ٹی ٹی پی سے منسلک دہشت گردوں کا نیٹ ورک پکڑا گیا

اپ ڈیٹ 17 مئ 2014
پولیس کے مطابق گرفتار مشتبہ افراد نے مذہبی شخصیات، صحافیوں، ڈاکٹروں، وکیلوں اور پولیس افسران کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔ —. فائل فوٹو رائٹرز
پولیس کے مطابق گرفتار مشتبہ افراد نے مذہبی شخصیات، صحافیوں، ڈاکٹروں، وکیلوں اور پولیس افسران کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔ —. فائل فوٹو رائٹرز

لاہور: پولیس نے جمعہ کے روز تحریک طالبان اور ایسی ہی ایک اور تنظیم کے ساتھ منسلک دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے ایک نیٹ ورک کو پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ایک ٹریفک وارڈن سمیت آٹھ دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے پاس سے برآمد ہونے والے بہت بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد، خودکش حملوں میں استعمال ہونے والی جیکٹس، لیپ ٹاپس اور غیرقانونی ہتھیار ضبط کرلیے گئے۔

پولیس نے گرفتار مشتبہ افراد کی شناخت بندروڈ، فضل کالونی کے شفیق شاہ، راوی روڈ کے وارڈن محمد اعظم، ثاقب انجم، عبیداللہ، محمد آفتاب، قاری مشتاق، حافظ عظیم اور قاری آصف محمود کے ناموں سے کی ہے۔

گرفتار ہونے والے افراد میں سے زیادہ تر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ کالعدم لشکر جھنگوی کے ان چھ اراکین کے ساتھی تھے، جو پچھلے مہینے پکڑے گئے تھے اور انہیں میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

جمعہ کے روز ڈان کو معلوم ہوا کہ یہ گزشتہ مہینے سے کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کی حراست میں ہیں لیکن ان کی گرفتاری کو مزید تفتیش کے لیے عام نہیں کیا گیا تھا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مبینہ دہشت گروپ کے دو اہم رکن کوٹ پنڈی داس، شیخوپورہ کے ہارون بھٹی اور سعید اب تک مفرور ہیں۔

انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ مشتبہ گرفتار افراد نے جب اپنے منصوبوں کا انکشاف کیا تب ہی حالیہ گرفتاریاں عمل میں آسکیں۔

ان کا منصوبہ تھا کہ وہ کچھ سینئر پولیس افسران اور معاشرے کے مختلف شعبوں کی معروف شخصیات کو نشانہ بنائیں گے۔

کیپیٹل سٹی پولیس کے آفیسر چوہدری شفیق نے ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ آٹھ مشتبہ افراد کے گرفتار ہونے سے دہشت گردی کا ایک منصوبہ ٹل گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گرفتار مشتبہ افراد نے مذہبی اور اہم شخصیات، سینئر صحافیوں، ڈاکٹروں، وکیلوں اور سینئر پولیس افسران کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور یہ لگ بھگ 39 اہداف کے علاوہ کچھ اہم عمارتوں اور بین الاقوامی کمپنیوں کی نگرانی کا کام مکمل کرچکے تھے۔

یہ مشتبہ افراد مختلف انٹرنیٹ کیفوں کا استعمال کرتے ہوئے ای میلز کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں موجود اپنے ساتھیوں سے بھی وہ نیٹ کے ذریعے رابطہ کرتے تھے۔

سی سی پی او نے کہا کہ اس نیٹ ورک نے موسمِ سرما کے دوران پنجاب یونیورسٹی میں قومی ترانے کی تقریب کے دوران پریشر ککر دھماکے اور خودکش حملے کا منصوبہ بھی بنایا تھا، لیکن اس پروگرام کے معطل ہونے کی وجہ سے ان کا مشن ناکام رہا۔

انہوں نے کہا کہ دو خودکش بمبار جنہوں نے اس تقریب کو نشانہ بنانا تھا، رحیم پورہ (اچھرہ) میں قاری آصف محمود کی رہائشگاہ پر قیام کیا تھا، جو رحیم پورہ کی جامعہ قاسمیہ کے استاد ہیں۔

چوہدری شفیق نے کہا کہ شفیق شاہ نے 1992ء کے دوران کالعدم عسکریت پسند تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی، اور وہ کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کے ساتھ مختلف مقدمات میں مطلوب تھا۔ بعد میں وہ ٹی ٹی پی میں شامل ہوگیا اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کرنے لگا۔

اسی طرح راوی روڈ کے وارڈن اعظم بطور وارڈن اپنے انتخاب سے قبل کالعدم تنظیم میں شامل ہوا تھا۔ وہ سینئر پولیس افسران اور اہم حکومتی عمارتوں کو نشانہ بنانے میں مخبر کے طور پر کام کررہا تھا۔ اعظم کے والد ایک پولیس انسپکٹر تھے۔

سی سی پی او نے کہا کہ یہ مشتبہ افراد بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد اور ہتھیار وزیرستان سے لاتے تھے۔ ان لوگوں نے منصوبہ بنایا تھا کہ غیرملکی افراد کو قتل یا اغوا کرکے ملکی امیج کو خراب کیا جائے۔اس کے ساتھ ان کا منصوبہ تھا کہ اپنی سرگرمیوں کے لیے سرمائے کی فراہمی کے لیے اشرافیہ طبقے کے لوگوں کو اغوا کیا جائے۔

ایک سینئر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ تقریباً پچاس دن پہلے سی آئی اے پولیس ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی مدد سے پہلے وارڈن اعظم کو اور بعد میں قاری آصف محمود کو اُٹھایا تھا۔تب صوبائی دارالحکومت میں مئی 2012ء سے جاری ٹارگٹڈ کلنگ کے ایک سلسلہ میں ملؤث نیٹ ورک کا پتہ چلا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پولیس نے شفیق شاہ کو اور اس کے دو ساتھیوں کو وزیرستان سے گرفتار کیا،پھر مزید لوگوں کو بھی حراست میں لیا گیا، یوں اس سلسلے میں چودہ گرفتاریاں عمل میں آچکی ہیں۔ مذکورہ پولیس آفیسر نے کہا کہ اس سے پہلے سی آئی پولیس نے ایک نشانے باز عبدالرؤف گجر کو گرفتار کیا تھا، جو مولانا شمس الرحمان معاویہ، علامہ ناصر عباس، ایڈوکیٹ شاکر علی رضوی اور دیگر کے قتل میں براہِ راست ملؤث تھا۔

انہوں نے کہا کہ رؤف اور اس کے پانچ ساتھیوں کا، حال ہی میں گرفتار ہونے والے دہشت گرد شفیق شاہ اور قاری آصف کے ساتھ قریبی تعلق تھا۔

پولیس آفیسر نے بتایا کہ ان میں سے ایک سعید لاہور میں معروف شخصیات کو قتل کرنے کے لیے عبدالرؤف کو ہتھیار فراہم کرتا تھا، جبکہ ہارون جس نے رؤف کو ملک اسحاق اور ٹی ٹی پی سے متعارف کرایا تھا، اب بھی مفرور ہے، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں