فیصلہ خدا کا ہے یا ایک ماں کا؟

اپ ڈیٹ 04 مئ 2014
جنوبی صومالیہ سے بیشمار پناہگزین کینیا اور ایتھوپیا ہجرت کر گۓ- جہاں گنجان آبادی، حفظان صحت کی مخدوش صورتحال کے ساتھ شدید غذائی قلت بیشمار اموات کا موجب بنی-
جنوبی صومالیہ سے بیشمار پناہگزین کینیا اور ایتھوپیا ہجرت کر گۓ- جہاں گنجان آبادی، حفظان صحت کی مخدوش صورتحال کے ساتھ شدید غذائی قلت بیشمار اموات کا موجب بنی-

"صومالیہ کے قحط سے بچنے کے لئے بیتاب ایک ماں، اپنے دونوں بچوں کو باری باری گود میں لے کر چلتی رہی، تب تک جبتک وہ سب اتنے کمزور ہوگئے کے ماں کے اندر صرف ایک ہی بچے کی طاقت رہ گئی-

اس نے اپنے دونوں بچوں کی طرف دیکھا اور دعا مانگی، پھر اس نے ایک بچے کو راستے میں چھوڑ دینے کا انتہائی تکلیف دہ فیصلہ کیا تاکہ دوسرے بچے کو بچا سکے- "-- یو ایس ایڈ ایڈمنسٹریٹر، راجیو شاہ

" کیا وہ کسی بھی طور ہمارے بچوں سے کمتر تھے؟ کیا ان کے باپ ان سے کم محبّت کرتے تھے؟ کیا انکی مائیں ؟ کیا خدا کو وہ کم پیارے تھے؟ " شاہ نے چھ فروری کو واشنگٹن میں نیشنل پریئرز بریک فاسٹ (National Prayers Breakfast ) پر موجود سو ملکوں کے تین ہزار شرکاء سے سوال کیا- جواب کسی کے پاس نہیں تھا-


سنہ دو ہزار گیارہ کی ایسٹ افریقہ خشک سالی

صومالیہ، جبوتی، ایتھوپیا، کینیا، یوگنڈا

کل اموات: پچاس ہزار تا دو لاکھ ساٹھ ہزار-

جنوبی صومالیہ سے بیشمار پناہ گزین کینیا اور ایتھوپیا ہجرت کر گۓ- جہاں گنجان آبادی، حفظان صحت کی مخدوش صورتحال کے ساتھ شدید غذائی قلت بیشمار اموات کا موجب بنی-

بادشاہ سلیمان کے پاس دو عورتیں ایک شیرخوار بچے کے ساتھ پہنچیں- ایک کا یہ کہنا تھا کہ دوسری نے حادثاتاً اپنے بیٹے کو مار دینے کے بعد، دونوں بچے تبدیل کر لئے تاکہ یہ لگے کہ اس کا بچہ زندہ ہے- دوسری عورت نے اس سے انکار کیا اور کہا وہ بچے کی اصل ماں ہے-

بادشاہ سے اس مسئله کو نمٹانے کی درخواست کی گئی، جس پر اس نے تلوار میان سے نکال کے کہا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر دیے جائیں، ایک ٹکڑا پہلی عورت کو دے دیں اور دوسرا ٹکڑا دوسری کو-

یہ سن کر ایک عورت چلا اٹھی، " میرے آقا یہ ظلم نہ کریں- بچہ اسی عورت کو دے دیں-"

دوسری نے کہا، " نہ یہ تمہارا اور نہ ہی میرا- اس کے دو ٹکڑے کر دیں-"

بادشاہ یہ تماشا دیکھ رہا تھا اس نے اعلان کیا کہ بچہ پہلی عورت کو دے دیا جاۓ- یہی اسکی اصلی ماں ہے-

پورے اسرائیل نے یہ فیصلہ سنا، وہ بادشاہ سے ڈر گۓ اور خدا کی حمد و ثنا کرنے لگے-

صومالیہ کے بچے اتنے خوش نصیب نہیں تھے- وہ دو تھے مگر انکی ماں ایک تھی- کئی دنوں کی بھوک، پیاس اور تھکن سے لاغر ماں- جب حبیبہ ایسٹ افریقہ میں سنہ دو ہزار گیارہ کے قحط کے پناہ گزینوں کیلئے بناۓ گۓ کیمپ کی طرف روانہ ہوئی تب تک وہ کافی کمزور ہوچکی تھی- اس کے پاس تھوڑی خوراک اور پانی تو تھا لیکن وہ جانتی تھی اتنے لمبے سفر کے لئے یہ کافی نہیں- پھر بھی گھر میں بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے سے بہتر تھا کہ وہ یہ کوشش کر کے دیکھے-

وہ ایک خشک زمین پر چلتی رہی- میلوں تک کہیں پانی نہیں تھا- آسمان پر سفید بادل نظر تو آرہے تھے لیکن وہ کسی کام کے نا تھے- نہ وہ تپتی دھوپ سے بچا سکتے تھے اور ناہی بارش برسا سکتے تھے-

حبیبہ دونوں بچوں کو گود میں اٹھاۓ آھستہ آھستہ چل رہی تھی- اس کے بازو کسی درخت کی سوکھی ٹہنیوں کی طرح تھے جس میں بس ہڈی اور کھال بچی تھی- حالانکہ اس کے بچے بھی اپنی ماں کی طرح لاغر تھے مگر پھر بھی اس کمزور جسم کے لئے بھاری تھے-

لیکن مامتا اسکا سہارا تھی- وہ انہیں اٹھاۓ چلتی رہی- اسکی ٹانگیں تھک گئی تھیں مگر دل میں ہمّت باقی تھی- جب ہمّت جواب دے جاتی تو وہ روکتی، اپنے ساتھ لائی پانی کی بوتل سے ایک گھونٹ لیتی، جی ہاں بس ایک گھونٹ، اور دوبارہ چلنا شروع کردیتی- پانی کا ایک قطرہ اور باقی روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہی انکا سہارا تھا-

ہر پڑاؤ پر وہ پہلے بچوں کو کھلاتی پھر خود کھاتی، بس اتنا کہ یہ سفرجاری رکھ سکے- ان کے پاس خوراک تو کم تھی مگر ہر پڑاؤ پر بچوں کو ماں سے بہت سا پیار ضرور ملتا-

ایک بار، کے بچہ حبیبہ کی گود سے پھسل کر گرم مگر نرم ریت پر گر گیا- وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بچے کو اٹھانے لگی اور پھر اسکی ہمّت جواب دے گئی- اسے اپنے رونے کی آواز تو سنائی دے رہی تھی لیکن کوئی آنسو نہیں نکلا- اس کے اندر اتنا پانی ہی کہاں بچا تھا کہ آنسو بن کر نکلتا-

حبیبہ نے تھوڑ دیر آرام کے بعد دوبارہ اپنا سفر شروع کیا- اس نے دونوں بچوں کو مضبوطی کے ساتھ تھام رکھا تھا- بھوک، تھکن اور پیاس نے اس کے قدم سست کر دیے تھے- اسکی چال اب رینگنے کے برابر ہوگئی تھی- لیکن وہ برابر آگے بڑھتی رہی-

وہ جانتی تھی کہ صحرا بہت ظالم ہے اور سورج بے درد- اور جب یہ دونوں مل جاتے ہیں تو اچھے خاصے صحتمند انسان کی جان نکال لیتے ہیں- حبیبہ اور اس کے بچوں کے پاس تو کھانے پینے کو بہت کم تھا- بھوک انسان کو مار دیتی ہے، پیاس بھی مار دیتی ہے شاید بھوک سے بھی زیادہ تیزی سے-

چناچہ حبیبہ رکی نہیں چلتی رہی- لیکن آھستہ آھستہ نقاہت بڑھتی گئی- وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی بار بار تھوڑا دم لینے کو رکتی- پھر دوبارہ خود کو اٹھنے پر مجبور کرتی-

حبیبہ میں طاقت بلکل نہیں بچی تھی پھر بھی اس کے دل میں رفیوجی کیمپ پہنچنے کی شدید خواہش تھی- اسے موت کا ڈر نہ تھا- حالانکہ وہ ابھی تیس کی بھی نہیں ہوئی تھی، اس نے اپنی زندگی میں اتنی موتیں دیکھیں تھیں کہ وہ جان گئی تھی جو لوگ امیر-غریب کی تقسیم کی دوسری جانب پیدا ہوتے ہیں، اکثر جوانی کی موت انکا مقدر ہوتی ہے-

لیکن حبیبہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں یہ انکے مرنے کا وقت نہیں- وہ انہیں زندہ رہنے کا ایک اور موقع دینا چاہتی تھی، وہ انہیں ایسی جگہ لے جانا چاہتی تھی جہاں انہیں کم زکم ایک وقت کا کھانا مل سکے اور پیاس بجھانے کو پانی- اس سے زیادہ کی اسے خواہش نہ تھی-

چناچہ حبیبہ نہ رکی- وہ چلتی رہی، رینگتی رہی، ریت پر گرتی رہی مگر اپنے بچوں کو بانہوں سے پھسلنے نہ دیا- "نہیں نہیں انہیں کچھ نہیں ہونا چاہیے"، اس نے اپنے آپ سے کہا، "انہیں زندہ رہنا ہوگا"-

لیکن آخر کار بچے اس کی گود سے گر ہی گۓ- پہلے بائیں بازو والا بچہ گرا، پھر دائیں بازو والا- اس نے دونوں کو اٹھایا اور دوبارہ چلنے لگی لیکن ایک بار پھر وہ دونوں گر گۓ-

حبیبہ رکی، چند گھونٹ پانی کی بوتل سے لئے- روٹی کے چند ٹکڑے چباۓ- بلکہ اس بار اس نے بچوں سے زیادہ کھایا- وہ جانتی تھی اسے اپنے بچوں کی خاطر زیادہ توانائی کی ضرورت ہے- اسے چند سو گز چلنے کے لئے تھوڑی طاقت تو ملی لیکن اسے پھر دوبارہ رکنا پڑا-

حبیبہ اٹھی، پھر چلنے لگی، ایک بار پھر گری- پھر رکی، ہمّت کر کے اٹھی، ہمّت کر کے تھوڑا چلی پھر گر گئی- روکنے، چلنے اور گرنے کے یہ سلسلہ چلتا رہا-

ایک بار حبیبہ کو لگا بچے اس کی گود میں نہیں ہیں- اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دونوں بچے کچھ فاصلے پر پڑے ہوۓ تھے- اچانک اس کے جسم میں طاقت کی لہر دوڑ گئی، وہ بھاگ کر اپنے بچوں کے پاس گئی، انہیں اٹھایا اور پھر گر گئی-

حبیبہ نے دوبارہ چلنے کی کوشش کی لیکن ایک بار پھر بچے اس کے بازوؤں سے پھسل گۓ- اسے احساس ہوگیا کہ یہ سفر اس طرح جاری نہیں رہ سکتا- ان تینوں کے لئے کیمپ پہنچنا ممکن نہیں- اگر اسی طرح چلتا رہا تو وہ تینوں ہی ختم ہوجائیں گے- اب وہ صرف ایک بچے کو اٹھا سکتی ہے، دونوں کو نہیں-

حبیبہ کو اب ایک ماں بن کر نہیں سوچنا تھا بلکہ وہ فیصلہ کرنا تھا جو بس خدا ہی کر سکتا ہے، کہ کس بچے کو زندہ رہنا ہے اور کس کی قسمت میں موت ہے- اس نے اپنے بچوں کی طرف دیکھا اور دعا مانگی-

لیکن ماں تو بس ماں ہوتی ہے خدا نہیں- کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہی وہ ہمّت ہار گئی-

اب وہ ایک رفیوجی کیمپ میں ہے صرف ایک بچے کے ساتھ-

تو پھر کس نے فیصلہ کیا کہ کونسا بچہ جئے گا: خدا نے یا ماں نے؟

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ :ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

shams May 03, 2014 07:31pm
tamam mumalik ko chahiay k woh apna difai budget decrease kr k in mamalik ki imdad ki jay janan ais tarah k masail hn
imtiaz May 04, 2014 12:29am
Very tragic. I m feeling guilty.