مدارس کی اصلاحات

04 اپريل 2014
گذشتہ برسوں کے دوران عسکریت پسندی ملک میں گھر کرچکی ہے، ایسے میں شدت پسندی کے فروغ یا اس سے بدتر، جہادی اور فرقہ واریت کی نشونما میں کردار ادا کرنے والے مدارس کو کڑی چھان بین کے تلے لایا جانا چاہیے۔
فائل فوٹو۔۔۔۔۔
گذشتہ برسوں کے دوران عسکریت پسندی ملک میں گھر کرچکی ہے، ایسے میں شدت پسندی کے فروغ یا اس سے بدتر، جہادی اور فرقہ واریت کی نشونما میں کردار ادا کرنے والے مدارس کو کڑی چھان بین کے تلے لایا جانا چاہیے۔ فائل فوٹو۔۔۔۔۔

قومی اسمبلی میں مدارس کی اصلاحات کا معاملہ منگل کو اپوزیشن کی اس قرارداد کے ذریعے اٹھا، جس میں مدارس کے نظامِ تعلیم کو 'باضابطہ اور بہتر' بنانے کی خاطر حکومت سے اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

گذشتہ برسوں کے دوران عسکریت پسندی ملک میں گھر کرچکی ہے، ایسے میں شدت پسندی کے فروغ یا اس سے بدتر، جہادی اور فرقہ واریت کی نشونما میں کردار ادا کرنے والے مدارس کو کڑی چھان بین کے تلے لایا جانا چاہیے۔

تاہم، تمام مدارس کو ایک ہی چھڑی سے ہانکنا بھی درست نہیں ہوگا۔ سن اُنیّس سو اسّی کی دہائی کے دوران افغان جہاد کے پس منظر میں، ملک کے اندر دینی مدارس میں سیاست گری کا سلسلہ شروع ہوا اور کچھ مدارس شدت پسندوں کی آماج گاہ بنے لیکن اس کے باوجود، بعض مدارس تشدد کو فروغ دینے کے بجائے بدستور دینی تعلیم کی اشاعت و ترویج میں مشغول ہیں۔

دینی مدارس میں 'اصلاحات' کی خاطر جنرل پرویزمشرف اور پی پی پی کے گذشتہ دورِ حکومت میں بھی کوششیں کی گئی تھیں لیکن مذہبی عناصر کے دباؤ کے باعث ان کے کچھ خاص نتائج برآمد نہ ہوسکے۔ مذہبی جماعتیں محسوس کرتی ہیں کہ حکومت اصلاحات کے نام پر دینی مدارس کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں، لہٰذا وہ بھرپور شدت سے اپنے میدانوں کی حفاظت کررہے ہیں۔

تاہم مدارس میں اصلاحاتی عمل کے لیے یہ ناگزیر نہیں ہونا چاہیے کہ ان اداروں کا اختیار حاصل کرکے، انہیں دینی تعلیم دینے سے ہی دور کردیا جائے۔

اس کے بجائے توجہ اس پر مرکوز ہونی چاہیے کہ مدارس کا نصابِ تعلیم نفرت کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے مواد سے پاک ہو، اور دراصل، یہ یقینی بناسکے کہ ہر برس مدارس سے فارغ التحصیل طالب علم اس طرح کی استعداد کے حامل ہوں کہ وہ معاشرے میں سرگرم، مختلف شعبوں کے اندر قابلیت کے زور پر روزگار حاصل کرسکیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عملی طور پر ریاست عوام کے لیے معیاری اور خاطر خواہ تعلیمی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہی ہے، جس کے باعث مدارس خودرو شکل میں پروان چڑھے۔ ہمارا نظام طبقات کی بنیاد پر ہے جس میں صرف غریب ہی پستا ہے۔

اگرچہ کچھ لوگ اپنی اولاد کو مذہبی نظریات سے ماورا ہو کر مدارس بھیجتے ہیں لیکن بعض کے لیے اس کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں۔ وجہ یہ کہ یا تو ان کے علاقے میں کوئی سرکاری اسکول موجود نہیں اور اگر کوئی ہے تو وہ معیاری تعلیم فراہم کرنے سے قاصر ہے۔

علاوہ ازیں، دینی مدارس اپنے طالب علموں کے قیام و طعام کی مفت سہولت فراہم کرتے ہیں، غریب والدین کے لیے یہ اضافی فائدہ ہے۔

مدارس کے نظام کی اصلاح ناگزیر ہے اور انہیں مرکزی دھارے میں لانے کے لیے مذہبی حلقوں کو ریاست کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ریاست بوسیدہ نظامِ اسکول کی ازسرِ نو تشکیل کرے تاکہ وہ طالب علموں کو معیاری تعلیم فراہم کرکے، انہیں مفید اور روشن خیال شہری بننے میں مدد دے سکیں۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں