اسلام آباد: کل بروز بدھ سپریم کورٹ آف پاکستان، حکومت کی اس تفہیم کے حوالے سے ناخوش دکھائی دی، جس میں حکومت نے کہا تھا کہ سول عدالتیں حاضر سروس فوجی اہلکاروں کے خلاف کسی جرم پر مقدمات نہیں چلاسکتیں۔

سپریم کورٹ نے اپنی برہمی کا اظہار پینتس قیدیوں کے مسئلے کی سماعت کے دوران کیا، جو مالاکنڈ میں ایک فوجی حراستی مرکز سے لاپتہ ہوگئے تھے۔

جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ اور خیبر پختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالطیف یوسف زئی سے کہا کہ وہ عدالت کو یہ دریافت کرنے میں مدد کریں کہ آیا ایک جرم کا مقدمہ مسلح افواج کے اہلکار کے خلاف درج کیا جاسکتا ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تب مجرم کے خلاف کارروائی کے لیے کون سا فورم مناسب ہوگا۔ کیا پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952ء کے تحت جنرل کورٹ مارشل کیا جائے گا یا پھر قانون کی ایک عام عدالت اس کے خلاف مقدمے کی سماعت کرے گی۔

سپریم کورٹ نے یہ معاملہ لاپتہ فرد یاسین شاہ کے مقدمے میں دس دسمبر کو دیے گئے اپنے فیصلے کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے اُٹھایا تھا۔

یاد رہے کہ یہ مقدمہ یاسین شاہ کے بھائی محبت شاہ کی درخواست پر شروع کیا گیا تھا۔

عدالت نے اپنے مذکورہ فیصلے میں مالا کنڈ کے حراستی مرکز سے پینتس افراد کی گمشدگی کا ذمہ دار فوج کو قرار دیا تھا۔

گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ مالاکنڈ فورٹ میں قائم فوج کے حراستی مرکز سے پینتس افراد کی گمشدگی کے لیے وہاں پر تعینات نائب صوبے دار امان اللہ بیگ اور دیگر کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ ایک رپورٹ وزیردفاع خواجہ محمد آصف کی جانب سے مالاکنڈ لیوی پوسٹ پر درج کرائی گئی تھی اور ایک مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 346 کے تحت درج کیا گیا تھا۔ یہ سیکشن خفیہ مقام پر ناجائز قید کیے جانے سے متعلق ہے۔

اس کے بعد عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ تیز رفتار اور شفاف تحقیقات کو یقینی بنائیں۔

لیکن جب یہ مقدمہ 16 اپریل کو دوبارہ شروع ہوا تو ڈپٹی اٹارنی جنرل وقاص ڈار نے وزارتِ دفاع کی جانب سے ایک صفحے کا بیان جمع کرایا، جس میں عدالت کو مطلع کیا گیا تھا کہ اس مقدمے کا مرکزی ملزم مسلح افواج کا حاضر سروس اہلکار ہے، اور اسے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت اس کے خلاف تفتیش کی جارہی ہے۔

بدھ کے روز عبدالطیف یوسف زئی نے یہی معلومات عدالت کے سامنے دوبارہ پیش کیں اور وزارتِ دفاع کی جانب سے مالاکنڈ کے ڈپٹی کمشنر کو بھیجا گیا خط بھی جمع کرایا۔

خط میں تحریر کیا گیا تھا کہ مجاز فوجی حکام پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جارہا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملزم کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت ہی نمٹا جائے گا۔

بدھ کے روز ہونے والی کارروائی کے دوران جسٹس خواجہ نے کہا کہ ’’وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حکمران ہیں اور ڈپٹی کمشنر ان کے ماتحت ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ آئین نے متوازی دائرہ اختیار کے معاملوں میں سول عدالتوں کو فوج پر برتری دی ہے ۔

جج نے کہا کہ ’’یہ صوابدید کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک قانون ہے۔‘‘ یہ بات انہوں نے جبری گمشدگی کے اسی طرز کے ایک مقدمے میں کہی تھی۔ اس دوران عدالت نے آرمی اہلکار کے خلاف ایک ایف آئی آر رجسٹر کروانے پر بھی غور کیا تھی۔

اس وقت عدالت کے سامنے ڈپٹی اٹارنی جنرل وقاص ڈار نے ایک رائے پیش کی تھی کہ ایک فوجی اہلکار کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرائی جاسکتی۔

اس جواب سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ وہ فوجی اہلکار کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کے سوال پر غور کرے گی۔

آج جمعرات کو جب اس مقدمے کی دوبارہ سماعت ہوگی تو اٹارنی جنرل اور خیبر پختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرل اس سوال پر عدالت کی معاونت کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں