کچھ ہی عرصہ پہلے، شطرنج کے سابق عالمی چیمپئن گیری کاسپارو نے برلن 1936 اور سوچی 2014 کا موازنہ کرتے ہوئے قرار دیا تھا "یہ دونوں کھیل (گیمز) ایک شخصیت کے گرد گھومتے ہیں"-

ان کا مزید کہنا تھا "اگر کوئی اسے مبالغہ آرائی سمجھتا ہے تو وہ ایک انتہائی اہم امر کو بھول رہا ہے، 1936 میں ہٹلر کو ایک قابل احترام اور جائز سیاستدان کے طور پر جانا جاتا تھا-"

ویسے انہیں "کم از کم چند" الفاظ کا اضافہ، جملے کے آغاز پر کر دینا چاہئے تھا کیونکہ برلن اولمپکس کے موقع پر اڈولف کے بارے میں شبہات اتنے شدید نہ سہی لیکن موجود ضرور تھے-

دوسری جانب، مغرب میں ویلادیمیر پیوٹن کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار خاصے عرصے سے، خاصے تسلسل سے اور قدرے جارحانہ انداز میں کیا جاتا رہا ہے- اور یہ اظہار بے سبب ہر گز نہیں-

سوچی میں سرمائی اولمپکس کے آغاز سے پہلے مغرب کی توجہ کا مرکز، ہم جنس پرستوں سے امتیازی سلوک پر رہا- یقیناً یہ ایک قابل احترام مقصد ہے اور اس کی اہمیت کے بارے میں کوئی شبہ بھی نہیں تاہم اس حوالے سے صرف روس کا نام لینے کو امتیاز سے تعبیر کیا جا سکتا ہے-

کرپشن کے موضوع پر لکھے جانے والے تبصروں نے بھی خاصے کالم سنٹی میٹر بھرے- اس بات کی نشان دہی کی گئی کہ ایک سڑک کی تعمیر پر آنے والے اخراجات 2010 میں ونکوور میں ہوئے سرمائی اولمپکس کے اخراجات سے زیادہ ہیں- اس بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے کہ آخر سوچی کو میزبان شہر کے طور پر کیوں چنا گیا جبکہ ایک عرصے سے اس کی شہرت ایک نیم مرطوب ریزورٹ کی رہی ہے اور ملک میں قدرتی منجمد مقامات کی بھی بہتات ہے-

سوچی اسٹالن کے دور سے کریملن قیادت کیلئے ایک پرسکون اور آرام دہ مقام رہا ہے تاہم اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ ویلادیمیر پیوٹن نے اس کا انتخاب محض اس وجہ سے کیا کہ جہاں ایک طرف تو یہ مقام شورش زدہ قفقاز کے علاقے کے آس پاس ہے اور دوسرے اخبازیہ کے جنگی علاقے سے بھی زیادہ دور نہیں- ویسے بھی بلآخر، وہ چیچنیا چھوڑنے کی جنگ میں ان کا موقف اور اس کی پیروی ہی تھی جس کی وجہ سے بورس یلسن کے سائے میں پیوٹن کا سیاسی افق پر ظہور ہوا تھا-

ویسے یہ موقع کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ جب اتوار کے روز سوچی میں اختتامی تقریب ہو رہی تو اسی روز اسٹالن کی طرف سے چیچنیا کے لوگوں کو ان وطن سے ملک بدری کی سالگرہ بھی تھی- مفاہمت پر آمادہ، چیچنیا کے صدر، رمضان کادیروف نے فراخدلی سے سالگرہ کی تقریب کو مئی کی دس تاریخ تک ملتوی کر دیا ہے-

گیمز کے مقام پر ممکنہ دہشت گرد حملوں کے خطرے کے سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں خاص طور پر پچھلے دسمبر میں وولگو گراڈ میں ہونے والے حملوں کے تناظر میں-

نتیجہ یہ ہوا ہے کہ روس نے خطرے کے سدباب کیلئے خطیر وسائل استعمال کئے ہیں اور شکر کا مقام ہے کہ دوکو اماروف جیسوں کی دھمکیوں کے باوجود یہ اولمپکس اب تک امن و سلامتی سے جاری ہیں-

اس سب کے باوجود، مغرب کی روس مخالف تھیم میں امریکہ میں دو قابل آوازوں نے اپنی جگہ بنائی ہے- بائیں بازو کے جریدے، دی نیشن میں لکھتے ہوئے سٹیفن ایف کوہن نے اس طریقے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے تحت میڈیا پیوٹن دور کی برائیاں گنوانے میں اس حد تک گرا جا رہا ہے کہ بعض اوقات عام طور پر میڈیا کا لبرل جانا جانے والا حصہ بھی یلسن کے بے ہنگم اور بعض اوقات تباہ کن دور کو بھی روس کے سنہرے دور سے تعبیر کر رہا ہے-

کوہن لکھتے ہیں "آج کے روس کے بہت سے سنجیدہ مسائل اور بہت سی ناپسندیدہ کریملن پالیسیاں ہیں- تاہم اگر کوئی امریکہ کے مین اسٹریم میڈیا میں ان مسائل کا سرا ڈھونڈنے کی کوشش کرے تو اسے ان میں سے کوئی بھی سرا یلسن کے دور یا امریکہ کی 1990 کے بعد کی اشتعال انگیز پالیسیوں سے نہیں جوڑ پائے گا"- کسی کیلئے بھی اس حوالے اور دیگر چند حوالوں سے کوہن سے اتفاق نہ کرنا مشکل ہو گا-

بورس یلسن کو بہرحال اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ وہ اگست 1991 میں کریملن حکام کی جانب سے چھوڑا گیا علاقہ چھیننے کے پاگل پن کے خلاف کھڑے ہوئے تاہم یہی وہ موقع تھا جب وہ میخائل گورباچوف سے آگے بڑھ گئے لیکن ہوا یہ کہ روس کی اڑان اوپر کے بجائے نیچے کی جانب زیادہ رہی-

اور یہ کہنا تو فضول ہی ہو گا کہ اگر بورس یلسن کی جگہ پارلیمنٹ کے خلاف اشتعال انگیز جنگ اگر پیوٹن نے کی ہوتی تو مغرب میں اسے یقیناً ایک بالکل مختلف انداز سے دیکھا جاتا-

دوسری جانب یلسن اور پیوٹن ادوار کے تسلسل کو بھی نظرانداز کرنا ممکن نہیں گو کہ ان کے درمیان بہت سے مادی اور رویے کے فرق بہرحال موجود ہیں-

پیوٹن نے روس میں اشرافیہ کے طبقے کو یا تو سیدھا کر دیا یا پھر ختم تاہم سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ابھرنے والے اشرافیہ سے نمٹنے کیلئے ان کا طریقہ جسے "میرا رستہ یا پھر باہر کا رستہ" بھی کہا جا سکتا ہے، کسی بھی طرح سے قابل ستائش تو ہر گز نہیں-

امریکہ کے قدامت پسند ولیم ایس لنڈ، کوہن سے ماسکو کے اس رول کے حوالے سے تو اتفاق کرتے ہیں جو اس نے صدر بارک اوباما میں کو اس مشکل صورتحال سے نکالنے میں نبھایا جس میں وہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے مسئلے کی وجہ سے پھنس گئے تھے، تاہم پیوٹن کے روس کی مخالفت میں ان کی دلیل اس بنیاد پر ہے کہ اس روس سے اسی روس کی یاد آتی ہے جو ژار روس کے زمانے میں تھا اور جس سے انقلابی، یعقوبی اور ڈیموکریٹس عیسائی بادشاہت کا نشان ہونے کی وجہ سے نفرت کرتے تھے-

اس وقت بھی اس نفرت کی وجوہات خاصی زیادہ اور اچھی تھیں اور وہ حالات بھی تھے جنہوں نے 1905 اور 1917 کے انقلابوں کی راہ ہموار کی- کوہن کے دلائل یقیناً بہتر ہیں تاہم وہ کسی غلطی سے بہرحال خالی نہیں-

روس اب عالمی سطح پر وہ طاقت نہیں رکھتا جو اسے سوویت یونین کے دور میں حاصل تھی تاہم اب بھی اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے- یقیناً اس پر تنقید بھی ہونی چاہئے تاہم تنقید اس وقت اپنا وزن کھو دیتی ہے جب اس کی بنیاد سرد جنگ کے تصورات پر رکھی جائے- لیکن اسی حوالے سے تعریف بھی تو ہوتی ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں