انتقالِ اختیار پر ہچکیاں

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2014
اٹھارویں ترمیم کو چار سال لیکن صوبے اختیارات کی منتقلی کا عمل اب تک مکمل نہ کرسکے۔  فائل فوٹو۔۔۔۔
اٹھارویں ترمیم کو چار سال لیکن صوبے اختیارات کی منتقلی کا عمل اب تک مکمل نہ کرسکے۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

اٹھارویں ترمیم کو منظور ہوئے لگ بھگ چار برس گذرچکے لیکن پاکستان میں انتقالِ اختیارات کا عمل بدستور سست روی کا شکار ہے۔ اگرچہ وفاق سے منتقل ہونے والے اختیارات کو خود میں ضم کرنے کی خاطر بعض صوبوں نے ہموار پیشرفت کی مگر ددوسرے اب بھی منزل سے میلوں دور ہیں۔

جیسا کہ اتوار کو زیرِ نظر اخبار میں اُجاگر کیا گیا تھا، 'اٹھارویں ترمیم کے بعد ابہام' دور کرنے کے لیے کی گئی قانون سازی پر عدم نفاذ سے بنیادی شعبوں، جیسے صحت اور تعلیم کے حوالے سے خدمات کی فراہمی بھی، متاثر ہورہی ہے۔

جہاں تک اختیارات کی منتقلی کا تعلق ہے تو پنجاب کی کارکردگی بڑی حد تک بہتر ہے اور خیبر پختون خواہ بھی نسبتاً اچھا جارہا ہے لیکن سندھ اور بلوچستان ابھی بہت پیچھے ہیں۔

مثال کے طور، اطلاعات ہیں کہ بعض محکموں کو اختیارات کی منتقلی پر سندھ ہچکچاہٹ کا شکار ہے جبکہ بلوچستان میں تربیت یافتہ انسانی وسائل کا فقدان بھی ایک مسئلہ ہے۔

اطلاعات ہیں کہ صوبوں میں بعض منصوبوں کے لیے فنڈز بھی مختص کیے گئے ہیں۔ مجموعی طو پر تمام صوبوں، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کو، اپنی استعداد بڑھانے اور سنگِ میل کی اہمیت رکھنے والی اٹھارویں ترمیم کے بعد، خود پر عائد ذمہ داری قبول کرنے کا احساس اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اختیارات کی منتقلی کا ثمر عوام تک بھی پہنچ سکے۔

یہاں متعدد ماہرین کا یہ بھی نقطہ نظر ہے کہ ہموار انتقالِ اختیارات کی راہ میں متعدد قانونی رکاوٹیں کھڑی ہیں، جنہیں دور کرنے لیے صوبوں کو موجودہ قوانین میں سے بعض کے اندر ترامیم جبکہ اس عمل کو سہارا دینے کے لیے بعض نئے قوانین متعارف کرانے کی بھی ضرورت ہے۔

بلوچستان کی صورت میں، صوبائی محکموں کو چلانے والی افرادی قوت کو تربیت فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جبکہ فنڈز ٹرانسفر کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تواسے دور کرنا ضروری ہے۔

اٹھارویں ترمیم کو لے کر آگے بڑھنے والی پی پی پی، جو سندھ میں برسرِ اقتدار بھی ہے، ضرورت ہے کہ وہ خدمات کی فراہمی میں حائل مسائل حل اور خامیاں دور کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

اگرچہ اختیارات کی منتقلی ایک طویل عمل ہے تاہم اس کے لیے کسی ڈیڈ لائن کا ہونا ضروری ہے، اس کام کو یونہی کھلا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اہلیت کے فقدان کو اختیارات 'لپیٹ دینے' کے لیے جواز تسلیم نہیں کرسکتے، اس لیے، خاص طور پر، صوبوں کو اپنی اسٹرکچرل خامیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

وسیم Mar 26, 2014 12:53am
صوبائی حکومتوں کو ابھی یقین ہی نہیں آرہا کہ ان کے پاس کوئی اختیار بھی ہے سندھ حکومت کو دبئی سے حکم کا انتظار رہتا ہے تو بلوچستان حکومت کی سائیکل میں ٹریکٹر کے پہیے لگے ہیں