پہنچی تھی، یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اس نے جوابی کارروائی کے لیے اپنا ذہن تیار کرلیا ہے اور یہاں تک کہ فوج بھی ایک موقع پر بنوں اور راولپنڈی کے بازار پر حملوں کے بعد تیار ہوگئی تھی کہ ایک طویل ٹارگٹڈ آپریشن کے ذریعے ٹی ٹی پی کو شدید نقصان پہنچایا جائے، لیکن نواز شریف نے مذاکرات کی پیشکش کی تجدید کرکے ایک مرتبہ پھر ہر ایک کو حیران کردیا ۔

فوج کی جانب سے ان اعدادوشمار کے جاری کیے جانےسے بظاہر یہی مطلب نکلتا ہے کہ اس کے ذریعے ٹی ٹی پی کے اس پروپیگنڈے کا توڑ کیا ہے، کہ ان کے جنگجوؤں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں ہلاک کیا جارہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں