عراق میں خوف کے ماحول میں انتخابات کا انعقاد

30 اپريل 2014
فلوجہ میں پولنگ اسٹیشن کے باہر ایک فوجی ووٹروں کے شناختی کارڈ کی جانچ کررہا ہے۔ اے پی تصویر
فلوجہ میں پولنگ اسٹیشن کے باہر ایک فوجی ووٹروں کے شناختی کارڈ کی جانچ کررہا ہے۔ اے پی تصویر

بغداد: بدھ کےروز عراق میں بدھ کے روز قومی انتخابات شروع ہوگئےہیں ۔ یہ سال 2011 میں امریکی فوجیوں کی جانب سے عراق چھوڑنے کے بعد پہلے عام انتخابات ہیں ۔ الیکشن میں پر تشدد واقعات کے باوجود بھی موجودہ وزیرِ اعظم نورالمالکی کے تیسری مدت کیلئے منتخب ہونے کے امکانات ذیادہ ہیں۔

اس وقت بھی عراق کے مغربی صوبے انبار میں عسکریت پسندوں اور عراقی افواج میں لڑائی جاری ہے۔ پھر مالکی پر بھی یہ الزام ہے کہ وہ فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں۔

صبح سات بجے پولنگ اسٹیشن کھول دیئے گئے اور ووٹنگ کا آغاز ہوگیا۔ رائے دینے والے افراد 9,012 امیدواروں میں سے انتخاب کریں گے جبکہ شیعہ مسلمان نورالمالکی کیلئے یہ الیکشن ایک ریفرنڈم کا درجہ رکھتا ہے۔

صبح سے پولنگ ہموار انداز میں جاری رہی لیکن سنی اکثریتی علاقوں میں ووٹنگ کا تناسب بہت کم رہا کیونکہ یہاں کے لوگ سیکیورٹی فورسز اور القاعدہ سے وابستہ عسکریت پسندوں سے خوفزدہ تھے۔

اس طرح یہ ملک میں فرقہ وارانہ تناؤ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت اقدامات کئے گئے ہیں۔ لوگوں کو ایک سے زائد سیکیورٹی حدود سے گزر کر ووٹ ڈالنے پڑے۔ سال دوہزار دس کے الیکشن میں اس سے ذیادہ فسادات ہوئے تھے۔

وزیرِ اعظم مالکی نے بغداد کے گرین زون میں ووٹ ڈالا ۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ خطرات کے باوجود پولنگ اسٹیشن پر جاکر ووٹ ڈالیں۔

' میں نے عراقی عوام سے کہا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر بیلٹ باکس کا استعمال کریں اور یہ دہشتگردوں کے منہ پر طمانچہ ہوگا،' مالکی نے رپورٹروں سے کہا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمنٹ کی 328 سیٹوں کیلئے کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ اگر مالکی کا اتحاد جیت بھی جاتا ہے تب بھی ایک مستحکم حکومت کا بننا مشکل ہوگا حالانکہ وہ اپنی جیت کے بارے میں بہت پر امید ہیں۔

' ہماری ( جیت کی توقعات) بلند ہیں،' انہوں نے کہا۔ ' ہماری جیت یقینی ہے لیکن اب بھی ہم اس پر بات کررہے ہیں کہ یہ جیت کتنی بڑی ہوسکتی ہے،' مالکی نے کہا۔ عراق بھر میں شروع ہونے والی پولنگ کا اختتام شام چھ بجے ہوگیا۔

واضح رہے کہ مالکی خود کو کئی مرتبہ شیعہ مسلمانوں کا محافظ قرار دے چکے ہیں۔ عراق میں سنی شدت پسند گروہ اور القاعدہ سے متاثر اسلام اسٹیٹ آف دی عراق اینڈ لیونٹ ( آئی ایس آئی ایل) شیعہ مسلمانوں سے برسرِ پیکار ہے۔

دوسری جانب فرقے کی بنیاد پر مالکی کے مخالف انہیں ایک آمر تصور کرتےہیں جو ان کی قوم کو تباہ کررہے ہیں۔ ان کے حریف پارلیمانی اسپیکر اسامہ النجیفی نے کہا ہے کہ مالکی تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم نہیں بن سکیں گے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ مالکی کی حکومت میں سنی مسلمان شدید مشکلات کے شکار ہیں۔

بغداد کے شمال میں صلاح الدین اور مشرق میں دیالہ صوبے میں پرتشدد واقعات ہوئے۔ آئی ایس آئی ایل کی سرگرمیاں عراق سے شام تک جاری ہیں۔ ان تنظیموں نے کہا کہ جو بھی ووٹ ڈالے گا وہ قتل کردیا جائے گا۔

سنی علاقوں انتخابات کے دن بارہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

سب سے ذیادہ متاثرہ صوبہ الانبار ہے۔ جہاں عراقی افواج رمادی اور فلوجہ میں برسرِ پیکار ہیں۔ رمادی میں شدید لڑائی جاری ہے۔ رمادی میں اسکولوں اور دیگر عمارتوں کے چھتوں پر اسنائپر بٹھادیئے گئے ہیں۔ فوج اور پولیس کا گشت جاری ہے۔

الانبار میں ہونے والی جنگ سے اب تک 420,000 افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ صوبے میں صرف 70 فیصد مقامات پر انتخابات ممکن ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں