تھر میں صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے: پیپلزپارٹی لیڈرز

10 مارچ 2014
ڈان سے بات کرتے ہوئے فقیر محمد شاہ نے اپنے انتخابی حلقے میں بڑی تعداد میں اموات کی اطلاعات کو ایک معمول کا معاملہ قرار دیا۔ —. فائل فوٹو
ڈان سے بات کرتے ہوئے فقیر محمد شاہ نے اپنے انتخابی حلقے میں بڑی تعداد میں اموات کی اطلاعات کو ایک معمول کا معاملہ قرار دیا۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی نے سندھ کے ضلع تھرپارکر میں قحط اور خشک سالی کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے حوالے سے میڈیا کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس خطے کے لیے کوئی غیرمعمولی مسئلہ نہیں ہے۔

خشک سالی سے متاثرہ ضلع سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی فقیر محمد شاہ اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید احمد شاہ نے اتوار کے روز یہ دعویٰ کیا کہ صورتحال پوری طرح قابو میں ہے۔

نہایت پرسکون انداز میں ڈان سے بات کرتے ہوئے فقیر محمد شاہ نے اپنے انتخابی حلقے میں بڑی تعداد میں اموات کی اطلاعات کو ایک معمول کا معاملہ قرار دیا۔ انہوں نے پچھلے تین سالوں کے اعدادوشمار پیش کیے اور کہا کہ پانچ سال سے کم عمر کے 469 بچوں کی اب تک اموات ہوچکی ہیں، جن میں سے 140 کی 2010ء میں، 195 کی 2011ء میں اور 2012ء کے دوران مختلف امراض اور اس علاقے میں طبّی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے 134 کی اموات ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ دو مہینوں کی قلیل مدت کے دوران 48 بچوں کی اموات اس علاقے میں کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ کسی کی بھی ہلاکت بھوک کی وجہ سے نہیں ہوئی، اور زیادہ تر اموات امراض کے سبب ہوئی تھیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے پچھلے ہفتے جاری قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اس مسئلے کو کیوں نہیں اُٹھایا تھا، تو رکن قومی اسمبلی فقیر محمد شاہ نے کہا کہ جب وہ اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد روانہ ہوئے تھے تو ان کے حلقۂ انتخاب میں صورتحال کنٹرول میں تھی۔

سندھی میڈیا کی ان رپورٹوں کی جانب جب ان کی توجہ مبذول کروائی گئی کہ تھر پچھلے کئی ہفتوں سے قحط جیسی صورتحال کا سامنا کررہا تھا، تو انہوں نے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا ’’میں نے ایسی رپورٹیں نہیں دیکھی ہیں۔‘‘

قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’صورتحال اس قدر سنگین نہیں ہے، جیسا کہ میڈیا میں پیش کی جارہی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مالی مشکلات کی وجہ سے متاثرہ علاقے کے لوگوں میں گندم اب تک تقسیم نہیں کی جاسکی ہے، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اس علاقے میں سندھ کے وزیرِ اعلٰی قائم علی شاہ کے دو وزٹ کے بعد اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ گندم کے ذخائر موجود تھے، لیکن چونکہ محکمہ خوراک کی جانب سے اس مقصد کے لیے رقم جاری نہیں کی گئی تھی، اس لیے اس کو تقسیم نہیں کیا جاسکا۔

پیپلزپارٹی کے دونوں رہنماؤں نے اموات سے متعلق مختلف اعدادوشمار فراہم کیے۔ فقیر محمد شاہ کے مطابق 48 بچوں سے سمیت 121 افراد کی پچھلے چند ہفتوں کے دوران اموات ہوئیں، جبکہ خورشید شاہ نے کہا کہ انہیں 48 اموات کے بارے میں سرکاری طور پر مطلع کیا گیا تھا۔

خورشید شاہ نے کہا کہ ’’اس طرح کے واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں، اور یہ اس علاقے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ اس سال اموات کی تعداد پچھلے سالوں سے کچھ زیادہ ہو، لیکن اب صورتحال پر قابو پالیا گیا ہے۔‘‘

لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرکاری غفلت کی وجہ سے ایک بھی موت قابلِ قبول نہیں ہوگی۔

اس علاقے سے واقف ایک صحافی ایم بی سومرو نے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے دعوے کو مسترد کردیا اور کہا کہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں صورتحال اس وقت بدتر ہے۔

انہوں نے کہا ’’مختصر وقت میں اس قدر بڑی تعداد میں لوگوں کی اموات سندھ میں حکمران پارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی نہیں ہے، تو پھر اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔‘‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ میڈیا تھر میں اموات کی ایک مہینے سے رپورٹ دے رہا تھا، لیکن حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، اور ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب قومی میڈیا کی جانب سے اس معاملے کو اُجاگر کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں