افغانستان: بگرام جیل سے دس پاکستانی قیدی رہا

اپ ڈیٹ 16 مئ 2014
بگرام بدنام زمانہ گوانتا ناموبے جیل کے نام سے مشہور ہے۔ فائل فوٹو
بگرام بدنام زمانہ گوانتا ناموبے جیل کے نام سے مشہور ہے۔ فائل فوٹو

اسلام آباد: امریکی حکام نے افغانستان کی بگرام جیل سے انتہائی خاموشی کے ساتھ دس پاکستانی قیدیوں کو رہا کردیا ہے۔

ان افراد کو کئی سالوں تک بغیر کسی قانونی کارروائی کے قید میں رکھا گیا۔

قانونی چیریٹی رپریو کے مطابق ان میں عراق سے گرفتار ایک شخص کو دس سال تک قید میں رکھا گیا جسے بعد میں افغانستان منتقل کردیا گیا تھا۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان خطرناک افراد کو جنگ سے دور رکھنے کے لیے قید کرنا ضروری تھا۔

تاہم ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ رہا کیے جانے والے دس افراد کو کہاں لے جایا گیا ہے۔

ایسے قیدیوں کو قانونی رہنمائی فراہم کرنے والے ادارے جسٹس پراجیکٹ پاکستان کا کہنا ہے کہ ریڈ کراس کی عالمی کمیٹی نے ان افراد کے اہلخانہ کو رہا کیے جانے کے حوالے سے اطلاع دے دی ہے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کو کہاں لے جایا گیا ہے۔

اس سے قبل دسمبر میں بھی چھ افراد کو رہا کیا گیا جنہیں خفیہ طور پر پاکستان کی جیل میں منتقل کردیا گیا تھا جہاں انہیں کسی وکیل یا رشتے دار سے رابطے کی اجازت تک نہ تھی اور انہیں کئی ہفتے تک قید میں رکھا گیا تھا۔

پاکستانی حکام نے متعلقہ افراد کے اہلخانہ کو رہائی کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی تھیں اور حکام نے انہیں قید میں رکھنے کا ادراک اس وقت کیا تھا جب جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے عدالت سے مقدمہ جیتتے ہوئے حکم نامہ جاری کروایا تھا۔

گوانتا ناموبے کے نام سے مشہور بگرام جیل میں امریکی فوجیوں پر مشتمل بورڈ قیدیوں کی سزا پر نظرثانی کرتا ہے جہاں نہ انہیں وکیل کی سہولت میسر ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں الزامات یا ان کے خلاف گواہوں کے حوالے سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

یہ بورڈ ملزمان کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ ساتھ اس بات بھی جائزہ لیتا ہے کہ آیا یہ مستقبل میں امریکی افواج کے لیے کسی قسم کا خطرہ تو ثابت نہیں ہونگے۔

جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی ایک وکیل سارہ بلال نے بتایا کہ ابھی بھی درجنوں افراد امریکی قید میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی آفیشلز کو رہا ہونے والے قیدیوں کے حوالے سے وکیل اور اہلخانہ کو معلومات فراہم کرنی چاہیے تاکہ انہیں کسی بھی قسم کے ٹارچر سے بچایا جا سکے۔

سارہ نے کہا کہ اس حوالے سے سنجیدہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، پاکستانی فورسز کسی پر ٹارچر کرتے ہوئے ایک لمحہ بھی نہیں سوچتیں اور جتنی زیادہ مدت تک وہ بغیر کسی رابطے کے قید میں رہیں گے اتنا ہی زیادہ ان پر ٹارچر یا تشدد کیے جانے کا خطرہ موجود رہے گا۔

پاکستانی حکام نے اس حوالے سے کی گئی کال پر کسی بھی قسم کا ردعمل نہیں دیا۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس سے قبل ماضی میں پاکستانی فورسز پر دوران قید تشدد اور ٹارچر کے الزامات عائد کرتی رہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں