ریاض: اتوار کو ایک اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے انتہائی قدامت پسند معاشرے میں یہ پہلا موقع ہے کہ خواتین کی کھیلوں میں حصہ لینے پر پابندی کے خاتمے کے بعد ایک ریاستی اسکول میں لڑکیوں کے لیے اسپورٹس متعارف کرایا گیا ہے۔

الحیات اخبار کے مطابق بحرِ احمر کے ساحلی شہر جدہ میں لڑکیوں کے عمل انسٹیٹیوٹ میں کھیلوں کی نئی سہولیات کی تعمیر کے بعد یہاں کی طالبات پچھلے ہفتے والی بال کے علاوہ باسکٹ بال، ٹینس اور ہاکی کے ٹورنامنٹ کے مقابلے میں حصہ لیا۔

اپریل کے مہینے کے دوران اس مسلم سلطنت کی شوریٰ کونسل، جو ایک مشاورتی ادارہ ہے، نے ایک گرماگرم بحث کے بعد طویل عرصے سے عائد پابندی کو ختم کرنے کی سفارش کی تھی۔

یاد رہے کہ نجی اسکولوں میں طالبات کے کھیلوں میں حصہ لینے کی پابندیوں میں پہلے ہی پچھلے سال نرمی کردی گئی تھی۔

اس مشاورتی ادارے کے ڈیڑھ سو اراکین کی اکثریت مردوں پر مشتمل ہے اور اس کے اراکین کا تقرر کیا جاتا ہے۔ اس کا کام صرف اپنی سفارشات کو وزارتِ تعلیم کی جانب آگے بڑھانا ہے، اس کے پاس ان کے نفاذ کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

سعودی عرب میں تعلیمی ادارے مخلوط نہیں ہوسکتے اور اس پر انتہائی سخت پابندی ہے، لیکن اس خلیجی ریاست میں لڑکیوں کے اسکول میں اسپورٹس ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے، جہاں عوامی مقامات پر خواتین سر سے پیر تک خود کو ڈھانپ کر رکھتی ہیں۔

شوریٰ کونسل نے اپنی سفارشات میں سعودی عرب کے اعلٰی سطح کے مذہبی پیشوا اور مفتی اعظم مرحوم شیخ عبدالعزیز بن باز کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ خواتین اسلامی قوانین کی طے کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اسپورٹس میں حصہ لینے کا حق رکھتی ہیں۔

سعودی خواتین کا اسپورٹس میں حصہ لینے کا معاملہ لندن میں منعقدہ 2012ء کے اولمپکس گیمز کے موقع پر سامنے آیا تھا، جب سلطنت کو بین الاقوامی دباؤ کے سامنے جھکنا پڑا تھا اور پہلی مرتبہ خواتین ایتھیلیٹ کو مقابلے میں بھیجا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں