پاکستان اور طالبان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے: سندھ اسمبلی

26 فروری 2014
سندھ اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی جانے والی اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ طالبان کی حمایت کرنے والی جماعتوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ —. فائل فوٹو
سندھ اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی جانے والی اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ طالبان کی حمایت کرنے والی جماعتوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ —. فائل فوٹو

کراچی: سندھ اسمبلی نے منگل کے روز قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ طالبان دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں، جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں، اور یہ بھی کہا کہ پاکستان اور طالبان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

یہ مطالبہ متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی اور قائد حزبِ اختلاف سید فیصل سبزواری کی جانب سے پیش کردہ ایک قرارداد کے ذریعے کیا گیا تھا، جسے مختصر تائیدی تقاریر کے بعد متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے اس اجلاس کی صدارت کی، جو صبح گیارہ پچیس پر شروع ہو کر سہہ پہر تین بجکر پچپن منٹ پر جمعہ کے روز تک ملتوی ہوگیا۔ اس اجلاس کے دوران سولہ قراردادیں پیش کی گئیں، ان میں سے چودہ کو قبول کرلیا گیا، جو ایک ریکارڈ ہے۔

طالبان کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے مطالبے کے ساتھ پیش کی گئی اس قرارداد میں پاکستان کی سلامتی کے لیے مسلح افواج، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا، اور کہا گیا کہ طالبان کی حمایت کرنے والی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا چاہیٔے۔

اس ایوان نے مسجدوں، امام بارگاہوں، مزارات، غیرمسلموں کی عبادتگاہوں، اسکولوں اور بازاروں پر خودکش اور بم حملوں کی مذمت کی اور دہشت گردی کو اسلام کی تعلیمات کے خلاف قرار دیا۔

مسلح افواج، رینجرز، فرنٹیئر کور، لیویز اور پولیس کے شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ایوان نے ان کے خاندان کے اراکین کے ساتھ تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیااور انہیں یقین دلایا کہ ملک کے تمام لوگ ان کے غم میں شریک ہیں۔

اس کے علاوہ اس ایوان نے یہ واضح کیا کہ پاکستان ایک خودمختار اور آزاد اسلامی ریاست ہے اور کسی بھی اسکول آف تھاٹ یا عقیدے کے پیروکاروں کی جاگیر نہیں ہے۔ یہاں آباد تمام سکھ، ہندو، مسیحی اور دیگر غیر مسلم برابر کے شہری ہیں اور انہیں مسلم شہریوں کے برابر حقوق حاصل ہیں۔

قرارداد کی منظوری کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے فیصل سبزواری نے کہا کہ پاکستان فیصلہ کن لمحات سے گزر رہا ہے اور ہماری اجتماعی حکمت عملی کا تقاضہ ہے کہ ہم متحد رہیں اور دہشت گردوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور پاکستان کو قائدِ اعظم کے پاکستان میں بدل دیں۔

وزیرِ اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ’ظالمان‘ نے پاکستان میں خوف کا ایک ماحول پیدا کردیا ہے، جہاں نہ تو مسجد، امام بارگاہ، عید میلاد النبی ﷺ اور عاشورہ محرم کے جلوس، اسکول، پولیس، رینجرز اور نہ ہی سیاستدان محفوظ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا ’’طالبان ہماری تمام خرابیوں کی جڑ ہیں جو اسلحے کے زور پر اپنے بُرے منصوبے ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ وہ وقت آگیا ہے کہ پورا پاکستان ان کے خلاف ہم آواز ہوجائے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے سرپرستِ اعلٰی بلاول بھٹو زرداری وہ پہلے فرد تھے جنہوں نے طالبان کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو کوئی بھی طالبان کا دوست ہے وہ غدار ہے۔

شرجیل میمن نے کہا کہ طالبان نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان بلکہ وہ حیوان ہیں اور ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جانا چاہیٔے۔

انہوں نے اپنے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں اس لیے کہ ایک دن تو ہر ایک کو ہی مرنا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی خرّم شیرزمان نے اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے طالبان اور وہ لوگ جو ٹارگٹ کلنگ، قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں اور طویل عرصے سے خونریزی میں ملؤث ہیں ان سب کی مذمت کی ضرورت پر زور دیا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے پارلیمانی رہنما عرفان اللہ مروت نے کہا کہ کوئی بھی دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں مذاکرات کے ذریعے ایک پُرامن حل کی تلاش پر اتفاق کیا گیا تھا، لیکن اس کے بعد دہشت گردی کے واقعات، جن میں ایف سی اہلکاروں کا بے رحمانہ قتل اور ان کی لاشوں کی بے حُرمتی کے نتیجے میں ایک آپریشن شروع کیا گیا ہے، اور ہرایک اس کی حمایت کرتا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر عسکریت پسند یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان نہیں کرتے تو پھر ان کے خلاف ایک بھرپور آپریشن شروع کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں