لاپتہ شخص کی خاموشی سے گھر واپسی

اپ ڈیٹ 20 فروری 2014
فائل فوٹو—
فائل فوٹو—

اسلام آباد: انیس مہینوں سے زائد عرصے تک لاپتہ رہنے والا ایک شخص نامعلوم حالات میں خاموشی سے واپس گھر پہنچ گیا۔

خفیہ ایجنسیوں نے اس بات کا اعتراف تو نہیں کیا کہ آیا عتیق الرحمان ان کی حراست میں تھا، لیکن بدھ کے روز سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ وہ اپنے گھر پہنچ گیا ہے۔

اگرچہ ناصرف مشترکہ تفتیشی ٹیم بلکہ جبری گمشدگی پر بننے والے کمیشن نے بھی اس کیس کو جبری گمشدگی قرار دیا، لیکن اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ آیا اس شخص کے لاپتہ ہونے کے پیچھے کیا وجوہات تھیں اور نہ ہی یہ کہ اس وقت اس کی جسمانی اور ذہنی حالت کیسی ہے۔

یہ خبر سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک کی جانب سے عدالت میں دیے گئے اس بیان کے دو روز کے بعد آئی جس میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کو سنگین نتائج اور کارروائی کے لیے خبر دار کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ عتیق الرحمان لاہور یونیورسٹی میں شعبہِ انجیئنر کا طالبِ عالم ہے جس کو جولائی 2012ء میں صوبہ پنجاب کے شہر شیخوپورہ کے علاقے فیروز والا سے اٹھایا گیا تھا۔

منگل کے روز شیخوپورہ کے ضلعی پولیس آفیسر نے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والے تین رکنی عدالتی بینچ کو بتایا کہ ابھی تک مذکورہ شخص کے ٹھکانے کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا ہے اور انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کی جانب سے مشترکہ ٹیم اور کمیشن کی رپورٹ پر ایک اختلافی نوٹ دیا گیا ہے۔

اس سماعت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالتی کارروائی کو بدھ تک کے لیے ملتوی کرنے کی اپیل کی تھی، تاکہ وہ اس کیس کی مثبت پیش رفت کے بارے میں عدالت کو آگاہ کرسکیں۔

بدھ کے روز ہونے والی سماعت اسٹنڈنگ وکیل طلحہ عباس نےعدالت کو بتایا کہ لاپتہ شخص اپنے گھر واپس پہنچ گیا ہے۔

اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ وزرات دفاع نے عدالت کو تحریری طور پر بتایا کہ عتیق الرحمان واپس اپنے گھر پہنچ گیا ہے۔

اٹارنی جنرل کے دفتر نے شیخوپورہ کے ڈی پی او سے کہا کہ وہ اس شخص کے اہل خانہ سے ملنے اور اس کی شناخت کے لیے ایک ذمہ دار آفیسر مقرر کریں۔

پولیس کے ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ ان کی عتیق الرحمان سے اس کے گھر پر ملاقات ہوئی ہے اور اس بات کی تصدق خود مذکورہ شخص کے والد میاں مشتاق نے بھی کی۔

اس سے قبل ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ مذکورہ شخص لاپتہ ہونے سے پہلے اپنے دوست عبدالوحد سے ملاقات کے فیروز والا پولیس اسٹیشن کے قریب گیا تھا، جہاں پر اسے ایک فون کال موصول ہوئی تھی۔

اس کے بعد ان دونوں کو پولیس اہلکاروں اور سادہ لباس میں کمانڈوز نے حراست میں لیا۔

اس واقعہ کے تین عینی شاہدین نے اپنے بیانات میں ان دونوں کو حراست میں لینے والوں میں پولیس اہلکاروں کے ساتھ کمانڈرز بھی شامل تھے جو متعدد گاڑیوں میں تھے۔

خیال رہے کہ عبدالواحد تو اس واقعہ کے چار مہینے کے بعد بازیاب ہوگئے تھے جس کے بعد انہیں نے اپنے بیان میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ انہیں اور ان کے دوست عتیق الرحمان کو گرفتار کیا گیا، لیکن اس دوران ان دونوں کو علیحدہ مقام پر رکھا گیا۔

دوسری طرف اس معاملے کی تفتیش کے لیے انٹیلیجنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں پر مشتمل قائم ایک مشترکہ ٹیم نے اس معاملہ کو جبری گمشدگی قرار دیتے ہوئے آئی ایس آئی اور ایم آئی کو اختلافی نوٹ ارسال کردیے تھے۔

جبری گمشدگی پر قائم ایک کمیشن نے گزشتہ سال 13 دسمبر کو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بادی النظر یہ کیس جبری گمشدگی ہے اور اس کے لیے انٹیلیجنس ایجنسیوں سے ان افراد کے بارے میں پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کیس کی تفصیلات وزراتِ دفاع اور خفیہ ایجنسیوں کے سامنے رکھی گئی اور ان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ شواہد کی روشنی میں معاملے کی پھر سے تفتیش کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں عتیق الرحمان منگل کے روز بازیاب ہوگیا۔

تبصرے (0) بند ہیں