رازداری کا عنصر

24 مارچ 2014
ٹی ٹی پی سے مذاکرات خفیہ رکھنے کا فیصلہ، حکومت پر شکوک و شبہات اٹھتے ہیں۔     فائل فوٹو۔۔۔۔
ٹی ٹی پی سے مذاکرات خفیہ رکھنے کا فیصلہ، حکومت پر شکوک و شبہات اٹھتے ہیں۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

ایک اجلاس ہوا، فیصلے کیے گئے لیکن پاکستان کو یہ تک بتانے پر کوئی بھی آمادہ نظر نہیں آتا کہ اس میں کیا بات چیت ہوئی۔ پورے ملک کو صرف یہ بتایا گیا کہ ایک خفیہ ملاقات ہوئی جس میں تمام فیصلوں کو خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات اب خفیہ عمل کی صورت اختیار کرچکے، جس میں کچھ بھی طے ہوسکتاہے، یہ غلط ہے۔ رہی عوام تو ان کے متعلق سمجھا جارہا ہے کہ اُن کے نام پر، اُنہی کا مقدر طےکرنے کے لیے جو فیصلے ہوں گے، انہیں تسلیم کرنے کے سوا، اُن کے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔

یہ درست ہے کہ جب تک فریقین کی گفتگو افشا ہوتی رہے اور دونوں اپنی اپنی شکایات اور ناانصافیوں کو لے کر عوام کی طرف دوڑتے رہیں گے، تب تک مذاکرات پر پیشرفت نہیں ہوسکتی۔

لیکن یہ عام نوعیت کے مذاکرات نہیں ہیں: منتخبِ حکومت پاکستان، ایک ایسے تشدد پسند باغی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے جس کا مذموم ایجنڈا ریاست کا تختہ اُلٹنا ہے اور ٹی ٹی پی کے تمام تر جانے پہچانے مطالبات آئین اور اُس جمہوریت سے متصادم ہیں، جہاں بنیادی حقوق اور قانون کی حکمرانی، کا مطلب سب پر بالادست ہے۔

یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ٹی ٹی پی کی قیادت حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سامنے آئے گی تو اُن کے کیا کیا مطالبات ہوسکتے ہیں۔ اس پر تو یقین ہے کہ قیدیوں کی رہائی اور شمالی وزیرستان کے حصوں پر طالبان کی بالادستی تسلیم کرنے کے مطالبات سرِ فہرست ہوں گے۔

اس وقت نظر یہ آتا ہے کہ حکومت سخت فیصلوں سے بچنے کے لیے، جب تک ممکن ہوسکے، مذاکراتی عمل کو طول دینا چاہتی ہے جبکہ ٹی ٹی پی بھرپور شدت کے فوجی آپریشن میں تاخیر کے لیے مذاکراتی عمل پر تیار ہوئی ہے۔ لیکن، کم از کم حکومت کے لیے، یہ واقعی پائیدار طریقہ کار نہیں۔ مشکل فیصلے تو لینا ہی پڑیں گے۔

مذاکراتی عمل کو رازداری میں رکھنے اور اسرار کا پردہ چڑھادینے سے نظر یہ آتا ہے کہ حکومت انہیں ایسی ترغیبات اور رعایتیں دینے کا ارادہ رکھتی ہے جو ریاست اور معاشرے کے موجودہ ڈھانچے میں قابلِ قبول نہیں۔ اگرچہ طالبان کو شک و شبہ کی نظر سے ہی دیکھنا چاہیے لیکن خود حکومت کے مقاصد و اقدامات بھی خودکار طریقے سے قابلِ قبول نہیں۔

بند دروازوں کے پیچھے ٹی ٹی پی قیادت کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے قبل، حکومت کو دو کام کرنے چاہئیں۔

اول، حکومت کو پوری سچائی کے ساتھ کھلے عام یہ بتادینا چاہیے کہ سست روی سے آگے بڑھتے ہوئے اگر ان مذاکرات کے نتیجے میں کچھ طے پاتا ہے تو وہ موجودہ ریاستی ڈھانچے اور آئینی حدود کے اندر ہی ہوگا۔

دوم، حکومت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کی تمام تر سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی قائدین کو اعتماد میں لے اور ساتھ ساتھ، مذاکراتی عمل میں پیشرفت یا بریک تھرو پر، انہیں باخبر بھی رکھے۔

یہ دونوں اقدامات، اس بات کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے کہ حکومت خفیہ طور پر کوئی رعایت نہیں دے رہی، ساتھ ہی اس سے حکومت کے اوپرنگرانی کی نگاہیں بھی رہیں گی۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں